یوم بدر جریدہ عالم پر نقش دوام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یوم بدر کے حوالے سے خصوصی تحریر
یوم بدر جریدہ عالم پر نقش دوام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
قانون فطرت ہے کہ جس چیز کو جتنا دبایا جاتا ہے وہ اتنا ہی ابھر کر سامنے آتی ہے،یعنی عمل جتنا شدید ہوتا ہے،ردعمل بھی اتنا ہی شدید واقع ہوتا ہے،یہ ایک بھی طے شدہ اصول ہے کہ ہرعمل اپنے اندرچند اسباب و محرکات رکھتا ہے،جو اپنے ظاہری اور خفیہ پہلووں پر محیط ہوتے ہیں،جنگ ہی کو لیجئے اِس کے کچھ اسباب فوری نوعیت کے ہوتے ہیں اور کچھ کا دورانیہ ایک طویل عرصے پر محیط ہوتا ہے،فوری وجہ تو صرف بہانہ بنتی ہے،لیکن اُس کے پس پردہ بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں،غزوہ بدر بھی کسی فوری اور اضطراری سوچ کا نتیجہ نہیں تھا،بلکہ حق و باطل کے اِس معرکے کی وجوہات پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت سے ہجرت مدینہ تک اَن گنت واقعات کے دامن میں پھیلی ہوئی ہیں،اگرچہ چند ایک واقعات کو اِس معرکہ کی فوری وجوہات میں شمار کیا جاسکتا ہے،لیکن درحقیقت یہ تصادم تو اُسی روز ناگزیر ہوگیا تھا،جس دن پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم نے کفر و شرک کے ظاغوتی ماحول میں اعلائے کلمة الحق کا پرچم بلند کیا تھا،جس روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ کو پتھر کے جھوٹے خداؤں کی پرستش ترک کرکے خداوحدہ لاشریک کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونے کی دعوت دی تھی،حقیقت یہ ہے کہ فاران کی چوٹیوں سے آفتاب ہدایت کے طلوع ہونے کے ساتھ ہی کفر کے اندھیروں نے اپنی بقاءکی جنگ کیلئے صف بندی کا آغاز کردیا تھا،اسلام اور پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سازشوں اور شرانگیزیوں کا سلسلہ اصل میں غزوہ بدر کا دیباچہ تھا،ہجرت مدینہ کے بعد مسلمانوں کے منظم ہونے سے اُن کی مظلومیت کا دور ختم ہوچکا تھا اور کفار مکہ کو یہ خدشہ کہ ”اگر مسلمان ایک منظم قوت بن کر ابھرے تو صرف اُن کا باطل اقتدار ہی نہیں بلکہ اُن کا صدیوں کا قائم باطل نظام بھی خطرے میں پڑجائے گا۔“حقیقت میں تبدیل ہونے لگا تھا ۔
وہ جس قوت کو کمزور اور ختم کرنا چاہتے تھے،وہ قوت مدینہ منورہ میں بڑی تیزی سے عوامی پزیرائی حاصل کررہی تھی،کفار مکہ نے مسلمانوں کو مٹانے کیلے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے،قدم قد م پر جبر و تشدد کا نشانہ بنایا،اُن پر زمین کی وسعتیں تنگ کر دی گئیں،لیکن مسافرانِ راہ حق جادہ حق پر رواں دواں ہی رہے،نہ انکے ارادے متزلزل ہوئے اورنہ ہی اُن کے پائے استقلال میں لغزش آئی ،زباں پر احداحد کا نغمہ ہی گونجتا رہا،ہجرت ِمدینہ کے بعد تو کفار کی اسلام دشمنی،نفرت اور انتقام کی خواہشیں تمام حدوں سے تجاوز کرگئی،کفر کے علمبرداروں کے تیور بتا رہے تھے کہ وہ اپنے صدیوں سے قائم باطل نظام کو بچانے کیلئے کچھ بھی کر گزریں گے اور اِس دشمنی میں وہ تمام اصول وضابطوں کو روند کر درندگی کی آخری حدوں کو بھی پھلانگنے سے گریز نہیں کریں گے،اِدھر پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے باطل ارادوں سے پوری طرح واقف تھے،آپ نے مہاجرین اور انصارِمدینہ کو جمع فرمایا اور ان سے ارشاد فرمایا کہ ”ایک طرف تجارتی قافلہ ہے اور دوسری طرف کفار کا لشکر،اللہ کا وعدہ ہے کہ اِن دونوں میں سے کوئی ایک تمہیں مل جائے۔ “حضرت مقدار بن عمرورضی اللہ عنہ اٹھ کر کہتے ہیں”یا رسول اللہ جدھر آپ کا ربّ آپ کو حکم دے رہاہے، اُس طرف چلیئے،ہم آپ کے ساتھ ہیں،بخدا ہم آپ کو وہ جواب نہ دیں گے جو بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام کو دیا تھا کہ آپ اور آپ کا ربّ جائیں اور اُن سے جنگ کریں ہم تو یہاں بیٹھے ہیں…. اُس ذات پاک کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اگر آپ ہمیں برک الغماد تک بھی لے چلیں تو ہم آپ کے ساتھ ہیں اور آپ کی معیت میں دشمن کے ساتھ جنگ کرتے جائیں گے۔“انصار میں سے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے نعرہ حق بلند کرتے ہوئے فرمایا ”یا رسول اللہ اگر آپ ہمیں سمندر میں گرنے کاحکم دیں تو ہم بھی آپ کے ساتھ سمندر میں چھلانگ لگادیں گے اور ہم میں سے ایک بھی شخص پیچھے نہ رہے گا ۔“
فضا تیار تھی اور وقت آگیا تھا کہ کفار مکہ کی بڑھتی ہوئی خود سری،سرکشی اور رعونت کا جواب بے نیام شمشیروں سے دیا جائے اور اُن کے جنگی جنون کو میدان جہاد میں ہی ٹھنڈا کیا جائے،چنانچہ خود پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام صحابہ کرام اعلائے کلمة الحق کی بلندی اور باطل کی سرکوبی کیلئے اذن جہاد کے منتظر تھے،پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم اِس اَمر سے بخوبی آگاہ تھے کہ راہ انقلاب میں سربکف چلنے والے قافلے ہتھیلیوں پر اپنے سروں کے چراغ جلاکر ہی منزل انقلاب سے ہمکنار ہوتے ہیں،خلعت شہادت زیب تن کئے بغیر نہ تو کلمہ حق کی بلندی کا فریضہ سرانجام دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی باطل استحصالی قوتوں کے مکمل خاتمے کی توقع کی جاسکتی ہے،پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نئی حکمت عملی کے تحت باطل پرکاری ضرب لگانے کیلئے فیصلہ کن مرحلے کے منتظر تھے کہ رب تعالیٰ کی طرف سے حکم ملتا ہے،”اجازت دی گئی اُن لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقینا اُن کی مدد پر قادر ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے صرف اِس قصور پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے۔“ (سورہ الحج 40-39)
سترہ رمضان المبارک 2 ہجری کی پر نور ساعتوں میں مجاہدین اسلام اپنے عظیم قائد امام المجاہدین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں توحید کا پرچم لہراتے ہوئے میدان بدر میں صف آراءہوتے ہیں،جہاں حق باطل کا پہلا معرکہ گرم ہونے والا ہے،جہاں اِس عقدہ کی گرہ کشائی ہونے والی ہے کہ جینے کا حق کس کو حاصل ہے اور موت کس کا مقدر ہے،جہاں اِس دعوئے کی تصدیق ہونے والی ہے کہ فدا کاری کے میدان میں کون کون جانوں کا نذرانہ پیش کرتا ہے اور کون موت سے ہم آغوش ہونے سے جی چراتا ہے اور جہاں اِس حقیقت کا بھی انکشاف ہونے والا ہے کہ باطل کو زیروزبر کرنے والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر نثار ہونے والے جریدہ عالم پر اپنا نقش دوام کس طرح ثبت کرتے ہیں،بدر کی فضا الجہاد الجہاد کے نعروں سے گونج رہی ہے،چشم فلک حیران و ششدر ،جاں نثاران مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمتاتے ہوئے چہروں اور چمکتی ہوئی آنکھوں میں اسلام کا روشن مستقبل دیکھ رہی ہے،داستان حریت کا ایک نیا باب رقم ہونے جارہا ہے اور بے سروسامانی کے عالم میں دنیا وآخرت میں سروخروئی کا سامان فراہم کیا جارہا ہے،آج بدر کا میدان جنگ اُن کے دعوائے ایمان کا پہلا مظہر ہے،تاریخ عالم یہ منظر حیرت سے دیکھ رہی ہے کہ ایک طرف کفار مکہ کا ایک ہزار کا لشکر جرار تو دوسری طرف تین سو تیرہ فداکار دوجہاں،رسول انس و جاں صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں باطل سے نبرد آزما ہونے کیلئے نشہ شہادت سے سرشار،ایک طرف ہتھیاروں کی فراوانی دوسری طرف تن عریانی،ایک طرف سامان حرب پر بھروسہ،دوسری جانب ربّ کریم پر تکیہ،آج اُن کی سخت آزمائش اور امتحان کا وقت ہے کیونکہ سامان حرب اور افرادی قوت سے قطع نظر اُن کے مقابلے پر اُن کے قریبی اعزاء و اقرباءہیں،باپ کے مقابلے پر بیٹا،بھائی کے مقابلے پر بھائی،مگر اسلام کی عظمت و سربلندی اور خدا اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت آج تمام رشتوں سے بالاتر ہے،بدر کامیدان بتارہا ہے کہ کمند اسلام سے رشتہ جوڑنے والوں کو سب غیر اسلامی رشتے توڑنے پڑتے ہیں،اسلام کی راہ میں اگر خونی رشتے بھی حائل ہوں تو اُن کے حلقوم پر چھری چلانا پڑتی ہے،باپ کو بیٹے سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے،بھائی بھائی کا گلا کاٹتا ہے ۔
ہوئی حائل نہ راہ حق میں ندی شیر مادر کی
کہ بڑھ کر کاٹ لی گردن برادر نے برادر کی
مجاہدین اسلام تاریخ میں اپنے رخ کو متعین کرنے کیلئے بے قرار ہیں،انہوں نے تمام دنیاوی عیش و عشرت اور لذتوں سے منہ موڑ لیاہے اور اب وہ خدا اور اُس رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ جوڑ کر دونوں جہاں میں کامیابی سے ہمکنار ہونا چاہتے ہیں، مجاہدین آرزو شہادت میں پرجوش ہیں اور پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم ربّ کریم کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہیں،ردائے مبارک بار بار شانوں سے سرک جاتی ہے،فضائے بدر لب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے نکلی ہوئی دعا سے معمور ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے ہیں”اے اللہ تو اپنا وعدہ پورا فرما،خدایا یہ سامان غرور کے ساتھ آئے ہوئے قریش تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کرنا چاہتے ہیں،اے خدا اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو قیامت تک روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔“بارگاہ ایزدی میں گریہ وازاری کی یہ کیفیت دیکھ کر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ عرض کرتے ہیں ،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ اللہ کے سچے رسول ہیں،اللہ ضرور اپنا وعدہ پورا فرمائے گا اور فتح مسلمانوں کو نصیب ہوگی،نماز فجر کے بعد پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم جاں نثاران مصطفی کی صف بندی فرماتے ہیں،آپ صفوں کو آراستہ کرتے جاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ سرداران قریش کی موت کی پیشین گوئی کرتے جاتے ہیں،ارشاد مبارک ہورہا ہوتا ہے،ابوجہل یہاں مارا جائے گا،عتبہ یہاں قتل