سید بدر سعید . لاہور
ابھی کل رات کی بات ہے کہ اسلام آباد سے ایک پروڈیوسر کا فون آیا ۔ ہم نے ادب سے سلام کیا تو جواب دینے کی بجائے کہنے لگے
” بدر میاں ! اگر میں مر گیا تو تم کیا کرو گے ؟“
ہم نے ادب سے کہا ” سر! میں آپ کی قبر پر چاول ڈالوں گا“
کوئی اور ہوتا تو شاید غصے سے فون بند کر دیتا لیکن موصوف چونکہ شادی شدہ ہیں لہذا اس قسم کی باتیں سن کر برا نہیں مانتے بلکہ اکژر اوقات یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ
اب تو یہ حال ہے کہ جب تک کوئی دو چار سنا نہ دے کھانا ہضم نہیں ہوتا (غالبا بھابھی کا نام ”کوئی“ رکھا ہوا ہے )بس یہی وجہ تھی کہ کل بھی انہوں نے برا ماننے کی بجائے اگلا سوال داغ دیا کہ
” چاول ہی کیوں ۔۔۔پھول کیوں نہیں ؟؟؟
ہم نے ادب کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور انہیں احسن طریقے سے سمجھایا کہ فروری کے آغاز سے ہی پھول مہنگے ہو جاتے ہیں (پہلے صرف چودہ فروری کے دن ہی مہنگے ہوتے تھے لیکن جب سے عاشقوں نے پھول فریز کرنے شروع کر دیے ہیں تب سے پھول فروش بھی چلاک ہو گئے ہیں ) دوسری طرف ہماری مالی حالت اتنی بھی اچھی نہیں کہ ان دنوں آپ کی قبر پر پھول رکھ سکیں ۔چاول چونکہ گھر میں موجود ہیں لہذا وہی پیش کر سکتے ہیں ویسے بھی عقیدت کے اظہار کے ساتھ ساتھ آپ کے قرض خواہوں کو ہی یقین دلانا ہے کہ آپ اب اس دنیا میں نہیں رہے ، تو اس مقصد کے لیے پھولوں کا استعمال ہو یا چاول کا ، کیا فرق پڑتا ہے؟؟اور پھر آپ نے بھی کونسا باہر آکر دیکھ لینا ہے کہ کس نے کیا رکھا ہے؟اور اگر کسی طرح دیکھ بھی لیا تو جب دوسروں کے پھول سونگھیں گے تب ہمارے چاول بھی تناول کر لیجئے گا ۔ان دنوں پھولوں کی نسبت سستے ضرور ہیں لیکن پھر بھی پیٹ بھر دیتے ہیں
معلوم نہیں کیوں احباب نے ویلنٹائن ڈے کو محبت کی علامت بنا رکھا ہے اور اس دن اپنے محبوب کو ایک سال کے لیے گلاب کا ایک ایسا پھول دیتے ہیں جو اگلے ہی دن مرجھا جاتا ہے ۔
صاحبو! ہمیں محبت کی اہمیت سے انکار نہیں کیوں کہ محبت زمانہ قدیم سے ہی پنپنے والا ایک ایسا جذبہ ہے جس پر کسی کو اختیار نہیں ۔سنا ہے کہ زمانہ قدیم میں افریقہ کے جنگلوں میں ایک ایسا قبیلہ آباد تھا جس کے عاشق اپنی محبوبہ کو پھول کی جگہ انسانی کھوپڑی دیا کرتے تھے اور وہ محبوبہ بھی چھپکلی سے ڈرنے والی آج کل کی لڑکی نہیں ہوتی تھی لہذا بہت فخر سے اس کھوپڑی میں پانی یا دودھ پیا کرتی تھی ۔ اس زمانے میں لوگوں کو ویلنٹائن ڈے کا علم نہ تھا شاید اس لیے وہ ان مشکلات سے نہیں گزرے جن کا سامنا آج کل کے لوگوں کو کرنا پڑتا ہے ۔آپ خود غور کریں کہ اس میں بھلا کیا مشکل ہے کہ جب دل کیا کسی کا سر کاٹ کر محبوبہ کے چرنوں میں رکھ دیا۔ ویسے ہمارا ذاتی خیال یہی ہے کہ وہ سر بھی محبوبہ کے بھائی کا ہی ہوتا ہوگا کیونکہ اسے کاٹنا اکثر عاشقوں کی دلی خواہش ہوتی ہے
زیادہ دور نہیں جاتے ابھی 12 ماہ پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک دوست شاہ صاحب نے کسی حسینہ کو اپنی خالص حرام کی کمائی سے خرید کر ایک عدد پھول پیش کیا جو موصوفہ کے بھائیوں نے ”خندہ پیشانی“ سے وصول کیا اور وصولی کی رسید تھما کر جناب کا رخ ہسپتال کی جانب موڑ دیا ۔شاہ صاحب کے ساتھ جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا لیکن اس کے نتیجے میں ہمارے ساتھ جو ہوا وہ ایک الگ کہانی ہے
