’مہرجان، جنگ اور محبت کی ایک کہانی‘
بنگلہ دیش میں1971ءکی جنگ آزادی کے پس منظر میں محبت کے موضوع پر بننے والی ایک فلم بہت متنازعہ ہوگئی ہے۔ اس فلم سے متعلق جذباتی حد تک عوامی بحث کے بعد اس کے ڈسڑی بیوٹرز کو ملکی سینماؤں میں اس فلم کی نمائش روکنا پڑ گئی ہے۔
اس فلم کا نام ’’ مہرجان، جنگ اور محبت کی ایک کہانی‘‘ ہے۔ اس میں جنوبی ایشیا میں فلمی صنعت کی چند بہت بڑی بڑی شخصیات نے کام کیا ہے۔ ان میں وکٹر بینرجی بھی شامل ہیں اور جیا بچن بھی، جو بھارتی فلم انڈسٹری کی بہت قد آور شخصیت امیتابھ بچن کی اہلیہ ہیں اور خود بھی ایک بہت مشہور اداکارہ ہیں۔
بنگلہ دیش میں یہ فلم گزشتہ ماہ ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم کے مرکزی کرداروں میں سے ایک مہرجان نامی ایک مقامی لڑکی کا کردار ہے اوردوسرا ایک پاکستانی فوجی کا، جو اس لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ لیکن بنگلہ دیش میں بظاہر یہ فلم بہت سے لوگوں کے لیے اعصابی سطح پرایک دھچکے کا سبب بھی بنی ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی آزادی کے دنوں میں وہاں ہونے والی خونریزی کے سلسلے میں ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی حکومت نے جنگی جرائم سے متعلق ایک ایسی عدالت بھی قائم کر دی تھی، جس کا کام اس جنگ میں پاکستانی فوج کی مدد کرنے والے مبینہ مدد گاروں کو سزائیں سنانا ہے۔
اس فلم کی ڈسٹری بیوشن کمپنی کے مالک حبیب الرحمان خان نے خبر ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ’’ انہوں نےخود بھی بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ میں حصہ لیا تھا۔ لیکن اس فلم کے ریلیز ہونے کے بعد میرے ساتھ جنگ آزادی میں حصہ لینے والے میرے سابقہ ساتھیوں نے بھی مجھے پاکستانی فوج کا مدد گار اور غدار کہنا شروع کر دیا۔‘‘
حبیب الرحمان خان کے بقول ان کی کمپنی نے اس فلم کی ڈسٹری بیوشن اس لیے روک دی کہ بہت سے نقادوں نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ اس فلم کے ذریعے ان بنگلہ دیشی خواتین کے دکھوں کو نظر انداز کیا گیا ہے، جنہیں جنگ کے دوران جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
اس فلم میں مہر جان نام کی ایک بنگلہ لڑکی ایک پاکستانی فوجی سے محبت کرنے لگتی ہے۔1971ء میں اپنی آزادی سے پہلے تک بنگلہ دیش مشرقی پاکستان کہلاتا تھا اور پاکستانی ریاست کا ایک حصہ تھا۔ اسی لیے وہاں پاکستان کی مرکزی حکومت نے ملکی فوج کے دستے بھی تعینات کر رکھے تھے۔
یہ فوجی دستے وہاں خونریزی اور خواتین کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتیوں کے مرتکب ہوئے تھے۔ اس پس منظر میں مہر جان سے محبت کرنے والا پاکستانی فوجی اپنے ساتھی اہلکاروں کی طرف سے جنگی جرائم کے ارتکاب میں شمولیت سے انکار کر دیتا ہے اور یوں اس کا کورٹ مارشل ہو جاتا ہے۔
بنگلہ دیش میں اس فلم پر ملکی پریس میں اور انٹرنیٹ پرکی جانے والی تنقید میں یہ کہا جا رہا ہے کہ اس فلم کو محبت کی ایک داستان بنا کر 1970 اور 71 میں ان خواتین کے ساتھ ظلم اور زیادتیوں کی شدت کو بالواسطہ طور پر کم کرنے کی کاوش کی گئی ہے۔ بنگلہ دیش میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ سابقہ مشرقی پاکستان کی آزادی سے پہلے کے عرصے میں وہاں پاکستانی فوجیوں نے تقریبا دو لاکھ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیاں کی تھیں۔
ڈھاکہ حکومت کے مطابق چھ دسمبر 1971ء کو بنگلہ دیش کے اعلان آزادی سے پہلے کے نو مہینوں میں وہاں ’قبضہ کرنے والے پاکستانی فوج کے دستوں‘ نے قریب تین ملین افراد کو قتل کیا تھا اور لاکھوں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیاں کی گئی تھیں۔
اس فلم کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر فرزانہ بوبی کے مطابق چونکہ اس فلم میں ایک پاکستانی فوجی کا ایک اچھے کردار کے طور پر پیش کی گیا ہے، اس لیے اس فلم پر ‘غیر سرکاری طور پر پابندی‘ لگا دی گئی ہے۔
بنگلہ دیش میں فلمی صنعت کی کئی سرکردہ شخصیات نے اس فلم سے متعلق بحث پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اتنی اچھی فلم کا اتنا متنازعہ ہو جانا افسوسناک ہے۔ معروف ہدایت کار نذر الاسلام نے کہا، ’’بنگلہ دیش ایک جمہوری ریاست ہے۔ یہاں ہرکسی کو اپنے رائے کے اظہار کا حق ملنا چاہیے۔‘‘
DWD