’باجی‘ کی کہانی
حسن زیدی : تجزیہ کار
عمر میں بڑھتی ہوئی ایک فلم سپر سٹار جس کا ستارہ ماند پڑ رہا ہے اور ایک غریب گھرانے کی لڑکی جس نے فلم انڈسٹر
ی میں حادثات ی طور پر پہلا پہلا قدم رکھا ہے لیکن جو زندگی میں آگے بڑھنا چاہتی ہے اور جس کا سورج چڑھ رہا ہے، ان دونوں کے بیچ ایک مرد ہدایتکار ہے جس سے دونوں کو امیدیں وابستہ ہیں۔
عمر میں بڑھتی ہوئی ایک فلم سپر سٹار جس کا ستارہ ماند پڑ رہا ہے اور ایک غریب گھرانے کی لڑکی جس نے فلم انڈسٹری میں حادثات ی طور پر پہلا پہلا قدم رکھا ہے لیکن جو زندگی میں آگے بڑھنا چاہتی ہے اور جس کا سورج چڑھ رہا ہے، ان دونوں کے بیچ ایک مرد ہدایتکار ہے جس سے دونوں کو امیدیں وابستہ ہیں۔
نئی فلم ’باجی‘ کے بارے میں اپنا تجزیہ دینے سے پہلے مجھے یہ واضح کردینا چاہیے کہ اس کے ہدایتکار اور پروڈیوسر ثاقب ملک میرے اچھے دوست ہیں اور میں ان کی اپنی پہلی فیچر فلم بنانے کی تگ و دو سے خوب واقف ہوں۔
اب کچھ لوگوں کا خیال ہوگا کہ اپنے دوستوں کے کام پر مجھے تبصرہ نہیں کرنا چاہیے (اور اس خیال کا میں ایبسٹریکٹ طور پر احترام کرتا ہوں) لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے زیادہ تر فلمسازوں کو میں اچھی طرح جانتا ہوں اور عموماً اس وقت سے پہلے سے جانتا ہوں جب انہوں نے اپنی پہلی فلم بنائی تھی۔
تو یا تو میں زیادہ تر فلموں پر اپنی رائے نہ دوں یا بحیثیت تجزیہ کار کوشش کروں کہ جہاں تک ممکن ہو اپنے تجزیے کو غیر جانبدار رکھوں اور اس بات کا فیصلہ پڑھنے والے پر چھوڑ دوں کہ میں اس کاوش میں کتنا کامیاب رہا ہوں۔
میں نے دوسرے آپشن کا انتخاب کیا ہے، باقی آپ کی مرضی کہ آپ کے نزدیک میرے تجزیے میں کتنا وزن ہے۔
لیکن چلتے چلتے مجھے ایک اور بات کا اعتراف بھی کرنے دیں۔ میرے سارے فلمساز دوستوں اور جاننے والوں میں مجھے سب سے زیادہ امیدیں ثاقب ملک سے تھیں کیونکہ ثاقب نہ صرف تکنیکی طور پر بہت مہارت رکھتے ہیں (وہ برسوں سے اشتہارات اور میوزک ویڈیوز بناتے رہے ہیں) بلکہ ان کی پاکستانی فلم اور پاکستانی فلم انڈسٹری پر بہت گہری نظر ہے۔
نئے آنے والے ہدایتکاروں میں پاکستانی کمرشل سینما کا مزاج شاید ہی کوئی ان سے بہتر سمجھتا ہو۔
ثاقب پچھلے دس پندرہ سال سے فیچر فلم بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے اور مجھے یقین تھا کہ جب بھی وہ اس میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ان کی فلم دیکھنے کے عین قابل ہو گی اور سب سے الگ تھلگ فلم ہو گی۔
تو کیا ’باجی‘ میرے اس یقین اور اِن امیدوں پر پورا اتر پائی؟
اس کا جواب ذرا پیچیدہ ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ’باجی‘ پاکستان کے لیے یقیناً منفرد فلم ہے لیکن یہ کوئی اوریجنل کہانی نہیں ہے۔ ’باجی‘ اصل میں ایک مشہورِ زمانہ ہالی وُڈ فلم ’آل اباؤٹ ایو‘ (1950) سے کافی حد تک متاثر ہے۔‘
