URDUSKY || NETWORK

امام اعظم ابوحنیفہ علماءوفقہاءکی نظرمیں

151

امام اعظم ابوحنیفہ علماءوفقہاءکی نظرمیں

راقم الحروف:۔ محمدبرھان الحق جلالی(جہلم)
اس عالم آب و خاک میں کچھ ایسی شخصیات کا ظہور ہوتا ہے جن کا وجود مسعود آئندہ نسلوں کیلئے مینارئہ نور ہوتا ہے۔ان کی نگاہ صرف اپنے عہد کے نشیب و فراز کی زاویہ پیمائی پر نہیں ہوتی بلکہ وہ مستقبل کی محراب فکر کیلئے بھی راست سمت کا تعین کرتے ہیں جن کے علم کے بحربیکراں سے آنے والوں نے استفادہ کیا ان عظیم ہستیوں میں جانا پہچانا نام حضرت امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت کا ہے۔ جن کی فراست مومنانہ تیر بہدف تھی جنہوں نے قرآن و حدیث کی روشنی میں لاکھوں مسائل کا استنباط کیا جن سے بعد میں آنے والے استفادہ کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے ۔
ہیں حق تعالیٰ کی خاص رحمت امام اعظم ابو حنیفہ
اللہ اللہ یہ شان امام اعظم ابو حنیفہ
ہے مقتضائے قرآن وسنت امام اعظم ابوحنیفہ
تمہاری صورت تمہاری سیرت امام اعظم ابو حنیفہ
قرآن و سنت کے راز مخفی تمہارے صدقے ہوئے نمایاں
تمہارے صدقے ملی ہدایت امام اعظم ابو حنیفہ
انہی امام الائمہ کاشف الغمہ امام اعظم کے بارے میں مختلف شخصیات کے اقوال درج ذیل ہیں چنانچہ
(۱):۔المیزان الکبریٰ جلد۱ ص ۳۶،الامام الشعرانی المناقب للموفق جلد ۲ ص۱۳ میں حضرت امام شافعی رحمة اللہ علیہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کو اس طرح خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔کہ
ان الناس عیال لابی حنیفة فی فقہ
یعنی تمام لوگ فقہ میں امام اعظم ابوحنیفہ کے دست نگر ہیں۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ علم وشریعت کے مہرو ماہ بن کر آسمان طریقت پر روشن ہوئے۔ آپ نہ صرف رموز طریقت سے آگاہ تھے بلکہ دقیق سے دقیق مسام و علوم کے معانی اور مطالب واضح کر دینے میں مکمل درک رکھتے تھے۔
(۲):۔صاحب درمختار تنویرالابصار کے مقدمے میں رقم طراز ہیں کہ
”قال لوکان فی امتی موسیٰ وعیسیٰ مثل ابوحنیفة لما تھودواولما تنصروا“
یعنی اگر حضرت موسیٰ اورعیسیٰ کی امتوں میں ابو حنیفہ جیسے لوگ ہوتے تو وہ یہودی اور عیسائی نہ بنتے۔
(۳):۔حضرت امام مالک رحمةاللہ علیہ نے آپ کی ذہانت و ذکاوت اور حاضر جوابی کااعتراف ان الفاظ میں کیا
”امام صاحب رحمةاللہ علیہ اگر چاہیں تو اس ستون کو طلائی کا ستون ثابت کر سکتے ہیں “۔
(۴):۔آپ کے استاد حضرت حماد رحمةاللہ علیہ نے آپ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ”اے ابوحنیفہ !تو نے مجھے خالی کر دیا“۔
(۵):۔شیخ فرید الدین عطار رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب تذکرة الاولیاءکے صفحہ نمبر ۵۲۱ (فریدمبین پبلیشرز ناظم آباد کراچی)پر رقم طراز ہیں کہ
(۱):۔حضرت امام اعظم رحمةاللہ علیہ شرح محمدی کے آفتاب اور امت محمدیہ کے امام و پیشوا تھے“
(۲):۔آپ کی عبادت و ریاضت کا صحیح علم تو خدا کو ہے آپ تین سو نفل ہر شب پڑھتے آپ کی ریاضت و مجاہدہ کی کوئی حد نہیں۔
(۳):۔آپ کو بڑے بڑے صحابہ کرام سے شرف نیاز حاصل رہا۔آپ کی تعریف کے غیر مسلم بھی معترف تھے۔آپ حضرت فضیل،حضرت ابرہیم بن ادہم،حضرت بشر حافی اور حضرت داﺅد طائی وغیرہم جیسی ہستیوں کے استاد ہیں۔
