اکیسویں صدی, پہلی دہائی خدا حافظ!!!
عظیم ہیں وہ افراد جو انسانیت پر زندگی کو آشکار کرکے اپنا احسان مند بنا دیتے ہیں؛ جو خود پسندی کے فریب سے کہیں دور صدیوں کو سمیٹ کر عظمت کی بلندیوں پر پہنچ چکے ہوتے ہیں جبکہ دوسرے اسکی گرد بھی نہیں پا سکتے اور مدتوں بعد جب انکا قید کیا ہوا وقت آشکار ہونا شروع ہوتا ہے تو انکے قدموں کے نشان بھی مٹ رہے ہوتے ہیں ۔
تحریروتحقیق: محمد الطاف گوہر
صدیاں اپنے ساتھ وہ سب کچھ سمیٹ کر لے جاتی ہیں جنکا اکثر تصور بھی کرنا محال ہوتا ہے ؛ وقت بہت ظالم ہے جوکسی کا بھی انتظار نہیں کرتا ؛جبکہ انسان زندگی کے ماہ و سال اسکے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے گزارتا ہے اور اگر ذرا سی بھی چوک ہو جائے تو یہ انسان کو پچھاڑ دیتا ہے اور ا پنی چال چلتا ہو ا قدموں کے نشان چھوڑتا چلا جاتا ہے ۔افراد جب شعوری بالیدگی کے عمل سے گزر کر حالات سے پنجہ آزمائی پر اتر آئے تو پہلی بار انہیں وقت کی لاثانی قوت کا اندازہ ہوا۔احمق ہے وہ فرد جو وقت کی لامحدود طاقت کو نہیں سمجھتا اور اسکے ضیاع کا تدارک نہیں کرتا ؛ جو لمحہ گزر گیا اسکی واپسی نہیں مگر ان لمحات میں وقت کو اسی طرح محفوظ کیا جا سکتا ہے کہ اپنی ذہنی اور جسمانی قوتوں کا مصرف کسی مقصد کی نہج پر ڈالا جائے۔ زندگی کے اعلی مقاصد اور انکی تکمیل میں محویت ایسے محرکات ہیں جو نہ صرف صدیوں کے سفر ایام میں تبدیل کر دیتے ہیں بلکہ بعض اوقات وقت کو بھی پچھاڑ دیتے ہیں ۔
عظیم ہیں وہ افراد جو انسانیت پر زندگی کو آشکار کرکے اپنا احسان مند بنا دیتے ہیں؛ جو خود پسندی کے فریب سے کہیں دور صدیوں کو سمیٹ کر عظمت کی بلندیوں پر پہنچ چکے ہوتے ہیں جبکہ دوسرے اسکی گرد بھی نہیں پا سکتے اور مدتوں بعد جب انکا قید کیا ہوا وقت آشکار ہونا شروع ہوتا ہے تو انکے قدموں کے نشان بھی مٹ رہے ہوتے ہیں ۔
خیرو شر کے جنگ و جدل ؛ فنا اور بقا کی آنچ ؛کبھی علم و دانش کے ڈھیر اور کبھی آلات جدید کا انبار یہ سب انسانی ذہن کا کمال ہے کہ تسخیر انفس و آفاق پر گامزن ہے۔دنیا کو کبھی جسمانی قوت نے زیر کیا اور کبھی دولت کی ؛ اور کبھی انڈسٹری کی اور کبھی معلومات کی مگر آج علم دنیا کا مقدر بن گیا ہے۔ یہ بات تو واضع ہو چکی کہ اب انڈسٹری اور صنعت کسی نئی راہ پر گامزن نہیں کہ جسکا ایندھن زر تھا بلکہ آج کا دور معلومات کی بہتی رو کا ایک سیلاب ہے جسے آپ اطلاعاتی معاشرہ کہ سکتے ہیں جبکہ اسکا ایندھن علم ہے۔ آج کا دور تہذیبوں کے ادغام کا دور ہے معلومات کا ایک سیلاب امڈ آیا ہے جبکہ اس عہد کی طاقت صرف علم کے مرہون منت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہماری زندگیوں کو کنٹرول کرنے والی طاقت نے کئی روپ بدلے ، ابتدائی زمانے میں طاقت صرف جسمانی قو ت کا نام تھا ،اور زیادہ طاقت ور اور تیز رفتار شخص نہ صرف اپنی زندگی بلکہ اردگرد موجود دوسرے لوگوں کی زندگیوں پہ بھی اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اسی طرح تہذیبی ارتقا کے ساتھ ساتھ طاقت وراثت کے نتیجے میں حاصل ہونے لگی۔ اپنے جا ہ و جلال کے باعث بادشاہ واضح اختیارات کے ساتھ حکمرانی کرنے لگا جبکہ شاہی قرابت دار اپنی قربت کے باعث طاقت حاصل کر سکتے تھے۔ پھر اچانک زمانے نے جست بھری ، عہد نے پلٹا کھایا اور صنعتی دور کی ابتداء ہوئی اور سرمایہ طاقت بن گیا جبکہ سرمایہ جن کی پہنچ میں تھا وہ صنعتی عمل کے باعث دوسروں پر قابض ہونے لگے مگر کب تک؟
البتہ آج بھی ان عوامل سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی کہ سرمائے کا ہونا نہ ہونے سے بہتر ہے ، جسمانی توانائی کا ہونا بہرحال یقیناً بہتر ہے ، تا ہم ، آج طاقت کا عظیم سرچشمہ صرف اور صرف علم ہے۔ ارتقاء کا دھارا اب کسی اور طرف گامزن ہے۔اس اطلاعاتی معاشرے کی ترجیحات اب کسی بھی طرح سے دقیانوسی نہیں رہیں۔آج اگر طاقت کا بہاو ملاحظہ کرنا ہو تو ذرہ آنکھوں سے تفریحات کی پٹی اتار کر دیکھئے کہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والی دنیا میں اب طاقت کا توازن کیا ہے اور اسکا تعین کیسے کریں؟ ان حقائق سے کنارہ کشی کسی بھی طرح سے مزید دیر کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ جہاں اقوام عالم کے نوجوان دنیا کی طاقت کے مرا کز ہیں وہاں ہم اپنی قوم کے نوجوان کو کیا دے رہے ہیں؛ اور ہمارے نوجوان کہاں کھڑے ہیں ؟
قابل ذکر بات یہ ہے کہ آج طاقت کی کنجی تک رسائی ہم سب کے بس میں ہے۔ اگر آپ وسطی زمانہ میں بادشاہ نہ ہوتے تو آپکو بادشاہ بننے کیلئے بے پناہ تگ و دو کرنا پڑتی ، صنعتی انقلاب کے آغاز میں ، اگر آپ کے پاس زبردست سرمایہ نہ ہوتا تو آپ کے راستے کی رکاوٹیں آپ کی کامیابی کا راستہ مسد ور کر دیتیں۔ لیکن چند نوجوان آج ایک ایسی کارپوریشن کو جنم دے سکتے ہیں جو پوری دینا کو ہی بدل ڈالے۔ جدید دنیا میں اطلاعات، انفارمیشن بادشاہوں کی چیز ہے۔ مختلف علوم تک رسائی کے باعث آج کا نوجوان نہ صرف اپنا آپ بلکہ پوری دنیا تک بدل کر رکھ سکتا ہے مگر یہ سب کچھ اسکی تربیت پہ منحصر ہے۔ زر صنعتی سماج کا ایندھن تھا مگر اب اطلاتی معاشرے میں یہ ایندھن یا طاقت صرف اور صرف علم ہے ؛اکیسویں صدی میں انفارمیشن کا طوفان امڈ آیا ہے ؛ اسکا ناقابل تصور بہاو دنیا کو علم کے گہوارے کیطرف دھکیل رہا ہے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
علم سے بڑھ کر کوئی چیز ہے تو وہ عمل ہے ؛ کیونکہ کائنات کا ذرہ ذرہ ایک حرکت و ارتعاش کے رو پر چل رہا ہے ؛ کائنات کی ہر شے کی زندگی سے آشنائی فقط متحرک رہنے میں ورنہ موت؛ دیدہ دل وا کیجیے اور جس طرف بھی نظر دوڑائیں زمین پر یا آفاق میں قدرت کی ہر شے ایک دعوت عمل دیتی نظر آئے گی ؛ عمل سے ہی نتائج پیدا ہوتے ہیں ۔ موثر عمل کی اہمیت پہچاننے والے فرد کے ہاتھ میں آنے سے پہلے ؛ علم محض ایک امکانی قوت رہتا ہے ؛ جبکہ قوت کی اصل تعریف عمل کرنے کی صلاحیت ہے۔
پاکستان نے 2000-2010کیا کھویا کیا پایا؟