اس قسم کے وسوسے اور خوف انسانوں میں کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق یہ ذہنی بیماری ہوتی ہے جسے کبھی ’Neurosis‘ کہا جاتا تھا۔ تاہم کچھ عرصے سے اسے ’Anxiety‘ یا خوف واضطراب، ذہنی خلل یا بے چینی کا نام دیا جانے لگا ہے۔ اس بارے میں ’جرمن سوسائٹی فار سائیکیاٹری اینڈ سائیکو تھیراپی‘ سے منسلک ماہرین نفسیات کی ایک کمیٹی نے مزید ریسرچ کی ہے۔
جرمن ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ذہنی خلل بہت سی مختلف کیفیات میں ظاہر ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کو نگلنے میں بہت مشکل ہوتی ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے گلے میں گلٹی نما کوئی چیز ہے۔ بعض افراد ہمیشہ اداسی اور پژمُردگی کی کیفیت میں رہتے ہیں، جبکہ ان کے پاس نہ تو اداسی کی کوئی وجہ ہوتی ہے نہ ہی وہ کسی حقیقی صدمے کا شکار ہوتے ہیں۔ تب بھی وہ ہراساں رہتے ہیں اور ایسی فکر و پریشانیوں میں گہرے رہتے ہیں جن کا کوئی وجود یا وجہ نہیں ہوتی۔ ’جرمن سوسائٹی فار سائیکیاٹری اینڈ سائیکو تھراپی‘ کی کمیٹی کی ایک رکن سابینے ہرپرٹس کا کہنا ہے کہ خوف اور اندیشے کی یہ کیفیت ایک ذہنی بیماری ہے۔ اس کے شکار مریضوں کو بس یہ محسوس ہوتا رہتا ہے کہ اُن کے ساتھ کوئی غیر معمولی بات ہے تاہم وہ یہ نہیں سمجھ سکتے کہ یہ دراصل ان کا ایک دماغی خلل ہے۔ جرمنی کی بیلیفلڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی ، بچپن اور بلوغت کے دورکی نفسیات کی ماہر نینا ہائینرشس کا کہنا ہے کہ فہم عامہ میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ مسلسل محسوس ہونے والے ذہنی ایذا یا الجھن پر خود قابو پا سکے۔
جرمن ماہرین کے مطابق دور حاضر میں شاید ہی کوئی دوسرا مرض اتنی تیزی سے پھیل رہا ہے جتنا کہ ذہنی خلل یا نقص۔ مزید یہ کہ دماغی نقص اُن چار اہم ترین وجوہات میں شامل ہے، جن کے سبب لوگ بہت سے کاموں کے لیے غیر موزوں یا نا اہل قرار دے دیے جاتے ہیں، نیز قبل از وقت ریٹائرہونے والے تین افراد میں سے کم از کم ایک فرد ذہنی خلل کا شکار ہوتا ہے اور یہی اس کی ریٹائرمنٹ کی وجہ بنتی ہے۔
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ’Neurosis‘ کے عارضے کی عمومی یا کُلی وجوہات نہیں ہوتیں تاہم بچپن کے کسی ناخوشگوار واقعے یا تجربے کے نقوش یا کوئی صدمہ جولاشعور میں کہیں چھپا ہوتا ہے اور جن نفسیاتی زخموں کو بعض افراد بھلا نہیں پاتے، وہی آہستہ آہستہ ذہنی خلل اور گونا گوں دماغی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔
DW-World