ہوا کچھ یوں کہ شاہ صاحب کی حالت کا سن کر ہم نے ان کی عیادت کا سوچا۔کسی ظالم نے کہ دیا کہ ہسپتال جاﺅ تو پھول لے کر جانا چاہیے ۔اس کی جو وجہ ہمیں سمجھ آئی وہ یہی ہے کہ اگر مریض مر جائے تب بھی آپ کے پھول رائیگاں نہیں جاتے ۔کسی نہ کسی کام آ ہی جاتے ہیں ۔ پھول لے جانے کا یہ مقصد ٹھیک ہے یا نہیں اس کا تو ابھی ہمیں نہیں پتا لیکن اس دن ہمیں پھولوں کی اہمیت کا اندازہ ضرور ہو گیا ۔14 فروری کا دن تھا ہم نے جس سے بھی پوچھا کہ پھول کہاں سے ملیں گے اس نے ہماری جانب ایسے دیکھا جیسے ہم نے غلطی سے پھولوں کی بجائے آٹے کا پوچھ لیا ہو۔آخر بہت سی مشکلات کے بعد معلوم ہو ہی گیا کہ شہر میں پھول کس کس جگہ دستیاب ہیں ۔اب وہاں گئے تو ایک اور مسئلہ کھڑا ہو گیا وہ یہ کہ کوئی بھی ہمیں درمیانہ ریٹ پر پھول دینے کو تیار نہ تھا ۔ہم نے لاکھ کہا کہ حضور یہ پھول کسی محبوبہ کے لیے نہیں بلکہ ایک ٹوٹے پھوٹے عاشق کے لیے ہے لیکن کسی کو بھی ہماری سچائی پر یقین نہ آیا۔ایک شخص نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ
ٓ”آج کے دن بھی پھول خریدتے ہوئے بحث کر رہے ہو؟“ اب ہم اس ناہنجار کو کیا کہتے کہ اگر آج کے دن پھول خریدنے کی ہمت ہوتی تو کیا یہاں جھک مار رہے ہوتے ؟
قصہ مختصر جب ہر طرف سے مایوس ہو گئے تو مجبوراقبرستان رخ کرنا پڑا تاکہ کسی نئے نئے مردے کی قبر سے استفادہ کر سکیں اور پھر ہمارا یہ تجربہ اس قدر کامیاب ہوا کہ ویلنٹائن ڈے سمیت حج اور دوسرے اہم موقعوں پر اسے بطور کاروبار اپنانے کا سوچ رہے ہیں
بعض دوستوں کو ہمارے اس کاروبار پر اعتراض ہے کہ یہ کام باعث گناہ ہے ۔ان سے صرف اتنی سی گزارش ہے کہ اگر وہ اپنی آنکھوں سے تعصب کی پٹی اتار کر دیکھیں تو انہیں معلوم ہو کہ یہ ثواب کا کام ہے ۔اس کی دلیل یہ ہے کہ جب ہم کسی قبر سے پھول چرا کر بیچیں گے تو لازما وہ پھول دو دلوں کو راحت اور خوشی پہنچائیں گے اور ان کے درمیان نفرت ختم ہو گی اور محبت بڑھے گی جس کا ثواب ہمارے ساتھ ساتھ لازما اس مردہ کو بھی ہو گا جس کی قبر سے ہم نے یہ پھول اٹھا ئے ہوں گے جبکہ اس قدر محنت کے بعد ثواب کے ساتھ ساتھ اس قبر سے اٹھائے گئے پھولوں کی رقم بطور بونس ہمیں مل جائے گی۔
سفید پوش طبقہ میں ویلنٹائن ڈے پر عموما دو طرح کے پریمی نظر آتے ہیں ایک تو وہ جو دل سے دعا کرتے ہیں کہ ا س مرتبہ پھولوں کا ریٹ کم ہی رہے جبکہ دوسرے وہ جو حالات حاضرہ سے واقفیت کی بنا پر جانتے ہیں کہ پھولوں کی قیمت کسی بھی صورت کم نہ ہو گی۔یہ لوگ صدق دل سے کسی کے مرنے کی دعا کرتے ہیں ، تاکہ اس کی قبر سے پھول چرا کر محبوب کی مانگ سجا سکیں ۔
ویسے بھی پھولوں کی قیمتیں جس تیزی سے اوپر کی جانب سفر کرتی ہیں انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ آئندہ ویلنٹائن ڈے کے موقع پر جو بھی مرے گا لوگ اس کی قبر پر پھولوں کی بجائے چاول ڈالا کریں گے جس سے گورکن کے گھر بھی دال روٹی کی بجائے چاول پکا کریں گے ۔!!