14اگست اور ہماری ذمہ داریاں
شمشیر حق۔۔۔محمد وجیہہ السماء
قوموں کی زندگی میں آ زادی کی حیثیت روح سی ہو تی ہے اور آ زاد قومیں جس طرح پھلتی پھولتی ہیں مغلوب قوموں کاایسا نصیب نہیں ہو تا جس کی واضع مثال برصغیر پاک و ہند میں مسلم قوم کے انگریزوں کے غلامی کے سو سال کا دور ہے مسلمان ان سو سا لوں میں کوئی خاطر خواہ ترقی نہ کر سکے اور انگریزوں و ہندوؤ ں کے ظلم و جبر برداشت کر تے رہے اسی بنیاد پر مسلم لیگی لیڈوں کو قا ئد اعظم کی راہنما ئی میں مسلمانو ں کے مسا ئل کا حل صرف اور صرف آ زادی میں نظر آیا اور قا ئد کی شا ندار قیادت میں مسلمان اپنے لئے علیحدہ وطن حا صل کر نے میں کا میا ب ہو گئے اور اس طرح 14اگست 1947ء ایک تاریخی دن بن کر دنیا ئے سیاست و جغرافیہ میں رقم ہو گیا اور ہمارے لئے 14اگست کی تاریخ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک اہم دن بن گئی ا س دن کی اہمیت کئی لحا ظ سے ہے جن میں چیدہ چیدہ پہلو یہ ہیں 14اگست ایک تو ہماری مسلسل 7سالہ جدوجہد کے ثمر کا دن ہے گویا تشکر بجا لا نے کادن ہے اور دوسرا یہ دن ہمارے لئے خوشی کا دن ہے اورہمارے لئے یہ خوشی منا نے اور احسا س آزادی کو زندہ کر نے کا دن ہے تیسرا یہ دن تجدید عہد اور اپنے بنیادی نصب والعین کو دوہرانے کا دن ہے اور سب سے بڑھ کر یہ دن ہمار ے لئے احتساب کا دن ہے بحیثیت فرد اور قوم اپنے اعمال کا احتساب کر نا ہم سب کے لئے بہتر زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہے اور اس دن ہم یہ کر سکتے ہیں اور اپنے اعمال کا احتساب کر تے ہو ئے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ کیا ہمارا فردا فردااور قومی سفر شاہراہ زندگی پر اپنی متعین منزل کی طرف ٹھیک ٹھا ک طریقے سے جاری و ساری ہے یا نہیں ۔ اور اس میں کیا بہتری کے لئے تجاویز ہیں اور آ ج14 اگست 2011ء میں جشن آ زادی منا تے ہو ئے ہمارے لئے سب سے زیادہ اہمیت اسی نکتہ کی ہے یعنی قومی احتساب کی ضرورت ہے ۔ایک نوجوان سے لے کر ایک عمر رسیدہ بزرگ تک، ایک چوکیدا ر سے لے کر آفسر مجاز تک، ایک کارکن سے لے کر ایک سیاسی لیڈر تک، قوم کے ہر طبقہ اور شعبہ زندگی کے ہر فرد کو اپنا احتساب ایک قومی سوچ کے ساتھ کر نے کی ضرورت ہے اگر قوم 2011ء کا جشن آ زادی اس عزم اور جشن کے ساتھ منا تی ہے کہ ہم اپنا احتساب خو د کیا کر یں گے اور اپنی اصلا ح کر یں گے تو شاید آ نے والے سا لوں میں کسی احتساب بیوروکہ ضرورت نہیں رہے گی اس کے ساتھ ساتھ جن پہلوؤں پر زیادہ غور کر نے کی ضرورت ہے میں ان کی نشا ندہی کر نا اپنا اور اپنے قلم کا اخلا قی فر ض سمجھتا ہوں جشن آ زادی کی تیاریاں کر تے ہو ئے ایسے احراف کو رواج دیا جا رہا ہے جو ہماری قومی اور معا شرتی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتے ہمیں اس سے پرہیز کر تے ہو ئے کفا یت شعاری اور خو شی منا نے کے ما بین ایک مطا بقت اور ہم آہنگی پیدا کر نے کی ضرورت ہے ہم جا نتے ہیں کہ ہماری قوم بین الاقوامی قرضوں کے دباؤ تلے کچلی جا رہی ہے اگر ہم اس دن کو ان قر ضوں سے نجات کے لئے ایک عزم کے طور پر استعما ل کریں تو شاید ہماری خوشی حقیقی خوشی کا روپ دھار لے گی ورنہ ہماری قوم کی مثال اس بھٹہ مزدور کی سی ہو گی جو اپنے بچوں کی شادی و بیاہ کی وقتی خوشی کے لئے ان کی زندگی بھر کی خو شیاں ’’گروی‘‘رکھ کر انھیں قرضوں کے بو جھ تلے دبا دیتا ہے اور وہ زندگی بھر اس سے چھٹکارہ نہیں پا سکتے ہمارا دوسرا اہم کام اپنے قومی شعار اور علامات کی عزت و تعظیم کا خیال رکھنا ہو نا چاہیئے اگست کے مہینے میں بنائی اور بیچی جا نی والی اشیاء 14 اگست کے بعد یوں بے وقعت و بے تو قیر ہو جا تی ہیں گویا وہ کسی ایسی قوم کی علامات ہوں جس کے آ ثار کسی کھنڈر سے ملے ہوں اس کی مثال آ رائشی جھنڈیاں جو قومی پرچم کی شکل میں ہو تی ہیں اور اس پر بعض اوقات علامہ اقبال، قائد اعظم کی تصاویر بھی بنی ہو تی ہیں کی بے حرمتی ہو تی ہے جتنے شوق اور محبت سے یہ 13اور 14 اگست کو آویزاں کی جا تی ہیں اس سے کہیں زیادہ بے دردی اور بے حسی سے یہ 15 اگست سے گلی کوچوں، نکاسی آ ب کی نالیوں، اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں پر ملتی ہیں اور انہی جگہوں پر پا ؤں سے روندی جا تی ہیں جو کسی بھی طرح سے ایک احسا س مند اور زندہ قوم کا وطیرہ نہیں اس کے ساتھ ساتھ قومی لیڈروں پر بھی فرض ہے کہ قوم کی راہنما ئی صرف سیاسی جلسوں میں مخا لفین کے خلاف سیاسی نعروں تک محدود نہ رکھیں بلکہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر قوم کی راہنما ئی کریں جن کے ملنے سے قوم کو ایک بڑا نصب و العین یاد رہ سکے اور قومی لیڈر14 اگست کی تقا ریر میں قائد اعظم کا پاکستان کے نعرے لگا تے ہیں لیکن قوم کو پکار کر اس کی اور اپنی خامیوں کی نشاندھی نہیں کر تے اور نہ ہی ان خا میوں کو دور کر نے کے لئے ان کی راہنما ئی کر تے ہیں کوئی سیا سی لیڈر 14 اگست کی تقریروں میں ملک کے مسائل کو اجا گر کر کے راہنمائی کر تا دیکھا ئی نہیں دیتا اس کے ساتھ ساتھ ہم سب پر ملکی قرض ہے کہ اپنے ملک میں جاری دہشت گردی اور لوٹ مار کے بازاروں کے خلا ف یکجہ ہوکر ملک کو ان عذابوں سے نجات دلا ئیں اور اپنے ملک کو دہشت گردی سے بچا نے کے لئے اپنی آ نکھیں کھلی رکھیں اور قانون نا فذ کر نے والے اداروں کا بھرپور سا تھ دیں اور ان کے شا نہ بشا نہ کام کر یں ان کا سا تھ دیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ سب سے عجیب و دکھ بری بات ہمارے نوجوانوں کا اپنے قومی تہواروں پر غیر منا سب ،غیر منظم اور غیر ذمہ دار رویہ ہے یہی نہیں بلکہ قا ئد اعظم نے کبھی بھی ان نوجوانوں سے ایسے رویے کی امید نہیں رکھی تھی جو قومی تہواوں پر آ ج کل اختیار کیا جا رہا ہے خوشی منا نے کا غیر ذمہ دارانہ انداز روز بروز زور پکڑتا جا رہا ہے اور نہ تو حکومت اور نہ کو ئی سیا سی راہنما اور نہ ہی قوم کے بزرگ یعنی والدین نوجوانوں کو اس سے پر ہیز کر نے کی تلقین کر تے ہیں قومی شا ہراہوں پر نوجوان ٹولیوں کی شکل میں موٹرسا ئیکلوں پر ویلنگ کر تے نظر آ تے ہیں اور گاڑیوں کی چھتوں پر بھنگڑے ڈالتے اکثر میڈیا پر دکھا ئے جا تے ہیں جس سے با صرف ہر سال قیمتی جا نیں ضا ئع ہو تی ہیں بلکہ ہمارے منظم و مہذب قوم ہو نے پر بھی سوالیہ نشان لگ جا تا ہے اور ہم یہ سب کچھ ایک ایسے قومی تہوار کو منا نے کی آ ڑ میں کر رہے ہیں جو ہم سے قا ئد اعظم کے بقول نظم باہمی کا شیدید مطالبہ کر تا ہے لیکن ہمیں اس کی کو ئی پروا نہیں دعا ہے کہ 14 اگست 2011ء ہماری قوم کو ’’ایمان، اتحاد، اور نظم ‘‘ کا صحیح مطلب سمجھنے اور اس پر آ ئندہ سالوں میں عمل پیرا ہو نے کی تو فیق بخشے اور اللہ پاک پاکستان کو ہمیشہ سلا مت رکھیں (آمین)پاکستا ن زندہ آ باد***