حضرت مجددالف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمةاللہ علیہ مکتوبات شریف دفتر دوم ص۴۵۱ مکتوب پنجاہ وپنجم میں فرماتے ہیں کہ
”مثل روح اللہ امام اعظم کوفی است رحمةاللہ علیہ کہ ببرکت ورع و تقویٰ وبدولت متابعت سنت درجہ علیادراجتھاد واستنباط یافتہ است کہ دیگراں در فھم آں عاجز وقاصر اند مجتھدات او را بواسطة دقت معانی مخالف کتاب وسنت دانندواوراصحاب رائے پندارند کل ذالک لعدم الوصول الیٰ حقیقة علم ودرایة وعدم الاطلاع علیٰ فھمہ۔
یعنی امام اعظم ابوحنیفہ کوفی رحمةاللہ علیہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح ہیں کہ انہوں نے تقویٰ وپرہیزگاری اور اتباع سنت کی وجہ سے اجتھاد واستنباط میں وہ بلند مقام پایا ہے کہ اسے لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں ۔اور انہیں ان کی دقیقہ فہمی کے باعث کتاب وسنت کامخالف جانتے اور انہیں ان کے شاگردوں کو اصحاب رائے خیال کرتے ہیں سو یہ سب کچھ اس بناءپر ہوا کہ انہیں امام صاحب کے علم ودانش کی حقیقت اور ان کے فہم و فراست پر اطلاع نہ ہوئی۔
پھر ارشاد فرماتے ہیں کہ:۔
بے شائبہ تکلف وتعصب گفتہ مے شود کہ نورانیت ایں مذھب حنفی بنظر گشتی دررنگ دریائے عظیم می نمایدوسائر مذاھب درنگ حیاض وجداول بنظری درآیند وبظاھر ہم کہ ملاحظہ نمودہ می آید سواد اعظم ازاھل اسلام متابعان ابی حنیفہ اند علیہم الرضوان ۔
یعنی تکلف و تعصب سے کام نہ لیا جائے تو پھر کہا جا سکتا ہے کہ کشف کی نظر میں اس حنفی مذھب کی نورانیت ایک بڑے دریا کی صورت میں دکھائی دیتی ہے۔ اور باقی تمام مذاہب حوضوں اور نالیوں کی شکل میں نظر آتے ہیں اور ظاہر بھی یہی ہے کیونکہ مسلمانوں کاسواد اعظم امام اعظم ابوحنیفہ کا مقلد ہے۔
پھر فرماتے ہیں۔
وائے ہزار وائے از تعصبائے بار دانیشاں واز نظر ھائے فاسد ایشاں بانی فقہ ابوحنیفہ ست وسہ حصہ از فقہ او را مسلم داشتہ اندودرربع باقی ھمہ شرکت در اند باوے۔در فقھہ صاحب خانہ اوست و دیگراں ھمہ عیال وے اند۔
مخالفین کے سرد تعصب اور فاسد نظر پر ہزار افسوس ابوحنیفہ فقہ کے بانی ہیں فقہ کے تین حصے انہیں سونپے گئے ہیںاور باقی ایک چوتھائی میں لوگ ان کے شریک ہیں فقہ کے گھر والے امام صاحب ہیں اور تمام لوگ ان کے عیال ہیں۔
(۷):۔ حضرت داتا علی ہجویری رحمةاللہ علیہ اپنی شہرہ آفاق کتاب مستطاب کشف المحجوب کے صفحہ ۷۳ میں رقم طراز ہیں۔
”وفہم امام اماں ومقتدائے خلقاں شرف فقھا وعز علماءابوحنیفہ نعمان بن ثابت الخزاز رضی اللہ عنہ۔“
اور اولیائے امت میں سے اماموں کے امام مخلوق خدا کے مقتداءفقہاءکا شرف اور علماءکی عزت ابو حنیفہ نعمان بن ثابت خزار رضی اللہ عنہ ہیں۔
پھر فرماتے ہیں کہ
”میںدمشق میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے مزار کے پاس سویا ہوا تھا میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ معظمہ میں ہوں پیغمبرخدا ﷺ باب بنو شیبہ سے اس حال میں تشریف لائے کہ آپ اپنی بغل میں ایک بوڑھے کو اس حال میں اٹھائے ہوئے تھے جس طرح لوگ شفقت سے بچوں کو اٹھاتے ہیں میں دوڑ کر آگے بڑھا اور آپ کے قدموں کو بوسہ دیا میں حیران تھا کہ وہ شضص کون ہے اور ان کا یہ حال کیسا ہے ؟ پیغمبر خدا ﷺ میرے اس خیال پر آگاہ ہوکر فرمانے لگے
”ایں امام تو واھل دیارتست“
