URDUSKY || NETWORK

عافف گزدر کا اُلو

148

عافف گز در کا اُلو

تحریر: شوکت علی مظفر
چند سال پہلے میں کراچی یونیورسٹی میں سیاسیات کے پرچے سے جان چھڑا کر نصف گھنٹہ پہلے ہی کمرہ امتحان سے نکل بھاگا اور خوبصورت مخملی گھاس پر بیٹھ کر ذہن کو مختلف ممالک کے آئین کی چکر بازیوں سے نکالنے کے لیے قطار سے لگے درختوں اور دور پرے اُگی ہوئی جنگلی جھاڑیوں کو دیکھنے میں مگن ہوگیا۔ تب ہی میری سماعت سے کچھ الفاظ ٹکرائے۔
”ابے اُلو….تم یہاں بیٹھے ہو۔ چلو مسجد میں عصر کی جماعت ہونے والی ہے۔“
میں نے گردن گھما کر دیکھا تو عافف کھڑا مسکرا رہا تھا۔ عافف میرا کلاس فیلو بھی تھا اور ہم نوالہ و ہم پیالہ ہونے کی وجہ سے بقول ڈاکٹر ہاشمی”گلاس فیلو“ بھی۔ دفتر میں بھی ساتھ ہی کام کرتے تھے، روزانہ کا آٹھ گھنٹے کا ساتھ تھا مگر ہم دونوں میں اچھی علیک سلیک ہونے کے باوجود توتکار بھی چلتی رہتی کیونکہ اُس وقت میں کم گو تھا، کام سے کام رکھتا مگر کمپیوٹر روم واحد ایسی جگہ تھی جسے ”ہائیڈ پارک“ سمجھ کر میری زبان خوب چلتی تھی۔ عافف میرے طنز کے تیروں پر زیادہ رہتا اور موقع ملتے ہی مجھے لاجواب کردیا کرتا۔ ابتدا میں عافف صاحب نے کام پر آنا شروع کیا تو میں اسے انتہائی سنجیدہ شخصیت سمجھ کر سلام دعا تک محدود رہا۔ میں ہی کیا، عافف کو پہلی مرتبہ دیکھنے والا ہر شخص ان کے رعب میں آ جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے چہرہ ایسا با رعب دیا تھا کہ کوئی غیری ضروری بات کرنے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا بلکہ اکثر لوگ تو کام کی بات کرتے ہوئے بھی ڈرتے تھے۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد معلوم ہوا کہ یہ بھی پروفیسر ضیاء الرحمن کشمیری جیسے ہی ہیں، یعنی ظاہری رعب تو قدرتی ہے، اللہ نے خوش مزاجی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ بس پھر کیا تھا، روزانہ کا لنچ ساتھ ہی ہوتا۔
عافف، حافظ تھا اور یہ بات ہمیں ان کی آمد کے بعد پہلے ماہِ رمضان کے آتے ہی معلوم ہوئی جب انہوں نے بتایا کہ رات کو ایک جگہ تراویح پڑھانی ہے۔ میں نے مذاقاً کہا” کیوں لوگوں کی تراویح خراب کرنے پر تلے ہوئے ہو؟“ عافف نے ہاتھ فضا میں اس طرح بلند کیا جیسے ابھی چپت لگائے گا مگر ڈرانے والے انداز میں کہا”ابے اُلو! تو نہیں سدھرے گا۔“
عافف نے پہلی مرتبہ اتنے پیار سے اُلو پکارا تھا کہ مجھے اصلی الو پر تر س آنے لگا۔ عافف نے مجھے کبھی براہِ راست شوکت نہیں پکارا لیکن یہ اس کی اچھی بات تھی کہ کسی دوسرے کے سامنے ”شوکی“ کہہ کر مخاطب نہیں کیا۔ عافف حافظ تو تھا ہی مگر عربی زبان بھی اچھی طرح بول اور سمجھ لیتا تھا۔ایک مرتبہ روز نامہ اسلام میں ہی خدمات انجام دینے والے کوئی صاحب (اس وقت نام یاد نہیں آرہا) اور عافف مسلسل ایک گھنٹہ سے عربی زبان میں باتیں کررہے تھے جو میری سمجھ سے بالا تھیں۔ جب میں تنگ آگیا تو دونوں حضرات کو خاموش کراتے ہو ئے کہا”بس کرو ! تم لوگ کیا سمجھتے ہو کہ صرف تم دونوں ہی عربی بول سکتے ہو۔“
”تو تم بھی بول کر دکھاﺅ۔“ عافف مسکرایا۔
”انا اعطینک الکوثر….“ میں نے سورہ کوثر کی تلاوت شروع کردی۔
اس کے بعد عافف نے کم از کم میرے سامنے عربی بولنے کی ہمت نہیں کی۔ شاید میری عربی دانی سے مرعوب ہوگیا ہوگا۔ ہمارے خاندان میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ میں ہی تھا یعنی پوری بارہ جماعتیں پاس کی ہوئی تھیں۔ عافف ایک دن کہنے لگا ”چلو بی اے کرتے ہیں۔“
”اس سے کیا ہوگا؟“ میں نے بے دلی سے پوچھا۔
”مشرف نے سیاستدانوں کے لیے گریجویٹ کی شرط رکھی ، جب تک الیکشن ہوں گے ہم دونوں بھی گریجویٹ ہو چکے ہوں گے۔ سوچو اگر پارلیمنٹ کے ممبر بن گئے تو کتنی مراعات حاصل ہوں گی؟“
عافف نے سہانے سپنے دکھا کر کراچی یونیورسٹی میں داخلہ دلوادیا اور امتحان دینے کے لیے اپنی ففٹی پر پک اینڈ ڈراپ کی سہولت بھی فراہم کرد ی ۔ عافف کو میں عادات و اطوار سے میمن سمجھتا رہا اور” عافف میمن“ کے نام سے ہی پکارتا تھا ۔ ایک دن کہنے لگا ”میں میمن نہیں گزدر ہو ں اور گزدر میمن نہیں ہوتے۔“
”بے شک! گزدر میمن نہ ہوں لیکن تو پکا میمن ہے۔ “ میں نے مذاقاً کہا۔ مگر عافف اسی دن خود کو” گزدر“ ثابت کرنے کے لیے سخاوت کے مظاہرے کرتا رہا۔
عافف نے ایک دن بھائی کی شادی کی دعوت دی مگر ساتھ ہی سختی سے کہا کہ عشاء کے فوراً بعد کھانا ہوگا، تاخیر مت کرنا۔ پروفیسر ضیاءالرحمن کشمیری ہنس پڑے”عافف! کراچی میں کون سی تقریب وقت پر شروع ہوتی ہے؟“
”پھر دیر سے آکر دیکھ لینا۔ میں پیسوں والا لفافہ بھی لے لوں گا اور کھانا بھی نہیں ملے گا۔“ عافف نے مسکراہٹ آمیز جواب دیا۔
یقین تو مجھے بھی نہیں تھا، مگر جب عشاءکی نماز کے فوراً بعد گزدر ہال رنچھوڑ لائن میں پہنچے تو عافف نے مسکراتے ہوئے ہمارا استقبال کیا اور آناً فاناًہی مختلف اقسام کے کھانے ہماری ٹیبل پر چنوا دیئے۔ پانی کی بجائے مختلف مشروبات کا ڈھیر لگادیا۔
”عافف! مجھے ایک بات سمجھ نہیں آرہی، شادی تو تمہارے بھائی کی ہے مگر میں دیکھ رہا ہوں بھائی سے زیادہ تم خوش ہو۔“ میں نے عافف کو چھیڑا۔
