8
اکتوبر 2005۔۔۔۔ بدترےن تباہی تحرےر: ارفع رشےد عاربی
8اکتوبر 2005۔۔۔۔ بدترےن تباہی تحرےر: ارفع رشےد عاربی کوہ ہمالیائی سلسلے مزےد زلزلوں کی زد میں ہیں 8اکتوبر 2005کو پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں زلزلے سے خوفناک تباہی ہوئی جس کی شدت رےکٹر سکیل پر 7.6 تھی۔اس زلزلے سے ہونے والی تباہی کے بارے میںاقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ ” ےہ تباہی 26دسمبر 2004کو آنے والے سونامی سے کہیں زےادہ ہے۔نقل و حمل کا ایسا ڈراﺅنا خواب ہم نے کبھی نہ دیکھا تھا، ہم سمجھتے تھے کہ شاےد سونامی بڑی آفت تھی لیکن یہ تو اس سے بھی بدتر ہے۔“ حکومتی رےکارڈ کے مطابق اس زلزلے میں 73,338 افراد جاں بحق، 69,412 افراد شدےد زخمی اور 35 لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔جبکہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ” بیس ہزار مربع کلو میٹر سے زائد کے رقبے پر پھیلنے والی تباہی سے بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد پچاس لاکھ سے زےادہ تھی جبکہ گزشتہ بارہ صدےوں کے دوران دنےا کے مختلف علاقوں میں آنے والے شدےد نوعےت کے زلزلوںمیںسے کسی بھی زلزلے سے بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد سات لاکھ سے زےادہ نہیں تھی۔26دسمبر 2004 کو سونامی سے 2 لاکھ83 ہزارہلاک جبکہ 15لاکھ افراد بے گھر ہوئے،لیکن یہ بے گھر ہونے والے افراد مختلف ممالک میں منقسم تھے۔“ اس موازنے کے بعد اقوام متحدہ کے ماہرےن نے 8 اکتوبر2005کے زلزلے کو تارےخ کی بد ترےن تباہی قرار دےا۔ اس زلزلے سے متعلق مختلف ارضےاتی ماہرےن نے کہا کہ یہ میگا تھرسٹ زلزلہ تھا جس میں زمینی کرسٹ(جو مختلف پلیٹوں پر تقسیم ہے) کی ایک پلیٹ دوسری پلیٹ کے نیچے آکر شدےد رگڑ پیدا کرتی ہے۔سائنسدانوں نے اندازہ لگاےا کہ اس زلزلے میں ساٹھ ہزار اےٹم بموں کے دھماکوں کے برابر توانائی خارج ہوئی تھی اوراس توانائی کا اخراج سطح زمین سے صرف دس سے بیس کلومیٹر کی گہرائی پر ہوا تھا۔ ارضےاتی ماہرین برسوں سے کوہ ہندوکش کے خطے کو زلزلے کے حوالے سے خطرناک قرار دےتے رہے ہیں، ان کے مطابق آٹھ اکتوبر کے خطرناک زلزلے کے بعد بھی ہمالیہ کا خطہ خطرناک زلزلوں کے خدشات سے محفوظ نہیں۔ اس لیے کہ 8 میگٹےٹےوڈ ےا اس سے زےادہ شدت کے زلزلے 1803ئ، 1833ئ،1897ئ، 1905ئ،1934ء اور1950ءکے دوران اس خطے میں آچکے ہیںاس کے بعد طوےل خاموشی رہی۔ اس خاموشی نے شاےد خطرات کے احساس کو کم کرکے لوگوں کو محفوظ ہونے کا تاثر دےا لیکن سائنٹسٹ اس حوالے سے فکر مند تھے۔ نےواڈا ےونےورسٹی کے ایک سےنیئر پروفےسر کے مطابق”اےسے کئی ثبوت ملے ہیں جن کو دےکھ کر ہم یہ محسوس کرنے پر مجبور ہوئے کہ ہمالیائی خطے میں سطح زمین کے نیچے عرصہ دراز سے قائم خاموشی اب شاےد ختم ہونے والی ہے اور یہاں آٹھ اکتوبر 2005 کے زلزلے سے بھی زےادہ شدت کے زلزلوں کے خدشات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے بارے میں حتمی طور پر تو کچھ ممکن نہیں لیکن اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ دس بیس سالوں کے دوران رونما ہو سکتے ہیں۔“ ےونیورسٹی آف کولورےڈو کے ایک پروفےسرروجر بلہیم کہتے ہیں ”8اکتوبر کا زلزلہ انڈےن اور ےورےشےن پلیٹوں کے عےن ملاپ پر آےا۔ بے شک یہ7.6کی شدت کا زلزلہ تھا جس نے بہت زےادہ تباہی پھیلائی لیکن جو توانائی پلیٹوں کے درمیان چٹانوں میں جمع ہے اس لحاظ سے دےکھا جائے تو زلزلے کی شدت کم تھی بلکہ ماضی قرےب میں آنے والے تمام چھوٹے بڑے زلزلوںکی مجموعی توانائی بھی اس توانائی کے برابر نہیں ہو سکتی جو انڈےن پلےٹ کی حرکت سے چٹانوں نے جذب کی ہوئی ہے۔چنانچہ یہ خدشہ بے جا نہ ہو گا کہ ہمالیہ کے خطے کے نیچے برسوں سے قائم خوابیدگی کی کیفےت اب شاےد تبدےل ہونے والی ہے۔اس لیے اس خطے میں موجود تمام اہم فالٹس کا متواترمشاہدہ کرتے رہنا ہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ۔۔۔زلزلہ تبھی رونما ہوتا ہے جب زمینی دراڑوں کے ساتھ جمع ہونیوالی توانائی کا اچانک اخراج ہو۔ مسئلہ یہ ہے کہ سیزمک توانائی کا اخراج ہوئے بغیر جتنا زےادہ وقت گزرتا جاتا ہے اس توانائی کا ذخیرہ اتنا ہی بڑھتا رہتا ہے۔“ امرےکہ کی کولورےڈو ےونےورسٹی کے سائنسدانوں نے ہمالیہ کے خطے میں سےزمک سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے بعد رےسرچ رپورٹ مرتب کی ہے، جس کے مطابق ہمالےائی خطے میں آباد پانچ کروڑ افراد خطرناک زلزلوں کی زد میں ہیں جن کا تعلق ترقی پذےر علاقوں سے ہے۔ ترقی پذےر ہونے کی بدولت یہاں ابتدائی طبی امداد کا انتظام بھی نا کافی ہے اسی لیے جانی و مالی نقصان بھی زےادہ ہو سکتا ہے(یہ بات کون نہیں جانتا کہ پاکستان کا کافی رقبہ ان ہمالیائی سلسلوں سے لگتا ہے؟)۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر ترقی ےافتہ ممالک کے سائنسدان ہمالیائی خطے میں مقیم پانچ کروڑ افراد کو شدےد زلزلے کے خطرات میںگھرا محسوس کر رہے ہیں تو انھیں ترقی یافتہ ممالک کی حکومتوں کو بھی اس بات پر مجبور کرنا ہو گا کہ وہ امارت کے فرق کو بھلا کر ان ترقی پذےر ممالک کی مدد کے لیے ٹھوس اقدامات کرےں، دور رس اورموثر پلاننگ کرےںجن میں زلزلہ پروف عمارتوں کی تعمیر خصوصاً شامل ہو تا کہ زلزلہ کی صورت میں نقصان کے چانسز کم سے کم ہوں۔ تحرےر: ارفع رشےد عاربی