URDUSKY || NETWORK

15 گھوڑوں کی تلاش

113

کالم کا مستقل عنوان:آن لائن پالیٹیکس

شہزاد اقبال
[email protected]

…… اور آخر کار متحدہ قومی موومنٹ نے بھی یکم جنوری کے حکومتی پٹرول بم کے مسئلہ پر وفاقی حکومت سے علحیدگی کا اعلان کر دیا اور یو ں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سے تصادم کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اس نے پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت کو مزید تنہا کر دیا ۔جہاں تک ایم کیو ایم کی کراچی اور لندن کی رابطہ کمیٹی کا اجلاس اور اس کے بعد حکومت سے علحیدہ ہونے کا تعلق ہے تو سفیدپوشوں اور درمیانی طبقہ کی دعویدار اس جماعت نے گزشتہ برس5 بار پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ پر ایسا فیصلہ کیوں نہیں ،آج بابر غوری ،ڈاکٹر فاروق ستار ،حیدر عباس رضوی ،فیصل سبزواری وغیرہ حکومت سے اپنی علحیدگی کی بڑی وجہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہی بتاتے ہیں لیکن اصل بات نہیں بتاتے کہ صدر آصف علی زرداری گزشتہ دس دنوں سے کراچی میں کیا کر رہے ہیں؟ آخر کار ا یم کیو ایم کو راضی کرنے میں وہ اب تک کیوں ناکام ہوئے ہیں جبکہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ تو یکم جنوری کو ہوا تھا اور صدر کی کراچی میں موجودگی کی وجہ تو گزشتہ روز وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بھی بتا دی کہ وہ اتحادی جماعت کو واپس مرکزی حکومت میں لانے میں مصروف ہیں جبکہ ایم کیو ایم کی حالت یہ ہے کہ وہ سندھ حکومت سے علحیدہ ہوئی اور نہ ہی گورنر عشرت العباد جو طویل عرصے سے گورنر کی ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں وہ بھی اب تک مکمل طور پر حکومت سے علحیدہ نہیں ہوئے جبکہ بعض وفاقی وزراءاب بھی میڈیا پر آ کر یہ بیان دے رہے ہیں کہ جمعیت علمائے اسلام ف اور متحدہ قومی موومنٹ دوبارہ حکومت میں آ جا ئیں گے لیکن آثار یہی بتا رہے ہیں کہ اب کی بار ناراضگی یقینی یا پھر قدرے طویل ہو سکتی ہے ۔
ادھر وزیر اعظم گیلانی کی 3 جنوری کو لاہور میں جو مصروفیت رہی اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومتی سربراہ اپنی حکومت کے حوالے سے خاصے پریشان ہیں اور اس وقت ان کی باڈی لینگوئچ(Body Language) دیکھنے والی تھی جب چوہدری برادران سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری شجاعت حسین نے خصوصی طور پر مائیک اپنی طرف کرکے کہا کہ پہلے ان کا وفاقی حکومت کو غیر مشروط تعاون تھا لیکن اب کی بار ایسا نہیں ہو گا جس پر ملتان کے سید زادے کھسیانی ہنسی ہنس دیئے، افسوس کہ کس طرح اٹھارویں ترمیم سے طاقت حاصل کرنے والے طاقت ور وزیراعظم کس طرح 50 رکنی پارلیمانی جمات کے رہنما کی بات سننے پر مجبور ہوئے جس کی کسی بھی جگہ حکومت بھی نہیں ہے، خیال یہی کیا جا رہا ہے کہ عدم اعتماد کی صورت میں پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ ق کے ارکان کا تعاون حاصل ہو گا جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی پنجاب میں مسلم لیگ کی اکثریت اور وزارت اعلٰی کے لئے کام کرے گی لیکن ایسا ہونا مشکل ہے۔
