نیپال میں گینڈوں کے شکار کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے نیشنل پارک کے وارڈن نریندر مان پردھان اپنے ساتھی فوجیوں کی پوری ایک بٹالین کے ساتھ ان جانوروں کے غیر قانونی شکارکو روکنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
نریندر مان پردھان کے بقول ان کوششوں میں ان کا سب سے مؤثر ہتھیار ان مقامی رضاکاروں کا وہ پورا نیٹ ورک ہے، جو ناپید ہو جانے کے خطرے کے شکار جانوروں کے غیر قانونی طور پر شکار کیے جانے کے خلاف اپنی ایک باقاعدہ تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں اور جو سرکاری اہلکاروں کو غیر قانونی طور پر جانوروں کا شکار کرنے والے افراد کے بارے میں بڑی کارآمد معلومات مہیا کرتے ہیں۔
ماضی میں شمالی بھارت اور نیپال کے میدانی علاقوں میں ایک سینگ والے ایسے گینڈوں کی تعداد ہزاروں میں ہوا کرتی تھی، جو وہاں آزادی سے گھومتے پھرتے رہتے تھے اور جن کی افزائش نسل کے عمل کو بھی کوئی خطرہ نہیں تھا۔ لیکن گزشتہ چند عشروں میں وہاں ایسے جانوروں کی مجموعی تعداد میں ڈرامائی کمی دیکھنے میں آئی ہے، جس کے دو بڑے اسباب یہ ہیں کہ ایک تو ان کا غیر قانونی شکار وسیع پیمانے پر کیا جانے لگا ہے اور دوسرے یہ کہ مقامی آبادی نے ان جانوروں کے زندہ رہنے کے لیے ضروری قدرتی ماحول والے علاقے زیادہ سے زیادہ اپنے استعمال میں لانا شروع کر دیے ہیں۔
گینڈے کے سینگ کے بارے میں یہ بات بڑی اہم ہے کہ چین میں اسے اس کے طبی خواص کی وجہ سے کافی زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی بلیک مارکیٹ میں ایسا صرف ایک سینگ، جو صرف کسی گینڈے کو ہلاک کرنے کے بعد ہی حاصل کیا جا سکتا ہے، کئی ہزار امریکی ڈالر کے عوض ہی ملتا ہے۔
نیپال میں چند سال پہلے ختم ہونے والی، لیکن قریب ایک عشرے تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے دوران ان گیندوں کی مجموعی آبادی انتہائی کم رہ گئی تھی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ملکی فوج، جسے ماؤنواز باغیوں کی مسلسل بڑھتی ہوئی مسلح کارروائیوں کا سامنا تھا، اس نے ملک کے تقریباﹰ سبھی نیشنل پارکوں میں اپنی چوکیاں خالی کر دی تھیں، جس کے نتیجے میں ان بہت وزنی جانوروں کا غیر قانونی شکار بھی بہت زیادہ ہو گیا تھا۔
اب ایک اچھی پیش رفت یہ ہے کہ جب سے سن 2006 ء میں نیپال میں خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا ہے، ملکی فوج کے اہلکاروں نے نیشنل پارک کہلانے والے علاقوں میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنی چوکیوں میں واپس لوٹنا شروع کر دیا ہے۔ اسی لیے اب قدرتی ماحول والے ان محفوظ جنگلاتی علاقوں میں انگریزی میں Rhino کہلانے والے ان جانوروں کی تعداد بھی بڑھنا شروع ہو گئی ہے۔
نیشنل پارک کہلانے والے انہی محفوظ علاقوں میں سے ایک ملکی دارالحکومت کٹھمنڈو سے 230 کلو میٹر جنوب مغرب کی طرف واقع چتوان نیشنل پارک بھی ہے، جہاں سرکاری اہلکاروں کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے سرگرم رضاکار بھی اپنے قدرتی ماحول میں رہنے والے جنگلی جانوروں کو بچانے کی پوری کوششیں کر رہے ہیں۔
گینڈے کا سینگ اپنے روایتی طبی خواص کی وجہ سے چین میں کافی زیادہ استعمال کیا جاتا ہےنیپال میں ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ WWF کے ایک اعلیٰ عہدیدار دیواکار چھاپاگین کہتے ہیں کہ 2006ء سے ان کے ادارے نے ملک میں جنگلی حیات کے تحفظ کا ایک نیا پروگرام شروع کر رکھا ہے۔ اس پروگرام کے تحت مثال کے طور پر نہ صرف چتوان نیشنل پارک میں جنگلی جانوروں کے تحفظ فراہم کیا جاتا ہے، جہاں فوجی دستوں کی طرف سے حفاظتی گشت پہلے ہی جاری رہتا ہے، بلکہ مقامی آبادی کے کئی گروپوں کی مدد سے اب اس پارک کے ارد گرد 750 مربع کلو میٹر رقبے پر پھیلا ہوا ایک ایسا بفر زون بھی قائم کیا جا چکا ہے، جہاں جنگلی شیر، گینڈے اور ہاتھی بھی راستہ بھول کر آ جاتے ہیں، مگر جہاں ان کی زندگیوں کو کوئی روایتی خطرہ نہیں ہوتا۔
چتوان نیشنل پارک گھنے جنگل اور لمبی گھاس والا ایک ایسا علاقہ ہے، جس کا مجموعی رقبہ 932 مربع کلو میٹر بنتا ہے۔ صرف اس ایک پارک میں فرائض انجام دینے والے نیشنل پارکس کے نگران محکمے کے کارکنوں کی تعداد 300 بنتی ہے جبکہ اسی پارک میں مسلسل گشت کرتے رہنے والے نریندر مان پردھان کے ساتھی فوجیوں کی تعداد بھی 700 کے قریب ہے۔ اس کے باوجود اس پارک میں جنگلی جانوروں کو غیر قانونی شکار کرنے والے مجرموں سے محفوظ رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
نریندر مان پردھان کے بقول اس پارک میں صرف گشت کر کے غیر قانونی شکار کرنے والوں کو روکنا تقریباﹰ نا ممکن ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ خاص طور پر برسات کے موسم کے بعد اس پارک میں قدرتی گھاس اتنی اونچی ہو جاتی ہے کہ کسی کے لیے بھی اپنے سامنے 50 میٹر سے زیادہ فاصلے تک کچھ بھی دیکھ سکنا ممکن ہی نہیں رہتا۔
اس کے باوجود یہ امر خوش آئند ہے کہ نیپال کے نیشنل پارکوں میں کم از کم سن 2006 ء کے بعد سے WWF، مقامی رضاکاروں اور ملکی فوج کی مشترکہ کوششوں سے ایسے جانوروں کی مجموعی تعداد بہت کم ہو گئی ہے، جو ہر سال غیر قانونی شکار کے دوران ہلاک کر دیے جاتے تھے
۔بشکریہ ڈی ڈبلیو دی