سچل جاز‘‘ پاکستانی موسیقاروں کی مغربی دنیا میں دھوم
اس البم میں جاز موسیقی کا وہ مشہور ٹریک "ٹیک فایئو” بھی شامل ہے جسے اگرچہ اب تک انتیس مرتبہ ریکارڈ کیا جا چکا ہے لیکن پاکستانی موسیقاروں نے پہلی مرتبہ اس ٹریک کو مشرقی آلات موسیقی سے تیار کرکے با لکل ایک نئی چیز تخلیق کی ہے۔
اس البم کوموسیقی سے والہانہ لگاؤ رکھنے والی ایک متمول کاروباری شخصیت عزت مجید نے ساٹھ پاکستانی فنکاروں کی مدد سے تیار کیا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے عزت مجید پنجاب یونیورسٹی میں ایڈمنسٹریٹو سائنسزکے استاد رہے ہیں۔ ضیاالحق دور میں انہیں ملک چھوڑنا پڑا، کچھ عرصہ سعودی عرب میں رہے پھر لندن جا بسے، مالیاتی امور میں مہارت رکھنے والے عزت مجید آج کل لندن میں اپنا کاروبار بھی کر رہے ہیں۔
پاکستان کےماضی کے معروف فلم ساز اور ہدایت کار میاں مجید کے صاحبزادے عزت مجید نے عمدہ موسیقی کی تخلیق کے لیے غیر تجارتی بنیادوں پر لاہور میں موسیقی کا ایک "پرپز بلڈ” اسٹوڈیو بھی بنا رکھا ہے۔ سچل اسٹوڈیو کی تیاری میں انہیں ایک جرمن شہری اور برطانیہ کے معروف ساؤنڈ انجینئرکرسٹوف براخر کی رہنمائی بھی میسر رہی ہے۔
ڈوئچے ویلے کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں عزت مجید نے بتایا کہ وہ مالی اورتکنیکی وسائل استعمال کرتے ہوئے جنوبی ایشیا کی موسیقی کو عالمی میعار کے مطابق تیار کر رہے ہیں۔ وہ کلاسیکی، نیم کلاسیکی، فوک اور جاز سمیت موسیقی کے کئی شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں وہ جاز کا ایک مزید اور بر صغیر کی جدید نظموں کے حوالے سے ایک خصوصی البم پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
عزت مجید کہتے ہیں کہ انہیں خوشی ہے کہ سچل جاز کی مقبولیت سے نہ صرف پاکستانی موسیقی کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی ہے بلکہ اس سے پاکستانی موسیقاروں کی بھی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔
یاد رہے’ پاکستان میں فلمی صنعت اور موسیقی کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے، ایک زمانے میں پاکستان میں سالانہ سو سے زیادہ فلمیں بنا کرتی تھیں لیکن پاکستانی فلم انڈسٹری کے زوال کی وجہ سے فلمی موسیقی بھی تقریباﹰ ختم ہو کر رہ گئی۔ کسی موسیقار نے چائے کا کھوکھا کھول لیا اور کسی نے سایٰئکل پر سبزیاں بیچنا شروع کر دیں۔ اب سچل اسٹوڈیو نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان موسیقاروں کو اکٹھا کیا ہے اور سچل جاز کی کامیابی سے ان فنکاروں کو پاکستانی موسیقی کے پرانے دور کی بحالی کی امید پیدا ہونے لگی ہے۔
بغیرکسی حکومتی تعاون سے موسیقی کی خدمت کرنے والے عزت مجید کو دکھ ہے کہ ان کے موسیقی کے، جس البم کی دنیا بھر میں دھوم مچی ہوئی ہے، ان کے اپنے وطن پاکستان میں لوگ اس بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ ان کے بقول، ’’پاکستان کا سافٹ امیج اجاگر کرنے والی ان کی اس شاندار کامیابی پر ابھی تک کسی حکمران شخصیت نے مجھے مبارکباد کا فون تک کرنا مناسب نہیں سمجھا، البتہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ایک رسمی اخباری بیان جاری کرکے مطمئن ہو چکے ہیں۔ انھوں نے سیلاب کی امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی مجھے دعوت دی تھی لیکن مجھ سے ابھی تک کسی نے اس سلسلے میں بھی رابطہ نہیں کیا۔‘‘ عزت کہتے ہیں کہ ان کے لیے یہی کافی ہے کہ ان کی ذاتی کوششوں سے اجڑے ہوئے پاکستانی فنکاروں کو دنیا میں عزت اور شہرت مل رہی ہے۔
سچل اسٹوڈیو کے ڈائریکٹر آپریشن مشتاق صوفی کہتے ہیں کہ ملکی تاریخ میں غالباﹰ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ نصرت فتح علی خان کے بعد موسیقی کے کسی پاکستانی گروپ کو عالمی سطح پر اتنی پذیرائی ملی ہے اور یہ سب کچھ کسی سرکاری مدد کے بغیر ہوا ہے۔
ان کے مطابق انفرادی کوششیں اپنی جگہ لیکن مو سیقی کی سرپرستی کیے بغیر اسے فروغ نہیں دیا جا سکتا۔ ان کے بقول جن حکومتوں کو صحت اور تعلیم پر بھی مناسب رقوم خرچ کرنےکی توفیق نہیں ہوتی ان سے آرٹ اور موسیقی کے فروغ کے لیے اقدامات کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔
Thanks.dw-world.de