’آل اباؤٹ ایو‘ کو 14 آسکر نامزدگیوں سے نوازا گیا تھا، اس نے چھ ایوارڈز بھی جیتے اور کئی نقاد اسے دنیا کی بہترین فلموں میں شمار کرتے ہیں۔ اس کی کہانی میں بھی ایک غریب لڑکی ایک عمر میں بڑھتی ہوئی (بروڈوے تھیئٹر) سٹار کے ساتھ کام کرنے لگتی ہے اور آہستہ آہستہ اس کی جگہ لینا شروع کر دیتی ہے، جس سے سٹار اس سے نالاں ہونے لگتی ہے۔
لیکن جہاں ’آل اباؤٹ ایو‘ میں جوان لڑکی انتہائی خرّانٹ ہوتی ہے، ’باجی‘ کی نوجوان نیہا (آمنہ الیاس) زیادہ معصوم ہے۔ ’باجی‘ میں تھوڑی بہت جھلک ایک اور مشہور فلم ’سنسیٹ بولیوارڈ‘ (1950) کی بھی ہے جو شہرت اور اس کی عمر کے ساتھ کمی کی وجہ سے پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل کی ایک کیس اسٹڈی ہے۔
’باجی‘ کا اِن دونوں فلموں سے متاثر ہونے میں، میری نظر میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور جہاں تک ثاقب نے اس کہانی کو ہماری اپنی فلم سُپر سٹار میرا (فلم میں ان کا نام شمیرا ہے) کے گرد بنا ہے اس سے بہتر ان فلموں کی ہمارے حالات پر اڈیپٹیشن تصّور نہیں کی جا سکتی۔ یا کم از کم میں نہیں کر سکتا۔
میرا کو اس فلم میں کاسٹ کرنا یقیناً ایک نہایت ہی عمدہ آئیڈیا تھا۔ میرا کی اپنی زندگی اور کیریئر کی کہانی میں اِن دونوں ہالی وڈ فلموں سے کچھ حد تک مماثلت بھی ہے لیکن ان کی اپنی حقیقی کہانی ’باجی‘ میں ایک خاص پاکستانی مسالہ بھی ڈال دیتی ہے۔
’باجی‘ کے دونوں مرکزی اداکار یعنی میرا اور آمنہ الیاس بہت ہی عمدہ کام پیش کرتے ہیں۔ میرا تو آخر فلم میں بھی میرا ہی ہیں لیکن خاص طور پر کچھ مناظر میں انھوں نے اپنا ایک نیا روپ دکھا کر یہ ثابت کیا ہے کہ اگر انھیں معنی خیز رول اور اچھا ہدایتکار ملے تو وہ ایک پُراثر اداکارہ بھی ہیں۔
آمنہ کو میں ہمیشہ سے ایک بہت عمدہ اداکارہ سمجھتا ہوں حالانکہ ان کا فلمی سفر ابھی شروع ہی ہوا ہے۔ اس فلم میں تو وہ لاجواب کر دیتی ہیں۔ بیشتر ان اداکاراؤں کے برعکس جو ماڈلنگ سے اداکاری میں آئی ہیں، آمنہ میں نہ صرف سکرین پریزنس ہے بلکہ وہ اداکاری میں ایکسپریشن دینے سے بھی نہیں جھجکتیں۔
یعنی وہ اداکاری کو محض خوبصورت لگنے پر ترجیح دیتی ہیں، جو کسی بھی اچھے اداکار کی پہچان ہوتا ہے۔ یقیناً وہ اپنے فلمی سفر میں بہت دور تک جائیں گی۔
باقی اداکاروں میں نیّر اعجاز، علی کاظمی، محسن عباس حیدر اور نِشّو بیگم بھی اپنا کام بخوبی کرتے ہیں اگرچہ علی کاظمی اور محسن عباس حیدر کے رول یکطرفہ سے لگتے ہیں۔
عثمان خالد بٹ، جو بیرونِ ملک سے آئے ہوئے ہداہتکار روحیل کا کردار نبھاتے ہیں، اپنی اداکاری میں تھوڑے سے سیلف کانشس لگتے ہیں لیکن ان کے کردار کی اصل کہانی کی بابت (جو آخر میں ہی جا کر عیاں ہوتی ہے) وہ بھی گزارے کے قابل رہتے ہیں۔
تو پھر پیچیدگی والا مسئلہ کیا ہے؟
میرے خیال میں ’باجی‘ کی سب سے بڑی مایوس کُن بات وہی ہے جو اکثر پاکستانی فلموں میں ہوتی ہے یعنی اس کا سکرپٹ۔