”آپ بتاﺅ پروفیسر صاحب!“ عافف نے جواب کی ذمہ داری پروفیسر ضیاءالرحمن کشمیر ی پر ڈال دی۔ پروفیسر صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں داڑھی پر ہاتھ پھیرا ، گلا کھنکار کر صاف کیا اور پھر مسکراتے ہوئے کہا”شوکی! سمجھا کر۔ بڑے بھائی کی شادی کے بعد عافف کا ہی نمبر ہے۔“
عافف سن کر شرما گیا اوردوسرے مہمانوں کو ملنے کا بہانہ کر رفو چکر۔ اگلے دن آیا تو پوچھا”شوکی! کھاناوانا سب ٹھیک تھانا….دعوت کا مزہ آیا۔ اب تو نہیں کہو گے میں میمن ہوں۔“
”خاک مزہ آیا۔ چائے تک کا تو پوچھا نہیں تم نے۔“ میں نے انتہائی سنجیدگی سے کہا تو عافف سر پکڑ کر بیٹھ گیا پھر اچانک ہی مسکرا کر کہنے لگا”ٹھیک ہے بچّو! میری شادی پر آئے گا تو صرف چائے ہی پلاﺅں گا۔“
لیکن اب میں اس ” متوقع چائے “ سے بھی محروم ہوگیا ہوں کیونکہ اپنی شگفتہ باتوں سے میرا سیروں خون بڑھانے والا حافظ محمد عافف گزدر خون کی کمی کے باعث میرے پاس اپنی خوشگوار یادیں چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے چلا گیا۔ یہ غمزدہ اطلاع منور رَاجپوت نے دی تھی جوکہ انتہائی ذمہ دار انسان ہیں مگر مجھے یقین نہ آیا۔ دیگر دوستوں سے معلوم کیا، خبر سچی نکلی۔ فوراً پروفیسر ضیاءالرحمن کشمیری سے راولپنڈی رابطہ کرکے انہیں بتایا تو وہ کہنے لگے”شوکی! ہرو قت مذاق نہیں ہوتا، سچ بتاﺅ۔“اب کیا بتاتا کہ سچ کتنا تلخ ہے، میری پر اسرار خاموشی سے پروفیسر صاحب سمجھ گئے اور ان کے الفاظ کانوں میں آئے”انا للہ وانا الیہ راجعون۔“
عافف گزدر کی موت کا کسی کو یقین نہیں آرہا تھا جیسے صدر زرداری نئے نئے صدر بنے تھے تو بھی کوئی یقین نہیں کررہا تھا۔ مَلک کہنے لگا”تم مرو گے تو لوگ یہ تو نہیں کہیں گے کہ یقین نہیں آرہا۔“
”پھر کیا کہیں؟“
”مذاق کیا ہوگا۔“
”لیکن جب جنازہ پڑھیں گے تو ”سنگین مذاق“ کا اندازہ بھی ہوجائے۔“ میں نے جواب دیا۔
کچھ باتیں ہوتی ہیں جن کا یقین نہیں آتا، مگر کرنا پڑتا ہے۔ مجھے ہمت نہیں ہورہی کہ عافف کو ”مرحوم“ لکھوں۔ مگر مجھے محسوس ہورہا ہے کہ عافف کہیں میرے آس پاس ہی ہے او ر مجھے پیار بھری ڈانٹ سے کہہ رہا ہے”ابے اُلو! موت تو سب کو آنی ہے، مرحوم تو سب کو ہونا ہے۔ یہی قدرت کا اُصول ہے۔ بس کوئی پہلے چلا جاتا ہے کوئی بعد میں۔“
واقعی میں ”اُلو“ ہوں جو آنسو بہائے جارہا ہوں، مجھے تو دعا کرنی چاہئے۔ آپ بھی ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج کر میری دعاؤں میں شامل ہوجائیں کہ اللہ عزوجل! حافظ محمد عافف گزدر کو حقیقی معنوں میں ”مرحوم“ رکھے۔(آمین)