ہوگا،اُمیہ یہاں خاک نشین ہوگا،دنیا دیکھتی ہے کہ جنگ کے خاتمے کے بعد سرداران قریش ٹھیک اُن ہی مقامات پر ڈھیر تھے جن کی پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم نے نشاندہی فرمائی تھی،قلت تائید ایزدی سے کثرت پر غالب آتی ہے،باطل شکست کھاکر الٹے پاوں بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور غازیان اسلام کو فتح مبین حاصل ہوتی ہے،معرکہ بدر اسلام کیلئے نقطہ عروج ثابت ہوتاہے اور اِس معرکے کے مذہبی اور ملکی حالات پر دور رس نتائج مرتب ہوتے ہیں،دیکھاجائے تو بعثت نبوی کے بعد حقیقاً یہ اسلام کی ترویج و اشاعت اور سربلندی کی جانب پہلا قدم تھا،جس نے کفر کی قوت کو ختم اور اُن کے باطل زعم کو حرف غلط کی طرح مٹادیا تھا،نصرت خداوندی نے مٹھی بھر مسلمانوں کو فتح و نصرت سے سرفراز فرمایا اور مجاہدین اسلام نے ثابت کردیا کہ راہ حق میں اعداد و شمار اور عددی برتری کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔
اِس غزوے کے بعد مسلمان ایک قوت قاہرہ بن کر ابھرے اور آزادی وحریت کے گیت گاتے ہوئے ابرکرم بن کر دنیا پر سایہ فگن ہوگئے، اِس غزوے نے مسلمانوں کی بہادری و جرات کی دھاک سارے عرب پر بیٹھادی،اِس معرکے نے ایک نئی تہذیب کو جنم دیا،بتان شعوب کی گردن کاٹی گئی،غرور،حسب و نسب کو خاک میں ملادیا گیا اور اِس غزوے کے بعد نصف صدی کے اندر اندر مسلمانوں نے ساری دنیا کا نقشہ بدل کر رکھدیا،اونٹوں اور بکریوں کے چرواہے اورصحراوں کے بدوں نے پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں قیصر و کسریٰ کی قباوں کو چاک کر ڈالا اور انہوں نے ثابت کردیا کہ دنیا کے بڑے سے بڑی طاقت انہیں جادہ حق سے ہٹا نہیں سکتی،کیونکہ وہ فتح و شکست سے بے نیاز ہوکر صرف اور صرف رضائے الہٰی کے حصول کیلئے لڑتے ہیں،دوستو!…..یوم بدر غلبہ دین حق اور ابطال باطل کا دن ہے،اِس دن کفر کے مقدر میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ذلت آمیز شکست لکھ دی گئی اور اِس دن مطلع انسانیت پر ایک ایسی روشن صبح طلوع ہوئی جس سے کفر کے ایوانوں پر قیامت تک کیلئے لرزہ طاری ہوگیا،معرکہ بدر اسلام سے تجدید عہد وفا کا دن ہے،یہ دن اِس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ رزم حق و باطل میں میدان جنگ میں نکلنا اور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ملانا نہایت ضروری ہے،صحابہ کرام جہاد کی تمنا میں جیتے تھے اور شہادت کے آرزو مند رہا کرتے تھے،اُن کے پیش نظر ہمیشہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہوا کرتا تھا”جس(شخص کے)دل میں جہاد کی آرزو نہیں وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔“”میری اُمت میں جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔“آج اُمت مسلمہ ذلت و رسوائی اور محکومی و غلامی کے گڑھے میں گری ہوئی ہے،جس کی اصل وجہ اپنے ماضی سے قطع تعلق اور دوری ہے،اُمت مسلمہ کو دوبارہ بام ثریا تک پہنچانے اور وقت کی یزیدی قوتوں کے خاتمے کیلئے فضائے بدر کا پیدا کیا جانا بہت ضروری ہے،آج ایک بار پھر ہمیں اُسوہ مجاہدین بدر کو حرز جاں بناکر وقت کی ابوجہلی قوتوں کے خاتمے،اسلام کے روشن مستقبل اور غلبہ دین حق کیلئے میدان جہاد کی جانب چلنے کی تیاری کرنا ہوگی ۔
٭٭٭٭٭