URDUSKY || NETWORK

وہ۔۔۔ شبو۔۔۔اور ۔۔۔غزل!!!

100

وہ۔۔۔ شبو۔۔۔اور ۔۔۔غزل!!!

تحریر: سید بدر سعید
مابدولت گزشتہ دنوں ایک عجیب مسئلہ کا شکار ہو گئے۔ ہوا کچھ یوں کہ حکم ملا : ”شاعری کرو اور خاص طور پر غزل لکھو“
یہ حکم کس نے دیا اور کیوں دیا ؟ اس کا جواب ہم نے فی الحال چھپا لیا ہے کیوں کہ ایک مرتبہ خوبصورت اور انوکھے شاعر حسن عباسی نے اپنی محبوبہ کا نام پوچھنے پر کہا تھا کہ:
”غزل کے ایک شعر میں دو مصرعہ اور دو ہی باتیں ہوتی ہیں ، جن میں سے شاعر ایک بات بتاتا ہے اور ایک بات چھپا لیتا ہے۔اب یہ میں نے بتا دیا کہ کوئی ہیں جن کے لیے شاعری کرتا ہوں ، کون ہیں ؟ یہ میں نے چھپا لیا۔۔۔ اتنی لمبی تمہید کے بعد حسن عباسی نے ان کا نام واقعی چھپا لیا اور آف دی ریکارڈ بھی نہیں بتایا
تو صاحبو! اتفاق سے وہ انٹرویو ہم ہی کر رہے تھے سو حسن عباسی کی بات پلے سے باندھ لی اور اب آپ کو بھی ایک بات بتا دی کہ حکم ملا تھا شاعری کرو اور غزل لکھو۔ اب یہ حکم کس نے دیا تھا یہ بات ہم نے بھی چھپا لی۔۔۔۔ ویسے سمجھ تو آپ گئے ہوں گے؟؟؟
بہرحال حکم حاکم مرگ مفاجات، ہم نے فیصلہ کیا کہ غزل لکھ ہی لیں لیکن مسئلہ یہ تھا کہ غزل لکھی کیسے جائے؟نہ ہمیں غزل کے سر کا پتہ نہ پیر کا۔۔۔شکل و صورت کیسی ہوتی ہے یہ بھی نہیں جانتے۔۔۔۔ کبھی کبھی تو ہم یہ بھی سوچتے رہے ہیں کہ غزل نام کی کوئی چیز ادب کا حصہ ہوتی بھی ہے یا ایسے ہی یار دوستوں نے باتیں بنا رکھی ہیں ؟ کچھ بھی تو نہیں معلوم تھا، لیکن حکم تو حکم ہوتا ہے سو لکھے بغیر چارہ بھی نہیں لہذا سوچا کہ دوستوں سے کچھ مدد لے لیتے ہیں ، کم ازکم غزل کا کچھ اتا پتہ ہی مل جائے
سب سے پہلے ہم نے عادل گلزار کو فون کیا اور لگتے ہاتھ ہی پوچھ لیا :
” عادل بھائی !آپ کو غزل کے بارے میں کچھ پتہ ہے؟؟“
”غزل کے بارے میں تو نہیں پتہ البتہ غزالہ کے بارے میں پتہ ہے ، ابھی کل ہی تو اس نے چاچے سے مار پڑوائی ہے“ عادل نے فٹ سے جواب دیا اور ہم نے کھٹ سے فون بند کر دیا
عادل گلزار کی طرف سے مایوس ہونے کے بعد ہم نے سوچا کیوں نہ ریاض احمد قادری صاحب سے پوچھا جائے ۔۔۔ آخر انہیں شاعری پر صدارتی ایوارڈ مل چکا ہے، بس یہی سوچ کر ہم ریاض احمد قادری صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے پوری دلچسپی سے ہماری بات سنی اور حسب عادت دس بیس جگتیں لگانے کے بعد کہنے لگے:
”شاعری کا تعلق دل اور جذبات سے ہوتا ہے، بس ایک عدد استاد کی ضرورت ہوتی ہے جو پرائیوٹ خیالات کو سنسر کرنے کے بعد ان الفاظ میں ڈھال سکے جو شریفوں کی محفل میں سنے جا سکتے ہوں“
پھر خود ہی کہنے لگے:
”استاد تو میں آج سے تمہارا بن گیا، بس تم اپنی شاعری کسی صفحے پر لکھ کے دے جاﺅ، کل تک ٹھیک کر دوں گا“
ہم نے جیسی تیسی غزل لکھی اور ان کے حوالے کر دی۔ اگلے دن گئے تو انہوں نے ایک غزل ہمیں عنایت کی جس میں خیال ، بحر، الفاظ سمیت کچھ بھی ہمارا لکھا ہوا نہ تھا