یہ تیرا اور تیرے شہر والوں کاامام ہے یعنی امام ابوحنیفہ ہیں ۔
(۸):۔حضرت یحییٰ بن رازی فرماتے ہیں کہ
”میں نے حضور نبی کریمﷺ کو خواب میں دیکھا تو میں نے پوچھا یارسول اللہ اﷺمیں آپ کو کہاں تلاش کروں فرمایا
”عند علم ابی حنیفہ“
ابوحنیفہ کے علم کے پاس مجھے تلاش کرو۔
(۹):۔ علامہ خوارزمی اپنی کتاب سیف الائمہ میں فرماتے ہیں کہ
”امام اعظم ازچھار ہزار تابعی علم آموختہ وبسبب کمال احتیاط چون مسئلہ ازقرآن و حدیث برمی آورد ما دامیکہ ھمہ استادن پسندکردند آں مسئلہ راجاری نہ کردے“
یعنی امام اعظم نے چار ہزار تابعین سے علم دین حاصل کیا اور بسب کمال احتیاط کے آپ جب بھی کوئی مسئلہ قرآن وحدیث سے نکالتے تو جب تک ان کے تمام استاد اسے پسند نہ فرماتے اس کو جاری نہ فرماتے
اور اسطرح کتب معتبرہ مثل ارشادالطالبین اور فتاویٰ برہنہ میں یہ منقول ہے کہ
ترجمہ:۔یعنی امام اعظم کوفہ کی مسجد میں تعلیم وتدریس اور فیض رسانی کی مسند پر جلوہ افروز ہوتے توآپ کے ارد گردایک ہزار شاگرد بیٹھتے آپ کے چالیس جلیل القدر فقہا شاگرد آپ کے نزدیک بیٹھتے اور مسائل شرعیہ استخراج فرماتے تھے جب کسی مسئلے کی درستگی پر سب کا اتفاق ہو جاتاتو امام المسلمین بہت خوشی میں ”الحمدللہ واللہ اکبر“کانعرہ بلند کرتے اور آپ کی موافقت میں حاضرین مجلس اللہ اکبر کانعرہ لگاتے اور مسئلہ کو کتاب میں نقل کر لیتے
(۰۱):۔حضرت امام مالک رحمة اللہ علیہ نے فرمایا جب آپ سے امام صاحب کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ
”میں نے امام اعظم جیسا (آج تک)کوئی نہیں پایا “
(۱۱):۔حضرت عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ
”امام صاحب سب سے بڑے فقہیہ تھے میں نے کسی کو آپ سے بڑھ کر نہیں پایا(الخیرات الحسان ص ۰۷)
(۲۱):۔ حضرت اسعد بن حکم فرماتے ہیں کہ ”جاہل کے سواءکوئی شخص امام اعظم کی بد گوئی نہیں کرتا“
(۳۱):۔ حضرت داﺅد طائی فرماتے ہیں کہ
میں نے ۰۲ سال تک آپ کو تنہائی یا مجمع میں ننگے سر اور ننگی ٹانگیں پھیلائے نہیں دیکھا میں نے عرض کیا کہ تنہائی میں تو اپنی ٹانگیں سیدھی کر لیا کریں تو فرمایا میں مجمع میں بندوں کااحترام کروں اور تنہائی میں خدا کا احترام ختم کر دوں یہ میرے لیے ممکن نہیں۔
(۴۱):۔حضرت اسماعیل بن اورجاءنے فرمایا کہ میں نے خواب میں امام محمد کو دیکھا تو میں نے پوچھا اللہ تعالیٰ نے کیا معاملہ کیا فرمایا اس نے مجھ کو بخش دیا اوریہ فرمایا کہ اگر میں تمہیں عذاب میں مبتلا کرنے کاارادہ کرتا تو تمہیں علم دین عطا نہ کرتاپھر پوچھا امام ابویوسف کا کیا حال ہے ؟ وہ دو درجے بلند ہیں پھر میں نے کہا کہ ابو حنیفہ کاکیا حال ہے فرمایا
”ہیہات ذاک فی اعلیٰ علیین کیف وقد صلی الفجر بوضوءالعشاءاربعین سنة وحج خمسا وخمسین حجة ورای ربہ فی المنام مائة مرة“
یعنی آھا وہ تو اعلیٰ علیین میں ہیں ایسا کیوں نہ ہو انہوں نے تو چالیس سال عشاءکے وضو سے فجر کی نماز ادا کی ۵۵حج کیے اور ۰۰۱ مرتبہ رب تعالیٰ کی زیارت کی اور پھر فرماتے ہیں کہ ایک رات اما م صاحب نے کعبہ کے اندر دو رکعت نوافل میں پورا قرآن مجید ختم کیا
دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کے وسیلے سے ہم کو بخشے اور پاکستان کو امن وسلامتی کا گہوارہ بنائے اور ہمیں ان کے اسوئہ پر چلنے کی توفیق دے (آمین)