مرزا اسد اللہ غالب کے 212 ویں یوم پیدائش پر متعدد تقریبات کا انعقاد
مرزا اسد اللہ غالب کے 212 ویں یوم پیدائش پر متعدد تقریبات کا انعقاد
نابغہ روزگار شاعر مرزا غالب کے یوم پیدائش پر دار الحکومت دہلی میں دو روزہ تقریبات منائی گئیں۔ اس موقع پر چاندنی چوک سے غالب کی حویلی تک کینڈل مارچ نکالا گیا۔ کتھک رقاصہ اوما شرما نے غالب کی غزلوں پر رقص پیش کیا۔ قلمکار اور دانشور پون ورما نے غالب پر مضمون پیش کیا اور ڈرامہ نگار انیس اعظمی نے غالب کے انداز میں خطوط غالب کی قرآت کی
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت غالب
دل کے بہلانے کو یہ خیال اچھا ہے
ایک خبر کے مطابق اور27,26 دسمبر کو دوروزہ یوم غالب تقریبات کے دوران چاندنی چو ک کے ٹاون ہال سے گلی قاسم جان میں واقع غالب کی حویلی تک کینڈل مارچ میں معروف شاعر اور فلمی نغمہ نگار گلزار، ڈائرکٹر وشال بھاردواج، ان کی اہلیہ اور گلوکارہ ریکھا بھاردواج، رقاصہ اوما شرما، قلمکار پون ورما اور بڑی تعداد میں دہلی کی ادب نواز اور غالب پسند شخصیات موجود تھیں۔
اس موقع پر گلزار نے کہا کہ غالب کو یاد کرنے کا بہترین طریقہ ہے کہ ہم شمع روشن کرکے غالب کی حویلی تک جاتے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ یہ روایت ہمیشہ زندہ رہے۔انھوں نے مزید کہا کہ بہت سے لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ میں نے مرزاغالب سیرئیل بناکر اسکرین پر غالب کی زندگی بنا دی لیکن میں کہتا ہوں کہ غالب نے میری زندگی بنا دی۔انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ غالب کی حویلی کو ایک میوزیم میں تبدیل کیا جائے۔
پون ورما نے کہا کہ جس تہذیب و ثقافت سے غالب کا رشتہ تھا وہ ہماری شاندار روایت کا حصہ ہے اور غالب صرف شاعر ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب اور طرز زندگی کی علامت ہیں۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جس قوم نے اپنے ادیبوں اور فنکاروں کی قدر نہیں کی اسے کبھی ترقی نہیں ملی۔وشال بھاردواج نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کینڈل مارچ کے توسط سے ہم نے غالب کے سفر کی دریافت نو کی ہے۔چاندنی چوک سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق رکن پارلیمنٹ وجے گوئل نے غالب کی حویلی کی خستہ حالی پر رنج و غم کا اظہار کیا اور اس کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔مارچ کے شرکا نے غالب کی حویلی کے غلط استعمال کے خلاف احتجاج کیا اور اس کے تحفظ پر زور دیا۔
واضح رہے کہ چند روز قبل غالب کی حویلی میں ایک شادی کی تقریب منعقد ہوئی تھی جس کے سبب حویلی میںچاروں طرف گندگی پھیل گئی تھی۔ اس پر غالب نواز لوگوں کی طرف سے شدید احتجاج کیا گیا تھا۔اس مارچ میں ایڈووکیٹ عبد الرحمن نے غالب کا لباس اور ان کے جیسی ٹوپی پہن کر شرکت کی اور اعلان کیا کہ وہ غالب پر ایک فلم بنائیں گے جس کو اگلے سال یوم غالب پر لندن میں ریلیز کیا جائے گا۔ادھر دوسرے روز کی تقریبات کے دوران کتھک رقاصہ اوما شرما نے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں غالب کی چنندہ غزلوں پر رقص پیش کرکے ناظرین کو محظوظ کر دیا۔
یہ پروگرام غالب میمورئیل موومنٹ کے زیر اہتمام انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز، دہلی حکومت، ساہتیہ کلا پریشد، ایس جی فاونڈیشن اور بھارتیہ سرن سنگیت کے اشتراک سے منعقدہوا۔
اوما شرما نے ’شمع جلتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے، ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے، تیرے دل میں گر نہ تھا آشوب غم کا حوصلہ‘ وغیرہ غزلوں کی رقص کے ذریعے تشریح کرکے تفہیم غالب کے نئے گوشے وا کیے۔
اوما شرما کے شاگردوں نے غالب کی نظم ”چراغ دیر“ (بنارس کو خدا محفوظ رکھے چشم بد بیں سے) کی خوبصورت پیشکش کے ذریعے غالب کی مذہبی رواداری کو اجاگر کیا۔اس پروگرام میں پون ورما نے اپنی تصنیف ’غالب، شخصیت اور فن‘ کے بعض اقتباسات پیش کیے ۔دوسرے روز کی آخری تقریب غالب اکیڈمی میں منعقد ہوئی جس میں معروف ڈرامہ نگار انیس اعظمی نے خطوط غالب کو ڈرامائی انداز میں پڑھ کرلوگوں کے دل جیت لیے۔
انھوں نے 1852سے1868تک کے خطوط غالب کو اس انداز میں پیش کیا کہ اس دور کا پورا منظرنامہ آنکھوں کے سامنے آگیا۔انیس اعظمی نے منشی ہرگوپال تفتہ، تفضل حسین خاں، پیارے لال آشوب، گوبند سہائے، نواب امین الدین احمد خاں، میر مہدی مجروح، عزیز الدین ، خواجہ غلام غوث خاں اور رامپور کے نواب میر حبیب نواب کو لکھے خطوط کی اس انداز میں قرات کی کہ ایسا لگ رہا تھا جیسے غالب خود آکر اپنے خطوط پڑھ رہے ہیں۔
ان خطوط سے اس دور کی تاریخ پر بھی اجمالاً روشنی پڑتی ہے۔خیال رہے کہ انیس اعظمی ملک کے مختلف شہروں میں سو سے زائد مرتبہ خطوط غالب کی بہ زبان غالب قرات کرکے تفہیم غالب کو ایک نئی جہت دے چکے ہیں۔اس موقع پر غالب اکیڈمی کے صدر خواجہ حسن ثانی نظامی نے کہا کہ غالب نے حضرت علی کی شان میں جو قصائد لکھے ہیں وہ بے مثال ہیں اور اگر غالب کسی دوسرے مذہب کے پیرو ہوتے تو مولا علی ان کے دیوتا ہوتے۔غالب اکیڈمی کے سکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد نے کہا کہ غالب کی زندگی کا سب سے اہم واقعہ 1857کی لڑائی ہے۔ ان کے بعد کوئی ایسا شاعر موجود نہیں جو پہلی جنگ آزادی کے حالات قلمبند کرتا۔انھوں نے مزید کہا کہ غالب اپنے خطوط کو چھپوانا نہیں چاہتے تھے تاہم ان کی زندگی ہی میں ’عود ہندی‘ اور ’اردوئے معلی‘ کی اشاعت ہو گئی تھی۔
بشکریہ VOA