بھارت کے پیکاسو نہیں رہے
برصغیر کے معروف مصور ایم ایف حسین لندن کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئے ہیں۔ وہ گزشتہ چند روز سے بیمار تھے۔
چھیانوے برس کےقمبول فدا حسین ہندو تنظیموں کی جانب سے دھمکیوں کے سبب اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنے گھر اور اپنے ملک سے دور رہنے پر مجبور تھے۔
وہ اچھی صحت میں تھے لیکن طبیعت ناساز ہونے کے سبب انہیں چند روز قبل لندن کے رائل تھامسن ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ ان کے مختصر علالت کے بعد اچانک انقتال کی وجوہات ابھی معلوم نہیں ہوئی ہیں۔
مقبول فدا حسین ریاست مہاراشٹر میں ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئے تھے اور فلموں کے پوسٹر بنا کر فن مصوری کی دنیا میں قدم رکھا تھا لیکن فن مصوری میں لگن اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور مہارتوں کے سبب انہیں آفاقی شہرت حاصل ہوئی۔
ایم حسین کو بھارت کا پیکاسو کہا جاتا ہے تاہم اس عالمی شہرت کے باوجود وہ بہت ہی منکسرالمزاج شخصیت کے مالک تھے۔
فن مصوری کے ماہرین، بشول ان کے مداح اور نکتہ چین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہندوستان کے ماڈرن آرٹ کو دنیا میں متعارف کرنے کا سہرا ایم حسین کے سر ہے۔
ایم حسین کو ہندوستانی کلچر، یہاں کی دیو مالائی کہانیاں، لوک گيت اور گنگا جمنی تہذیب سے لگاؤ تھا اور وہ اسے بہتر طور پر سمجھتے تھے۔ انہیں ہندوستان کا سب سے عظیم فنکار مانا جاتا ہے۔
ان کی بعض تصویروں پر تنازعہ ہوا تھا اور سخت گیر ہندو تنظیمیں انہیں دھمکیاں دیتی رہتی تھیں۔ کئی بار ان کی نمائشوں پر بجرنگ دل جیسی ہندو تنظیموں نے حملے کیے تھے اور توڑ پھوڑ بھی کی تھی۔
اس حوالے سے ان پر کئی مقدمے بھی چل رہے تھے اور بالآخر تنگ ہوکر بطور احتجاج انہوں نے قطر کی شہریت لے لی تھی اور لندن میں بھی رہتے تھے۔
گزشتہ کئی برسوں سے وہ بھارت واپس نہیں آئے تھے لیکن بی بی سی سے بات چیت میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ کسی سے ڈرتے نہیں اور وہ اپنے کام کے لیے سکون چاہتے ہیں اور کام میں مصروف ہیں۔
پچانوے برس کی تکمیل کے بعد بھی ایم ایف حسین پینٹنگ کرتے رہتے تھے اور اس کے لیے ان کے پاس بڑے بڑے پروجیکٹ تھے جن میں عرب تہذیب پر ایک بڑے منصوبہ بھی شامل ہے جو انہیں قطر کے شاہی خاندان نے سونپا تھا۔
BBC Urdu