مسلم لیگ ن کی حالیہ سیاسی ہلچل میں کردار خاصا دلچسپ رہاہے اور اس نے گزشتہ کچھ عر صے سے میڈیا کے ذریعے یہ تاثر قائم کر رکھا ہے کہ وہ جمہوری نظام کو قائم رکھنا چاہتی ہے اس سلسلے میں وہ عدم استحکام پیدا کرکے تیسری قوت یعنی فوج کے لئے راستہ ہموار نہیں کرے گی ۔ن لیگ،پیپلز پارٹی کی حکومت کو 5 سال تک کام کرنے دے رہی رہی تھی لیکن حکومت کی بدعنوانی ،مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح اور حکومتی بد انتظامی میں جس شدت سے اضافہ ہوا اس نے مسلم لیگ ن کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا کہ وہ موجودہ صورت حال میں پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت کے خلاف نہ تو عدم اعتماد لائے گی اور نہ ہی عدم اعتماد کے عمل کی حمائت کرے گی ۔ ایسی صورت حال میں گیلانی حکومت کو15 گھوڑوں کی تلاش ہے جو اقلیتی حکومت اور اقلیتی وزیر اعظم کے لیبل کو اتار پھینکیں اس کے لئے دیکھنا یہ ہے کہ چھانگا مانگا یا سوات کے گیسٹ ہاوس کب آباد ہوتے ہیں اور ان جنگلوں میں گھوڑے چرنے کے لئے آتے بھی ہیں یا نہیں،آنے والا وقت اس راز پر سے پردہ اٹھا دے گا ۔
اس وقت قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد کے پاس 157 ارکان ہیں جن میں پیپلز پارٹی کے 127،عوامی نیشنل پارٹی کے 13 ،مسلم لیگ فنکشنل کے5 ، نیشنل پیپلز پارٹی کا 1 جبکہ 11 آزاد ارکان ہیں اور حکو مت کو اپنی اکثریت ثابت اور قائم کرنے کے لئے مزید 15 ارکان درکار ہیں ، دوسر ی جانب اپوزیشن جماعتوں میں مسلم لیگ ن کے 91 ،ق کے51 ،ایم کیو ایم کے25،جے یو آئی ف کے 8 ارکان ہیں اس کے علاوہ بعض دیگر جماعتیں اور آزاد ارکان ہیں لہذا نمبر گیم اور کاونٹنگ پریکٹس شروع ہو چکی ہے ،لیکن گزشتہ چند دنوں کے سیاسی ماحول میں بہت کم سیاست دان اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ نئے سیاسی افق میں محض اقتدار کو ہی پیش نظر رکھنا چاہیے یا اس ممکنہ تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہونے کی و جہ یعنی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور مہنگائی کی لہر کو بھی قابو میں کرنا ہو گا۔
ادھر صدر،وزیر اعظم اور وفاقی وزراءکو بڑا زعم ہے کہ ان کی حکومت قائم رہے گی جس کو حکومت بدلنے کا شوق ہے وہ میدن میں آ جائے اس طرح کا تکبر کچھ دن قبل بلوچستان کے ایک صوبائی وزیر کی جانب سے بھی دیکھنے میں آیا تھا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کی جگہ کوئی ا ور پارلیمانی لیڈر بننے کا امیداوار سامنے آتا ہے تو اس کا منہ کالا کرکے شہر میں پھرایا جائے گا جبکہ وفاق میں بھی بجائے اس کے کہ اپنی اصلاح اور عوام کی بہتری کے لئے اقدامات کئے جا نے کا کوئی ارادہ کیا جاتا وہاں بدنام حکومت کو سہارا اور ساتھ دینے کے عہد کئے جاتے ہیں اور تو اور صدر مملکت زرداری صاحب بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر وزیر اعظم گیلانی کو سب بھی چھوڑ دیں میں تب بھی ان کے ساتھ کھڑا ہوں گا ۔اس حوالے سے اور کیا کہا جائے کہ دونوں جیل کے ساتھی ہیں اور گیلانی صاحب تو معلوم نہیں کس دام میں آ گئے کہ انہوں نے اپنی اچھی خاصی شخصیت اور شہرت کو نقصان پہنچادیا،غلطیوں پر اترانے والے حکمران ناصرف حال میں بدنام ہوتے ہیں بلکہ تاریخ کی کتابوں میں بھی وہ برے ہی پکارے جاتے ہیں ،اب گھوڑے پالنے اور انہیں مربے کھلانے کا دور نہیں رہا ،عوام ضروریات زندگی کے حصول کے لئے بھپر چکے ہیں اور بھپری عوام ظالموں اور بددیانتوں سے جو کچھ سر بازار کرتی ہے ماضی قریب کی تاریخ اس کی گواہ ہے