URDUSKY || NETWORK

بندگی

145

بندگی یا عبادت سے مراد آخری درجے کی عاجزی و انکساری ہے یعنی بندہ اپنے رب کے سامنے جس عاجزی و تعظیم کی آخری حد کو چھو جاتا ہے اسکا نام بندگی ہے جو کہ تمام جن و انس کا مقصد حیات بھی ہے ۔جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی کریں “(الذر ےٰت 51 ،آیت 56 )
انسان کا مقصدِ حیات

اس کائنات میں جو بھی مخلوقات موجود ہیں وہ اللہ کی عبادت میں مشغول ہیں اور ہر ایک کو اپنی عبادت کا طریقہ معلوم ہے اور اس میں غرق ہے ۔ جمادات(Minerals, Stoneبے حرکت کوئی نشونما نہیں، کوئی نقل مکانی نہیں اور نہ ہی کوئی سمجھ بوجھ)، نباتات ( Plant نشونما تو ہے مگر کوئی نقل مکانی نہیں اور نہ ہی کوئی سمجھ بوجھ) اور حیوانات (Animalسب کچھ ہے مگر محدود سمجھ بوجھ اور جبلت کے پابند) اور ایک ہم اللہ تعالیٰ کی شاندار مخلوق جسے اِرادہ (Freedom of Choice) اور خود مختاری دی گئی ہے اور ہم جبلت کے بھی غلام نہیں جبکہ ہمیں عقل جیسے اِنعام سے نوازا گیا ہے کہ جو علم کی روشنی میں دیکھتی ہے اور علم وہ نور ہے جو ہمارا رابطہ کائنات کی اصل سے کروا دیتا ہے۔اور یہ علم کا ہی کمال ہے کہ ہم اپنی دنیا کی حد بندی کرتے ہیں۔ اسی علم کی بدولت انسان عروج و کمال کی اس منزل تک جا پہنچتا ہے جہاں اللہ کا نائب کہلانے کا حق دار کہلاتا ہے ۔ جبکہ اشرف المخلوقات ہونے کا شرف بھی انسان کے پاس ہے ۔

مخلوقات اور بندگی

دوسری مخلوقات جو اس کائنات میں موجود ہیں ان کے بارے میں ربّ العزت فرماتے ہیں ۔

* ”کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور پر پھیلا تے ہوئے پرندے بھی (اسکی تسبیح کرتے ہیں) اور ہر ایک (اللہ کے حضور ) اپنی نماز اور اپنی تسبیح کو جانتا ہے، اور اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو وہ انجام دیتے ہیں“ (نور 24 ،آیت41 )
* ”سورج اور چاند (اسی کے) مقررہ حساب سے چل رہے ہے“ (الرحمن 55 ، آیت 5 )
* ”اور زمن پر پھیلنے والی بوٹیاں اور سب درخت (اسی کو) سجدہ کررہے ہیں“(الرحمن 55 ، آیت 6 )

