نانا، نانی اور دادا دادی کا قومی دن ۔۔۔۔!
تحریر: محمد الطاف گوھر
"۔۔۔ ۔۔۔۔۔ آج تیرہ اکتوبر کو دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی نانا، نانی اور دادا، دادی کا قومی دن منایا جا رہا ہے، یہ دن منانے کا مقصد نہ صرف ان رشتوں کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے بلکہ انکے اقدار کو بلند بھی رکھنا ہے، معاشرہ رشتوں کے روابط میں مضبوطی کیلئے ان اہم رشتوں کا احسان مند بھی ہے، انسان اپنی زندگی کی راہیں ان باتوں سے متعین کرتا ہے جن سے وہ متاثر ہوتا ہے اور جہاں تجربہ، اخلاص اور محبت کا پہلو بھی شامل ہو تو وہ اک بہترین لاعمل مرتب کر سکتا ہے جسکا جیتا جاگتا ثبوت نانا، نانی اور دادا دادی کے رشتے ہیں، جیسے پودے پانی کے بغیر سوکھ جاتے ہیں اسی طرح رشتوں کو ترو تازہ رکھنے کیلئے انکو وقت دینا پڑتا ہے،سب رشتے اپنی جگہہ پہ محترم اور اہم ہوتے ہیں مگر جب رشتوں میں کڑواہٹ یا دڑاڑ آجائے تو پھر انکو واپس معتدل کرنے کیلئے یہ بزرگ رشتے بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، آج معاشرہ ٹیکنالوجی کی چکا چوند کردینے والی دھار پہ بہہ رہا ہے جسکا سب سے بڑا شکار نوجوان بچے ہو چکے ہیں، جنکے پاس ان رشتوں کو وقت دینا تو درکنار اپنے کھیل کود اور تعلیم کیلئے وقت نکالنا بھی دشوار ہوچکا ہے، پہلے پہل بچوں اور بوڑھے رشتوں میں لازوال پیار کا عکس جھلکتا تھا، بچے بزرگ رشتہ داروں کو نہ صرف وقت دیتے تھے بلکہ ان سے بہت کچھ سیکھتے تھے، مگر جب سے ماوں نے بچوں کو کارٹون مویز اور موبائل کھیلوں کا عادی بنا دیا ہے وہ اب اتنے مصروف ہوچکے ہیں کہ انکے پاس شاید ہی وقت ہو کہ ان بزرگ رشتوں کی اہمیت کو سمجھ سکیں، نانا، نانی اور دادا دادی کو میں وہ انسٹیٹیوٹ کہوں گا جہاں پہ بچوں کو عملی زندگی کے تجربات کو شفقت اور اخلاص سے منتقل کیا جاتا ہے جو زندگی میں آنے والے دنوں کیلئے مشعل راہ بنتے ہیں، آج انسان انسانوں کے بھیڑ میں بالکل تنہا ہوتا جا رہا ہے، رشتوں کی ناقدری سے ان میں مٹھاس ختم ہوتی جا رہی ہے، یہ سب کچھ بہتر ہوسکتا ہے جب ہم معاشرے کے پیار کے بندھن کو مضبوطی سے بندھا رکھنے والے بزرگ رشتوں کو اہمیت اور اپنا وقت دیں، اگر نانا، نانی اور دادا دادی سب رشتے موجود نہیں تو کم از کم انکے برابر اور بھی بزرگ رشتے موجود جو کسی نہ کسی طور انکی کمی تو پورا کر سکتے ہیں ، جب سے نوجوانوں نے مشینوں سے دوستی کر لی ہے اسی وقت سے بزرگ رشتے ادویات کی نظر ہورہے ہیں، یہ بزرگ رشتے کچھ اہمیت، قدر اور وقت مانگتے ہیں، ان رشتوں کیلئے پیار آج بھی موجود ہے صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ انکی اہمیت کو اجاگر کیا جائے اور انہیں اپنی روانی کی نہج تک پہنچا دیا جائے "