ادبی ڈائری – لاہور
سید بدر سعید، لاہور
کچھ عرصہ سے ا دبی و علمی حلقوں کی جانب سے یہ شکوہ کیا جا تارہا ہے کہ ادبی محفلوں اور تقریبات میں کمی آتی جا رہی ہے اور ماضی کی روائیتوں سے آہستہ آہستہ کنارہ کشی کی جا رہی ہے ۔اہل علم کا یہ شکوہ اپنی جگہ لیکن اگر حقائق کا جائزہ کیا جائے تو بظاہر ایسا نظر نہیں آتا ۔کم از کم لاہور کی حد تک یہ کہنا درست نہیں کیوں کہ زندہ دلان لاہور اس پر آشوب دور میں بھی اپنی تمام تر مصروفیات اور پریشانیوں کے باوجود علمی و ادبی تقریبات کا انعقاد کر رہے ہیں ۔نئے سال کے آغاز سے ہی ہر دوسرے دن کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی ادبی تقریب ہوتی نظر آرہی ۔یہ تقریبات اس سے پہلے بھی ہو رہی تھیں لیکن خاص طور پر موسم بہار کی آمد پر اس میں مزید اضافہ ہوا ہے ۔لاہور میں ادبی فضا قائم رکھنے میں عطاالحق قاسمی کی کوششوں کا بھی بڑی حد تک دخل ہے ۔الحمرا آرٹ کونسل کی سربراہی کے بعد سے ہی عطا الحق قاسمی صاحب نے یہاں ادیبوں اور فنکاروں کے لیے سہولتیں مہیا کرنی شروع کر دی تھیں اور آئے روز کوئی نہ کوئی تقریب برپا کیے رکھتے ہیں اس حوالے سے انہوں نے ایک بہترین سلسلہ ماہانہ مشاعرہ کی صورت میں جاری کر رکھا ہے ان مشاعروں میں شاعروں کو اعزازیہ دینے کی روایت بھی برقرار ہے اور الزامات سے بچنے اور ہر شاعر کو آگے آنے کا موقع دینے کے لیے یہ اصول وضع کر رکھا ہے کہ جو شاعر ایک مرتبہ اپنا کلام سنا لے وہ اس سلسلے کے اگلے کسی بھی ماہانہ مشاعرے میں اپنا کلام نہیں سنا سکتا اگلی بار نئے شعرا ء کو ہی سامنے آنا ہوتا ہے ۔آج کل ادبی بیٹھک اسی طرح عروج پر ہے جیسے کبھی پاک ٹی ہائوس ہوا کرتا تھا ۔شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کے عطا الحق قاسمی صاحب اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود ان مشاعروں میں شروع سے آخر تک موجود رہتے ہیں اسی طرح اصغر ندیم سید ، خورشید رضوی ، عباس تابش ، اور حسن عباسی سمیت علم و ادب کی معروف شخصیات بھی یہاں نظر آتی ہیں جس کی وجہ سے تشنگان ادب ان ادبی محفلوں کا رخ کرتے نظر آتے ہیں ۔ دوسری طرف جنوری کے آخری ہفتے اس وقت دلچسپ صورت حال دیکھنے کو ملی جب جب الحمر ادبی بیٹھک میں ماہانہ مشاعرہ تھا عطاالحق قاسمی حسب معمول تشریف فرماں تھے پروگرام کی نظامت اصغر ندیم سید کے ذمہ تھی اور معروف شاعروں نے اپنا کلام سنانا تھا جبکہ دوسری طرف اس کے بالکل ساتھ ایوان اقبال میںاسی وقت حلقہ ارباب ذ وق کا ’’ سپیشل سیشن ‘‘تھا جہاں قائم نقوی اور حماد نیازی پروگرام کو بہتر بنانے میں مصروف تھے شعرا ء اور ادیب دونوں پروگرا موں میں شرکت کرنا چاہتے تھے لہذا ہر 10, 15 منٹ بعد احباب ’’ایمرجنسی‘‘ کا بہانہ بنا کر تھوڑی دیر کے لیے چلے جاتے اور پھر دوسری تقریب میں بھی’’ ایمرجنسی‘‘کا کہہ کر واپس آجاتے اسی طرح بہار کی آمد پر معروف شاعرہ اور کالم نویس عمرانہ مشتاق نے ’’اماوس‘‘ کے نام سے ادبی تنظیم کی بنیاد رکھتے ہوئے ماہانہ مشاعروں کا آغاز کر دیا ۔اور 14 فروری کی رات ویلنٹائن ڈے اور بہار کے حوالے سے ایک خوبصورت مشاعرہ کا انعقاد کرایاجس میں فرحت عباس شاہ ، حسن عباسی ، احمد عطا، خالد احمد، نجیب احمد، حافظ مظفر محسن اور اس عاجز سمیت کئی شاعروں اور شاعرات نے اپنا کلام پیش کیا جبکہ فاطمہ احمد نے نظامت کی اس کے علاوہ فرحت عباس شاہ ، شوکت علی اور دیگر کئی احباب نے غزل سر تال کے ساتھ گا کر سنائی۔اس مشاعرے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ مشاعرہ کے ہال کوخوبصورت غباروں (جو دل کی شکل کے تھے) پھولوں ،اور شمع سے سجایا گیا تھا ۔اسی طرح فروری کے آغاز سے ہی لاہور میں فیض احمد فیض کی100 سالہ تقریبات کا بھی آغاز ہو چکا ہے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے ۔ یاد رہے یہ سال فیض کے سال کے طور پر منایا جا رہا ہے ۔اسی طرح لاہور کی یونیورسٹیز اور کالجوں میں بھی ادبی ماحول نمایاں نظر آیا ۔جہاں ایک طرف پنجاب یونیورسٹی کے زیر اہتمام میر تقی میر کی صد سالہ تقریبات اور کانفرنس کا انعقاد کیا گیا وہاں دوسری طرف ایف سی کالج، یونیورسٹی نے بھی یکے بعد دیگر معروف اینکر پرسن طلعت حسین، کالم نویس اوریا مقبول جان ، مشاہد حسین اورڈرامہ اور فلم کے سکرپٹ رائیٹر احمد عقیل روبی کے خصوصی لیکچرز کا اہتمام کیا
بلاشبہ ادبی اور صحافتی حوالے سے لاہور کو خاصی اہمیت حاصل ہے اور یہ علمی و ادبی تقریبات لاہور کی شان ہیں ۔لیکن 2011 کے آغاز سے ہی ان میں جو غیر معمولی تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے اور ایک مخصوص ادبی ماحول لاہور کے افق پر چھایا ہوا ہے ۔اسے دیکھ کر امید کی جا سکتی ہے کہ اہلیان لاہور اس برس بھی اپنی ادبی روایات اور پہچان کو برقرار رکھیںگے ۔