ربّ العزت کو بندے سے عبادت کروانے کی ضرورت کیوں پیش آئی

اگر ایک طرف دُعا مانگنا عبادت ہے تو دوسری طرف نماز ، روزہ، حج، عمرہ، ذکر، قربانی، جہاد، تبلیغ، ہجرت بھی عبادات کے زمرے میں آتے ہیں۔ عبادات ظاہری ہوں یا باطنی مقصد ایک ہے جبکہ دونوں طرح کی عبادت کے جداگانہ ضرورت بھی اہم ہے یعنی ظاہری عبادت کے اپنے ثمرات ہیں اور باطنی کے اپنے اب یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ آیا ربّ العزت کو بندے سے عبادت کروانے کی ضرورت کیو ں پیش آئی حالانکہ ربّ العزت کو اس کی ضرورت نہیں۔ اس کائنات میں جاری اللہ کی سنت کو سمجھتے ہوئے زندگی گزارنے کا عمل ہی عبادت کی روح ہے ،جبکہ بندہ اپنے ربّ کے سامنے عاجزی و انکساری کرتے وقت اس کےفےت سے گزرہا ہوتا ہے کہ جیسے گویا اپنے آپ کو تروتازہ (Neutralise) کررہا ہوتا ہے۔ کیونکہ معاملات زندگی میں سے گزرتے وقت ہم حالات واقعات پر دو اقسام کی رسائی (Approach ) رکھتے ہیں یعنی مثبت ( Optimistic )اور منفی (Pasimistic ) اور اگر ہم کسی شے تک منفی نقطہ نظر یا رویہ سے پہنچ کرتے ہیں تو یہ عمل ہمارے لئے ایک بُرا بیج (Seed ) ثابت ہوتا ہے اور اگر اس کو ختم نہ کیا جائے تو آہستہ آہستہ ایک تنا آور درخت بن کر ساری زندگی پر محیط پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ ہماری بد عملیاں اور منفی جذبے اور رویے (حسد، لالچ، مکر، فریب، دھوکہ دہی، نفرت اور خوامخواہ کے خوف وغیرہ) وہ زنگ ہیں جو ہمارے من (قلب) پہ زنگ کی ملمع کاری کی طرح تہہ در تہہ چڑھتے رہتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ باہر کی روشنی اندر دکھائی نہیں دیتی اکثر اوقات خوش بختی، سکون اور راحت باہر سے دستک دیتے ہیں اور اندر آنے کا راستہ تلاش کرتے ہیں مگر اندر کے یہ دُشمن اِنہیں گھسنے نہیں دیتے۔

ہر فرد کی اپنی دنیا اور اپنا زندگی کا تجربہ ہے مگر یہ اس بات پر انحصار کرتاہے کہ آپ کا علم کتنا ہے؟ یعنی جتنا علم زیادہ ہو گا اتنی دنیا بڑی ہو گی اور علم کے مطابق عمل پذیر ہوگا۔البتہ اگر علمِ نافع ہو تو عمل صالح ہو گا اور اگر علم اس کے تضاد میں ہو گا تو عمل بھی بد عملی کی شکل اختیار کر جائے گا۔ تمام وہ بداعمال جو ایک انسان سے وقوع پذیر ہوتے ہیں ان سے وہ طرح طرح کی پریشانیوں اور بیماریوں میں مبتلا رہتاہے۔ جوکہ نتیجہ میں زندگی کو جہنم بنا دیتے ہیں۔ لہذا ان ملاوٹوں (Impurities ) سے چٹکارا پانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے طرح طرح کے عبادات کے انعامات(Gifts)بھیجے ہیں کہ میرا بندہ اگر انجانے میں مشکلات میں گھر گیا ہے تو وہ اپنی اصلیت اور نارمل حالت میں واپس آ جائے ۔ جبکہ عبادات وہ اچھے بیج، زاویے اور رابطے ہیں جو ہمیں خوشبختی کی نئی دنیاؤں سے روشناس کرواتے ہیں اور یہ بیج ہمارے اپنے اعمال کے باعث اپنا وجود پاتے ہیں۔ دراصل عبادت میں انسان اپنے اندر کے کل (Thermostat )کو درست کر رہا ہوتاہے۔ اگر ایک طرف نفرت کے کل کو درجہ صفر(Zero Value ) پہ لارہا ہوتاہے تو دوسری طرف محبت کو 100 کے درجے پہ لاگو(Set )کر رہا ہوتا ہے ۔اسی طرح غم کو اگر صفر درجہ پہ باندھ (Fix ) رہا ہوتا ہے تو دوسری طرف خوشی کو 100 کے درجہ پہ لےجا رہا ہوتا ہے اور اس طرح جذبوں اور رویوں کےThermostat اپنی اعلیٰ حےثےت پہ قائم ہو جاتے ہیں۔