ہم نے حیرت سے قادری صاحب کی طرف دیکھا :
” سر!یہ کیا ہے؟“
مسکرا کے بولے: ”یہ تمہاری غزل ہے“
لیکن اس میں کچھ بھی ہمارا لکھا ہوا نہیں ہے“ ہم نے احتجاج کرتے ہوئے کہا تو کہنے لگے
”خیال کچھ ڈھیلا تھا، کہیں قافیہ ، ردیف نہ تھے ، کہیں اوزان کا مسئلہ تھا ۔۔۔ لہذا ٹھیک کرنے کے بعد یہ غزل بن گئی“
پھر گرجتے ہوئے بولے: ” چلو اٹھاﺅ اسے اور بھاگو یہاں سے“
ہم دکھی دل لیے قادری صاحب کے آستانے سے اٹھ آئے لیکن اتنا ضرور ہوا کہ ہمیں معلوم ہو گیا کہ عادل گلزار ، قادری صاحب کا شاگرد کیوں بنا پھرتا ہے
تھوڑی دیر بعد خیال آیا کہ حافظ مظفر محسن صاحب سے پوچھتے ہیں انہیں ضرور پتہ ہو گا ۔۔۔ فون پہ بات کرنا بیکار لگا لہذا بھاگم بھاگ ان کے دفتر جا پہنچے
سلام دعا کے بعد ہم نے پوچھا:
”حافظ صاحب! آپ کو پتہ ہے کہ شاعری کیسے کی جاتی ہے؟انہوں نے کڑی نظروں سے ہمیں گھورا اور عینک اتار کر کہنے لگے:
”میاں! کہیں عشق تو نہیں فرمانے لگے؟ ذرا والد صاحب کا نمبر دینا۔۔۔“
”والد صاحب کا نمبر کیوں؟“ہم نے حیرت سے پوچھا
کہنے لگے: ”انہیں باٹا کے نئے سینڈل کا بتانا ہے، سنا ہے جلدی نہیں ٹوٹتا“
اب ظاہر ہے اس کے بعد تو ہم یہی کہ سکتے تھے کہ بس ویسے ہی پوچھا تھا۔۔۔ غلطی سے۔۔۔
انہوں نے ہماری بات کٹتے ہوئے کہا : ایسے پوچھو یا ویسے پوچھو، لیکن کھانا کھانے کے بعد پوچھو“ ۔۔۔ اور پھر ملازم کھانا لے آیا
کھانا کھانے کے بعد حافظ صاحب نے دو میٹر لمبی توند پر ہاتھ پھیرا اور زور دار ڈکار لیتے ہوئے خالص لاہوری اسٹائل میں کہنے لگے:
”ہور سناﺅ بادشاہو! کوئی نئی تازہ۔۔۔۔۔“
”سر! شاعری کیسے کی جاتی ہے؟؟“ ہم نے موڈ اچھا دیکھا تو موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پھر سوال دہرا دیا
کہنے لگے: ”بدر میاں ! شاعری کی نہیں جاتی ،یہ تو ہو جاتی ہے۔“
”ہو جاتی ہے!!! وہ کیسے؟“ ہم نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا
”بس خود بخود ہو جاتی ہے۔۔۔آمد ہوتی ہے۔۔۔“
ہم نے ساتھ بیٹھے ایک صاحب کے گنجے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے حیرت سے کہا:” لیکن نازل تو وحی ہوتی ہے اور اس کا سلسلہ تو بند ہو چکا ہے۔“
”وہ تو نبیوں پر نازل ہوتی تھی لیکن شاعری عموما ان پر نازل ہوتی ہے جن کی صحبت ٹھیک نہ ہو، مطلب خراب لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا ہو۔۔۔“ موصوف مسکرائے
ہم نے ایک نظر حافظ صاحب کی شاعری کی کتاب ” جب بھی دیکھا۔۔۔اداس ہی دیکھا“ پر ڈالی اور یہ کہتے ہوئے آ گئے کہ یقین تو نہیں آتا لیکن آپ کہتے ہیں تو مان لیتے ہیں ۔ وہ تو گھر پہنچ کر خیال آیا کہ حافظ صاحب بیٹھے تو ہمارے ساتھ ہی ہوئے تھے
حافظ مظفر محسن کی طرف سے مایوس ہونے کے بعد ہم اپنے سر ڈاکٹر اشفاق احمد ورک صاحب کے پاس گئے۔ہمیں پورا یقین تھا کہ ان سے ہمیں ضرور معلوم ہو جائے گا کہ غزل کیسے لکھتے ہیں ۔۔۔
