اس حقیقت کے باوجود کے بھارتی ٹی وی چینلوں پر پیش کیے جانے والے ڈارامہ سیریلز پاکستان میںبکثرت دیکھے جاتے ہیں۔ مجھے ان ڈراموں کو پاکستان میں پیش کیے جانے پر سخت اعتراضات ہیں۔ان ڈرامہ سیریلز کی خاص بات ان کی بار بار بدلتی کہانی اور قسطوں کا نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔ اس طرز کے سیریلز کی شروعات بھارتی چینل سٹار پلس نے کی، بعد ازاںبھارتی گھریلو خواتین میںمقبول ہونے کے بعد اسی انداز کو دیگر کئی ٹی وی چینلز نے بھی اپنا لیا جن میںذی ٹی وی، این ڈی امیجن ٹی وی اور دیگر کئی چھوٹے بڑے ٹی وی چینل شامل ہیں۔ ان ڈراموں کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ فلموں میں ناکام ہونے والے اکثر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ان ڈراموں میںاپنی قسمت آزمانے لگے۔اگرچہ ان ڈراموں سے بہت سے بے روزگار بھارتی نوجوانوں کو کام کی سہولت میسر آ گئی وہیں ادا کاری کا معیار کم ہوتا چلا گیا۔ اور لڑکیوںنے زیادہ سے زیادہ شہرت حاصل کرنے کی کوشش میں اپنی جسمانی خوبصورتی کو زیادہ نمایاں کرنا شروع کر دیا۔ خوبصورتی کو نمایاںکرنے کےلیے ننگ دھڑنگ ڈانس، بھڑکیلے ملبوسات، اور زیورات کا استعمال زیادہ ہو گیا۔
ایسا کرنے سے ڈرامہ دیکھنے والوں کے صارفین میں اضافہ ہوا اور یوں اس کاروبار کو تقویت ملنے سے اس سے جڑے ہر فرد کے لیے یہ ڈرامہ سیریلز روزی کا وسیلہ بن گئے جس کا نتیجہ آج ہم بے شمار بھارتی ٹی وی چینلز اور بے بہا ڈرامہ سیریلز کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ چونکہ بھارتی معاشرہ ہندؤں پر مشتمل ہے اس لیے ان کی ثقافت اس چیز پر زیادہ اعتراضنہیں کرتی۔ لیکن جہاں تک میرا خیال ہے یہ ڈرامہ سیریلز کسی طرح بھی پاکستانی ثقافت کےلیے موزوں نہیں ہیں، ان ڈراموں کو دیکھنے سے نوجوان نسل بے حیائی کے راستے پر چل رہی ہے اور معاشرے میں ایسی کئی نئی جہتوں کا وجود ہوا ہے جو پہلے نہیں تھا۔ گزشتہ کچھ مہینوں سے مجھے ان ڈراموں کا مشاہد کرنے کا موقع ملا تو میں نے ایسی کچھ چیزیں دیکھیں جو مجھے قابل اعتراض لگیں۔ اب میں چند اعتراضیہ نکات پیش کروں گا۔
بار بار ناجائز جنسی تعلقات کا ذکر
ہر ڈرامے میں ایک یا ایک سے زائد مرتبہ کسی آدمی یا عورت پر ناجائز جنسی تعلقات کا قصہ چھیڑا جاتا ہے۔ اکثر یوں ہوتا ہے کہ ایک آدمی جو ڈرامے کے شروع سےلے کر اختتام تک شریف النفس ظاہر کیا جاتا ہے پر اچانک کوئی عورت آ کر ماضی میں اس کے ساتھ جنسی تعلقات رکھنے کا الزام لگا دیتی ہے۔بعد میں وہ الزام سچ ثابت ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں خواتین جب اپنے کام کاج چھوڑ کر ایسے ڈرامے دیکھ رہی ہوتی ہیں تو ان کےچھوٹے بچے بھی ان کے ساتھ ڈرامہ دیکھنے لگ جاتے ہیں۔ بار بار ناجائز تعلقات کا ذکر سن کے ان کے ناپختہ ذہنوں پر برا تاثر پڑتا ہے مگر بچے چونکہ اپنے والدین کو ہی سمجھ بوجھ والا سمجھتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ ٹی وی پر جو کچھ ہو رہا ہے وہی معاشرے کی حقیقت ہے اور جس طرح یہ عورت ناجائز تعلقات رکھتی ہے اسی طرح ان کی ماں یا باپ بھی یہ کام کر سکتے ہیں۔ اور یہ کوئی بہت زیادہ معیوب بات نہیں۔
غیر متعلقہ بیک گراؤنڈ موسیقی
ڈراموں میں ایک تو غیر ضروری طور پر موسیقی بجائی جاتی ہے ۔ ہر بدلتی صورت حال کے لیے موسیقی کا بجنا شروع ہو جانا اوریہ موسیقی ہندوؤں کی عبادت گاہوں میں بجنے والی گھنٹیوں، مذہبی رسومات میں بجائے جانے والے سنکھ اور مختلف موقعوں پر پڑھے جانے والے منتروں کے پاٹ پر مشتمل ہوتی ہے۔ یوں نہ چاہتے ہوے بھی مندر کی گھنٹی آپ کے گھر میں گونجتی ہے۔ منتروں کے پاٹ چلتے ہیں۔ اگر اسی چیز کو آپ اس انداز میں سوچیں کہ کسی ہندو کے گھر میں اذان کی آواز گونجنے لگے یا قرآن کی تلاوت سنائی دینے لگے تو اس کا طرز عمل کیا ہو گا ؟ موسیقی تو ویسے بھی اسلام میں پسند نہیں کی جاتی تو اگر آپ خود کو موسیقی سننے سے باز نہیں رکھ سکتے تو کم از کم ہندوؤں کی مذہبی موسیقی سے اپنے گھروں اور اپنی اولاد کے کانوں کو محفوظ رکھیں۔
مزید ہندوؤانہ رسومات
ان ڈراموں میں مکمل طور پر ہندوؤں کی مذہبی رسومات دکھائی جاتی ہیں ۔ شادی کے پھیروں سے لے کر لاش کو لکڑیوں پر جلانے تک۔ السلام علیکم کی جگہ نمستے اور جے شری کرشنا استعمال کرنے سے لے کر ماں باپ کے پیر چھونے تک۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر ہماری نئی نسل یہ سب دیکھتی رہی تو ایک دن ایسا نہ آئے جب آپکے بچے آپ سے سوال کرنے لگ جائیں کہ بابا جب کوئی فوت ہو جاتا ہے تو ہم اسے جلاتے کیوں نہیں۔ امی جان مجھے آشیرواد دیجیے۔ آپی مجھے راکھی کب باندھو گی اور بھیا اگلے جنم میں آپکا بڑا بھائی میں بنوں گا وغیرہ وغیرہ۔
اسلام میں لاش کو دفنانے پر تنقید
ہندوؤں کے اکثر ڈراموں اور فلموں میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ کسی انسان کے مر جانے کے بعد اگر اس کی لاش کو جلایا نہ جائے تو روح جسم سے الگ نہیں ہوتی، اور اپنی مقرر کردہ جگہ پر واپس نہیں جاتی بلکہ دفنا دینے کی صورت میں لاش کے ارد گرد ہی موجود رہتی ہے۔ ایسے حالات میں فلم یا ڈرامہ کی کہانی میں لاش کو دفن شدہ جگہ سے نکال کر جلایا جاتا ہے تا کہ بعدازاں وہی روح کسی اور کو تنگ نہ کرے۔ ایسا کر کے دراصل اسلام میں لاش کو دفنانے کے عمل کو غلط قرار دیا جاتا ہے۔ جو کہ اسلامی اصولوں پر صاف تنقید ہے۔ کیا آپ ایسے ڈرامے دیکھنا چاہیں گے جس میں آپ کے مذہبی طریقہ کار کو غلط قرار دیا جائے۔