’باجی‘ اپنی اصل کہانی یعنی شمیرا اور نیہا کے رشتے کی کہانی کو چھوڑ کر انٹرمشن کے بعد کہیں اور نکل پڑتی ہے۔ میں شمیرا اور نیہا کے بدلتے ہوئے تیور دیکھنا چاہتا تھا، میں ان کے درمیان ڈرامہ بڑھتا ہوا دیکھنا چاہتا تھا کیونکہ یہی اس کہانی کا محور تھے اور میں ان کے بڑھتے ہوئے تناؤ کا انجام دیکھنا چاہتا تھا۔
لیکن کسی وجہ سے، لکھاری عرفان احمد عرفی اور ثاقب ملک نے اِنٹرمِشن کے بعد کہانی میں مسالہ ڈالنا بہتر سمجھا۔ شاید اُن کو گمان تھا کہ اصل کہانی کو پاکستانی باکس آفس پر چلنے کے لیے اور مسالے کی ضرورت ہے۔ شاید ان کو اپنی اصل کہانی کی طاقت پر پورا یقین نہیں تھا۔ وجہ جو بھی ہو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کہانی نہ اِدھر کی رہتی ہے نہ اُدھر کی۔
وقفے سے پہلے ’باجی‘ بہت اچھی طرح شمیرا اور نیہا کے رشتے کی کہانی کو سیٹ اپ کرتی ہے اور باوجود اس کے کہ فلم کی عکاسی عموماً حیرت انگیز طور پر بے جان سی لگتی ہے (جو میں ثاقب کی بنائی ہوئی فلم سے توقع نہیں کرتا تھا) دیکھنے والا کبھی کہانی سے بور نہیں ہوتا۔
لیکن وقفے کے بعد اصل کہانی کا سیٹ اپ بھلا دیا جاتا ہے اور فلم کسی تھرِلر کے رخ پر چل پڑتی ہے۔ میں اسی امید میں رہ گیا کہ شاید، کبھی نہ کبھی کہانی واپس اپنے اصل محور پر آ جائے گی۔۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔
’باجی‘ کا دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے کسی بھی کردار سے آپ کو پوری طرح ہمدردی نہیں ہو پاتی۔
شمیرا نفسیاتی طور پر اِنسیکیور ہے اور اس میں دوسروں سے کمینہ پن کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس کے گِرد سارے دیگر کردار کسی نہ کسی طرح اس کا استحصال کرنا چاہتے ہیں۔
صرف نیہا میں وہ کشش ہے جس سے آپ کو اس کے لیے کچھ ہمدردی محسوس ہوتی ہے ، لیکن وہ بھی اتنی معصوم نہیں جتنا آپ امید کرتے ہیں۔ اس میں بھی آگے بڑھنے کے لیے ایک جستجو ہے جس میں دوسرے خاطر میں نہیں آتے۔
مجھے یہ بھی اعتراف کرنا پڑے گا کہ ’باجی‘ کے وہ حصّے جو میرا کے بارے عام عوامی تاثر سے منسلک ہیں اُن کا فلم میں شامل ہونا میرے لیے کچھ بے چینی کا باعث تھا۔
مجھے محسوس ایسا ہوا کہ اگرچہ فلم میرا سے ہمدردی کی طرفدار ہے، اِن حصّوں کو سستے مزاح کی لیے استعمال کیا جا رہا تھا جس کا شاید میرا کو خود بھی اندازہ نہیں تھا۔ شکر ہے ایسی بے چینی کم کم ہی محسوس ہوئی۔ میری اصل مایوسی بہرحال اسکرپٹ کے رُخ کے حوالے سے ہی رہی۔
’باجی‘ کے گانوں میں دو گانے ناہید اختر اور رونا لیلہ کے پرانے فلمی گانوں کے ریمیک ہیں۔ اور یہی دو گانے فلم کے سب سے زیادہ یاد رہ جانے والے گانے ہیں۔
کاش ثاقب نے اُتنا ہی اعتماد اپنی اصل کہانی پر دکھایا ہوتا جتنا انھوں نے اِن دو گانوں کے نوسٹالجیا میں دکھایا۔ شاید پھر ’باجی‘ سچ مُچ لمبے عرصے تک یاد رہ جانے والی فلم ہوتی۔