ہم نے ڈاکٹر صاحب کو ادب سے سلام ٹھوکتے ہوئے کہا: ”سر!یہ شاعری کیسے ہوتی ہے؟؟
”بس ہو جاتی ہے۔۔۔“ ڈاکٹر صاحب نے کمال بے نیازی سے جواب دیا
”لیکن سر!۔۔۔“ ابھی ہم نے اتنا ہی کہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے سوال داغ دے
” او کاکے! تم نے اسائنمنٹ تیار کی ہے؟“
”سمجھ گیا سر!“ ہم نے سر ہلاتے ہوئے کہا
”کیا سمجھ گئے؟؟“ ڈاکٹر صاحب نے حیرت سے پوچھا
”یہی کہ مزید کوئی سوال نہیں کرنا اور یہاں سے نو دو گیارہ ہو جانا ہے“ اتنا کہتے ہی ہم سچ میں وہاں سے نو دو گیارہ ہو گئے
ابھی ہم وہاں سے پریشانی کے عالم میں جا ہی رہے تھے کہ راستے میں ڈاکٹر غفور شاہ قاسم مل گئے۔ موصوف کا پاکستانی ادب پہ کافی کام ہے لہذا انہیں دیکھ کر امید کی کرن نظر آئی
”سر! ہمیں غزل لکھنا سکھائیں پلیز۔۔۔۔“ ہم نے ڈاکٹر غفور کو گھیر لیا
ڈاکٹر غفور شاہ قاسم شاید ہمارے ہی انتظار میں بیٹھے تھے کہ فورا سمجھانے بیٹھ گئے لیکن ان کے سمجھانے کا طریقہ کچھ ایسا تھا کہ ہم سمجھ گئے کہ سر کو آج آنٹی یعنی مسز سر نے سبزی وغیرہ لینے بھیجا ہو گا اور ابھی تک ان کے ذہن میں یہی چل رہا ہے کہ کس طرح حساب کتاب میں ڈنڈی مار کر چائے کے پیسے بچانے ہیں،اسی لیے تو ہمیں بھی غزل لکھنے کا حسابی فارمولا سکھانے لگ گئے کہ کتنے مصرعہ ہوتے ہیں ، پہلے مصرعہ کے تین حصے ہوتے ہیں ۔۔ پہلا خیال، دوسرا قافیہ ، تیسرا ردیف۔۔۔ پھر دوسرا مصرعہ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔۔۔ پھر چوتھا مصرعہ بھی ایسا ہی ہوتا ہے بس خیال اور قافیہ بدل جاتا ہے۔۔۔ جہاں تک ہمیں یاد ہے کچھ اسی قسم کی باتیں کر رہے تھے ۔بلاشبہ اپنی علمی سطح سے بہت نیچے آکر سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن اب انہیں کون بتاتا کہ اگر ہمیں اس قسم کے حسابی فارمولے یاد ہو جاتے تو حساب میں مر مر کے پاس ہوتے؟؟ لہذا ہم نے ڈاکٹر صاحب کو صاف صاف کہ دیا کہ ہو سکتا ہے انہوں نے ماضی میں بھینس کے آگے بین نہ بجائی ہو لیکن آج وہ کچھ اسی قسم کی حرکت مرتکب ہو رہے ہیں ، لہذا اجازت دیجئیے۔۔۔
اس کے بعد ہم آخری امید کے طور پہ پروفیسر پریا تابیتا کی خدمت میں ایک کلو مٹھائی نصف جس کا آدھا کلو، چوتھائی ایک پاﺅ اور اس کے بعد کچھ بھی نہیں ہوتا، اور ایک عدد کپڑے کا تھان (جسے بوقت ضرورت پگڑی اور ڈوپٹہ ، دونوں کے طور پہ استعمال کیا جا سکتا ہے) لے کر پہنچ گئے۔ یہ سب اس لیے بھی کہ پریا تابیتا صاحبہ کو اپنی شاعری کی بنیاد پر نیشنل یوتھ ایوارڈ مل چکا ہے۔اسی لیے ہمیں امید تھی کہ انہیں ضرور معلوم ہو گا کہ شاعری کیسے کی جاتی ہے اور غزل کیسے لکھی جاتی ہے۔۔۔