جدید سائنس اور عبادات

آج کی جدید سائنس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ انسانی ذہن ایک مقناطیس (Magnet )کیطرح سے کام کرتا ہے اور ہر وہ شئے اپنی طرف کھینچتا ہے جس کے بارے میں انسان سوچ رہا ہوتا ہے۔جیسا کہ خوشی کے مواقع پر انسان کو ہر طرف خوشی نظر آتی ہے جبکہ غم و پریشانی کے عالم میں دنیا بھر میں کرب اور تکلیف دکھائی دے رہی ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ در اصل اسی قانون کے مطابق ہے کہ انسانی ذہن جس سوچ و فکر میں مگن ہے وہ اپنے اردگرد اسی طرح کے حالات و واقعات اکٹھا کرتا جارہا ہے ۔آپ اسکو ایک ایسا ہی عمل کہہ سکتے ہیں جیسے آپ انٹر نیٹ پر سرچ انجن جیسے Google میں جا کر کچھ تلاش کرنا چاہیں تو سرچ انجن ویب سائٹ آ پکو لاکھوں نئی ویب سائٹس لاکر آپ کے سامنے رکھ دے گا مگر یہ تمام ویب سائٹس اس سے ملتے جلتے ہوں گے ۔جو کچھ آپ سرچ باکس میں لکھیں گے اور ملتی جلتی معلومات کا ڈھیر لگ جائے گا۔اسکو تلازمہ(Like Attracts Like)بھی کہہ سکتے ہیں ۔ تلازمہ خیال اس وقت کام کرتا ہے جب کسی بات ،لفظ ،فکرکو ذہن میں تصور (imagine, Visualize) کرکے بے خیال (Free Mind) ہو جائیں یا پھر اسکی تکرار کرتے ہیں اور نتیجہ میں اسکے ثمرات حاصل ہوتے ہیں جیسا کہ اﷲ تعالیٰ ایک صفاتی نام السلام (The Source of Peace) جب کسی زبان سے ادا ہوتا ہے یا ذہن سے تصور کیا جاتا ہے تو کائنات سے سلامتی ،امن کا رجوع اس انسان کی طرف رابطہ (Channal)بنتا ہے جبکہ اس کے ثمرات صحت و سلامتی کے باعث بنتے ہیں۔

بندگی کے ثمرات

عبادات میں دراصل انسان کے اندر Read/Write کا عمل وقوع پذیر ہورہا ہو تا ہے اگر ایک طرف توبہ گناہوں اور بد عملیوں کے اثرات کا قلع قمع کررہی ہوتی ہے تو دوسری طرف مثبت جذبے اور رویے اپنے اعلیٰ درجوں پہ (Optimum Level ) پہ قیام پذیر ہو رہے ہوتے ہیں۔اور ان کے ثمرات ہماری زندگی کو حالت مثبت(Optimism ) کی طرف لےجا رہے ہوتے ہیں۔ انسان کی تمام پریشانیاں اور تکالیف اسکے اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہیں جبکہ عبادت ایک ایسا عمل ہے جو کہ انسان کو واپسی کی طرف لانے کا موجب بنتا ہے جس کے باعث ایک انسان اپنے قلب و سوچ کو شفاف کرتا ہے جو کہ منفی سوچ اور عمل کے باعث زنگ آلودہ ہو چکا ہوتا ہے۔ جب زندگی کے تسلسل کا عمل چلتا ہے تو انسان خیر و شر دونوں کے درمیان زندگی گزارتا ہے اور عبادات جو کہ اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہیں ایک انسان کو اس کے زندگی کے تسلسل کو قدرتی انداز میں رکھنے کا باعث بنتی ہیں.جبکہ بندہ اپنے ربّ کے سامنے عجزو انکساری کررہا ہوتا ہے اور اس کے اندر کی حالت بھی تبدیل ہورہی ہوتی ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ انسان اپنے ربّ کی نعمتوں کا شکر ادا کرکے اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کر تاہے۔ اور چاہتا ہے کہ اللہ بندے کے گناہوں کو بخش دے ، صالحین میں شامل کرے اور د نیا میں خاتمہ ایمان پہ ہو اور آخرت میں بخشش عطا فرما دے۔
محمدالطاف گوہر