کہانی کو غیر ضروری طور پر لمبا کرنا
اگر ہم مذہب کو پس پشت بھی ڈال دیں اور ڈرامے کو انٹرٹینمینٹ کی ایک قسم سمجھ لیں تب بھی ان ڈراموں میں ناظرین کے ساتھ ناانصافی کی جاتی ہے۔ ان ڈراموں میں کہانی کو غیر ضروری طور پر لمبا کر دیا جاتا ہے ۔ اکثر اوقات ایک عمل کو دکھانے کے لیے دس اقساط گزار دی جاتی ہیں۔ جو کہ دیکھنے والے کے ساتھ زیادتی ہے۔ اگر ڈرامہ بنانے والے واقعی کوئی اچھی اور سبق آموز کہانی پیش کرنا چاہتے ہیں تو وہ فضول طورپر کہانی کو لمبا کر کے کم از کم ناظرین کا وقت ضائع نہ کریں۔ اکثر اوقات ڈرامے کا ایک کردار کسی بھی غلط عمل کا سارا ذمہ خود لے لیتا ہے اور کسی کو اس بارے میں آگاہ نہیں کرتا۔ بعد ازاں کرداروں میں غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور اسی چخ چخ میں کئی اقساط گزر جاتی ہیں۔
خواتین کو غلط ترغیب دے کر گھریلو نظام تباہ کرنے کی کوشش
ان ڈراموں میں اکثر اوقات عورت کو مردوں سے برتر دکھایا جاتا ہے۔ عورت گھر کا مکمل انتظام سنبھالے ہوے ہے، کاروبار کی منتظم بھی وہی ہے۔ بڑے بڑے فیصلے بھی وہی کرتی ہے جب کہ گھر کے مرد، بڑے بوڑھے کرداروں کو خاموش رکھا جاتا ہے۔ یوں ایک طرف تو عورت کو گھر سے باہر نکلنے کی ترغیب دی جا رہی ہے دوسرے اسے مرد سے زیادہ حقوق رکھنے کی تعلیم بھی دی جا رہی ہے۔ میرے خیال سے عورت مرد کے لیے ہے۔ ایک خاندان کی گاڑی چلانے کے لیے مرد اور عورت مکمل تعاون کریں تبھی سبھی امور اچھی طرح انجام پاتے ہیں۔ لیکن عورت گھر کی چار دیواری اور اولاد کے منتظم ہے اور مرد گھر کے باہر ی امور کا۔اگر عورت گھر کے باہر معاملات میں بڑے بڑے فیصلے صادر کرنے لگے تو خاندانی نظام کا توازن بگڑ جانے کا خدشہ ہے۔ اس لیے یہ ڈرامے ہماری نئی نسل کی بچیوں کے لیے بھی موزوں نہیں۔
ناقابل قبول لباس اور اڈلٹری کا فروغ
انڈین ڈراموں میں خواتین کا زیادہ استعمال ہونے والا لباس ساڑھی ہے۔ یہ ایک ایسا لباس ہے جس میں خواتین کا مکمل جسم ڈھکا نہیں رہ سکتا۔ مزید براں جب خواتین ایسا لباس پہن کر کسی کردار میں آتی ہیں تو ڈرامہ کے دیگر مرد کردار، کزن، دیور اور کلاس فیلو ان کے ساتھ چھیڑ خانی کرتے ہیں۔ ان کی تعریف کرتے ہیں۔ خواتین کو اس طرح نیم عریانی کی کیفیت میں دیکھ کر ہمارے نوجوانوں بھی معاشرے میں خواتین کے ساتھ اسی قسم کا تعلق چاہتے ہیں اور انکے ذہن بے حیائی کی طرف جا رہے ہیں ۔
ان سبھی وجوہات کی بنا پر یہ ڈرامے ہمارے معاشرے ، ہماری ثقافت اور ہمارے مذہب کے ساتھ میل نہیں کھاتے۔ اگر ہم ان کی مزید پذیرائی کریں گے تو ہم اپنی ہی آنے والی نسلوں کا نقصان کریں گے۔