پروفیسر پریا تابیتا صاحبہ نے حیرت سے مٹھائی کے ڈبے اور کپڑے کے تھان کی طرف دیکھا، ہم ان کی آنکھوں میں موجود سوال کی تہ تک پہنچ گئے، اور دونوں چیزیں ادب سے ان کی میز پررکھ دیں اور اتنے ہی ادب سے مٹھائی کا ڈبہ کھول کر اپنے پسندیدہ گلاب جامن کھانے شروع کر دیے ۔ جب ڈبہ خالی ہو گیا تو ادب سے میز سے کپڑا اٹھایا ، آنکھوں سے لگایا، عقیدت سے چوما اور پھر پگڑی کی طرح سر پر باندھ لیا ۔
پروفیسر صاحبہ خاموشی سے ہماری حرکات و سکنات کا مشاہدہ کر رہی تھیں ۔ جب ہم اپنے حساب سے ادبی شاگرد کے درجے پہ فائز ہو گئے تو پروفیسر صاحبہ سے درخواست کی کہ شاعری کے حوالے سے ہماری راہنمائی کیجئے۔
انہوں نے قافیہ ،ردیف،بحر اور اوزان کے حوالے سے لمبا چوڑا لیکچر دیا اور جب ہم سونے ہی والے تھے تو کہنے لگیں :
” اب تم مفاعلاتن مفاعلاتن ۔۔۔ کو مدنظر رکھ کر کوئی مصرعہ لکھو“
”ہم نے فورا اعتراض کیا کہ مفاعلاتن مفاعلاتن۔۔ ہی کیوں؟ نائیلا تن نائیلا تن ،، کیوں نہیں؟؟ یا پھر سائیلا تن سائیلاتن ۔۔ کیوں نہیں ؟؟؟“
ہمارے اس اعتراض کے بعد انہوں نے برا سا منہ بنا یتے ہوئے اوزان کو ایک طرف رکھا اور حکم دیا:
” تم بس اتنا کرو کہ غزل گا کر لکھا کرو، اوزان خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔۔۔“
” آپ کا مطلب ہے کہ پہلے سال دو سال کسی مراسی کی شاگردی کروں پھر آپ کے پاس آﺅں؟“
ہم نے حیرت سے پوچھا تو انہوں نے فٹ سے پیپر ویٹ ہمیں دے مارا جس پر ہمیں مجبوراً وہاں سے بھی نو دو گیارہ ہونا پڑا۔
بہرحال کچھ گا کر ۔۔۔ کچھ کھا کر ۔۔۔اور کچھ اوزان اور بحر سے متھا لگا کر ہم ایک عدد غزل لکھنے میں کامیاب ہو ہی گئے
آپ بھی ہماری وہ غزل ملاحظہ کیجئے :
بام پہ کوئی لہرایا تھا، چھت بھی کچھ کچھ ڈولی تھی
رات کے پچھلے پہر اچانک،کھڑکی مجھ سے بولی تھی
میں نے نمک ملایا تھاپر، چائے پھر بھی میٹھی تھی۔۔
لگتا ہے شہزادی نے ، کپ میں انگلی گھولی تھی
بوجھل بوجھل شامیں تھیں اور بکھرے بکھرے خواب سبھی
ساتھ میں اس نے لکھ بھیجا کہ گھر میں کل شب ہولی تھی
کیسے کیسے خواب تھے میرے اس کے سنگ اب رہنا ہے
کیسی دلکش خواہش تھی جو من میں یونہی سمولی تھی
بدر اسے بتلاؤں کیا، یہ ہجر کے لمحے کیسے تھے
زخمی زخمی ہاتھ تھے میرے جن میں سوئی پرولی تھی
غزل لکھنے کے بعد ہم بھا گم بھاگ ان کے پاس پہنچے جنہوں نے حکم دیا تھا کہ ” غزل لکھو“
انہوں نے غزل سنی اور مسکرا کر کہا :” اچھی ہے“
”آپ کے لیے لکھی“ ۔۔۔ہم نے شرماتے ہوئے کہا تو جواب توقع کے برعکس نکلا
”کیا۔۔۔؟؟؟ تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے؟بتاؤں تمہارے ابا جی کو؟۔۔۔ چار لگیں گی تو عقل ٹھکانے آجائے گی۔۔۔۔“
لیکن آپ نے خود ہی تو کیا تھا کہ ” غزل لکھو“ ہم افسردہ ہو گئے
” ہاں کہا تھا لیکن اپنے لیے لکھنے کو نہیں کہا تھا۔۔۔“
”تو کس کے لیے لکھنے کو کہا تھا؟؟؟ ہم چلائے
”شبو لنگڑی کے لیے۔۔۔ اک وہی تمہیں دیکھتی ہے!!!“ انہوں نے اطمینان سے کہا
”کیا؟؟؟؟؟۔۔۔۔ “ ہماری چیخ کس کس نے سنی یہ ہمیں معلوم نہ ہو سکا کیوں کہ ہم دھڑام سے زمین پر گر کر بے ہوش ہو چکے تھے۔۔۔