” سیاستدان،حکمران اور عدلیہ ہوش کے ناخن لیں “
ہارون عدیم
گزشتہ روز سابق صدارتی امیدوار جسٹس(ر)وجیہہ الدین نے چکوال پریس کلب میںکراچی سے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے ”کہ اب عدیہ کو اپنے احکامات کی بجا آوری اور بالا دستی کو منوانے کے لئے دو چار بڑے مگر مچھوں کی گردنیں کاٹنا پڑیں گی،اور جس طرح مکھی کو مارنے کے لئے توپ کے گولے کی ضرورت نہیں اسی طرح عدلیہ کو اپنے احکامات منوانے کے لئے فوج کو بلانے کی بھی ضرورت نہیں۔ان قانون شکنوں کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی بلا تفریق کر دی جائے تویقینا آئین اور قانوناور عدالت اعظمٰی کے احکامات پر عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔“
جناب وجیہہ الدین احمد کے اس بیان سے ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ افواج پاکستان نے اپوزیشن قوتوں کی غیر جمہوری طریقے سے حکومت کے خاتمے کی بات ماننے سے ابھی تک انکار کی پالیسی کو سختی سے قائم رکھا ہوا ہے،اور اب تمام اپوزیشن جماعتیں ایک ”جوڈیشل تبدیلی“ جسے ان حلقوں کی جانب سے ”عدالتی انقلاب“ کہا جا رہا ہے اس کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ایک بار پھر حکومت کے جانے کی تاریخیں دی جا رہی ہیں،اب ان قوتوں کا مطالبہ یہ ہے کہ عدلیہ پہلے تو تمام ضمنی انتخابات کو جعلی ووٹر لسٹوں کی بنیاد پر کالعدم قرار دے دے،دوسری جانب ن لیگ قومی اسمبلی اور پنجاب حکومت سے مستعفی ہو جائے،جس کا عندیہ پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف یہ کہہ کر دے چکے ہیں کہ ”وہ جمہوریت کی بقاءکی خاطر پنجاب حکومت کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔(گویا ن لیگ کے سربراہان کے نزدیک جمہوریت سے مراد صرف اور صرف ان کا اقتدار ہے)اور جب ن لیگ ایسا کر دے گی تو عدالت کے ذریعے ایک عبوری نگران حکومت بنوائی جائے گی اور عدلیہ نئے انتخابات کا فیصلہ صادر کر دے گی۔
ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی اور جناب عشرت العباد کی جانب سے گورنری سے مستعفی ہونے کے بعد ایسے مباحث میں اضافہ ہو گیا تھا، میاں نواز شریف نے فوراً گرینڈ اپوزیشن بنانے کا اعلان کر دیا تھا،اور اس کے لئے انہوں نے اپنی بانہیں کھول دی تھیں،پھر دونوں جماعتوں میں کچھ عہدو پیمان بھی ہوئے مگر بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔اور اچانک جناب عشرت العباد نے اپنے منصب کی ذمہ داریوں کو دوبارہ سنبھال لیا،اور پی پی پی اور ایم کیو ایم کا اتحاد پھر سے ہو گیا۔لہٰذا اب اگر ن لیگ پنجاب حکومت توڑنے کی سفارش بھی کرتی ہے ،اور قومی اسمبلی سے مستعفی بھی ہوتی ہے تو اس سے ملک اور قومی سطح پر ایسے اثرات کے مرتب ہونے کے امکانات نہیں بن سکتے جن کی بنیاد پر عدلیہ حکومت کو درمیانی مدت کے انتخابات منعقد کروانے کا کہے۔جبکہ ن لیگ مارچ 2012 سے پہلے ہر صورت میں درمیانی مدت کے انتخابات چاہتی ہے اور وہ صرف اور صرف سینٹ میں پی پی پی کو برتری حاصل کرنے سے روکنے کے لئے۔خواندگان اکرام کو یاد ہو گا کہ ن لیگ نے نومبر2008 میں بڑی شدو مد سے مڈ ٹرم انتخابات کا مطالبہ شروع کر دیا تھا،صرف اس لئے کہ پی پی پی 2009 میں سینٹ کے انتخابات میں برتری نہ لے جائے،اب بھی یہی ہو رہا ہے ،ہم حوس اقتدار کو جمہوریت کا نام دیتے ہیں،اور اس کے لئے غیر جمہوری عمل کو بھی جائز قرار دے لیتے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم یہ کیوں چاہتے ہیں کہ عدلیہ اس حکومت کو رخصت کرے اور عدلیہ اور حکومت میں تصادم ہر صورت میں ہو۔پہلے انہی سیاستدانوں نے فوج کو سیاست میں گھسیٹا، اب عدلیہ کو سیاست میں ملوث کر دیا گیا ہے،اب عوام کہتے ہیں کہ ہمیں آزاد نہیں ایک غیر جانبدار عدلیہ درکار ہے۔
ظفر قریشی کے معاملے میں عدلیہ کا روّیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اب یہ عدلیہ کی انّا کا مسئلہ بن چکا ہے۔عدالت اعظمٰی کی جانب سے ایسا عندیہ بھی آیا تھا کہ وہ ایک کمیشن قائم کرنے کو تیار ہے جو کہ محکمانہ کاروائی کا جائزہ لے جو کہ ایک مستحسن اقدام ہو گا،چیف جسٹس آف پاکستان کو چیف ایگزیکٹیو بننے سے اجتناب برتنا چاہئے۔اسی طرح حکومت کو بھی عدلیہ سے تصادم سے ہر صورت میں بچنا چاہئے،ہم پہلے بھی ایک سے زائد مرتبہ یہ گزارش کر چکے ہیں کہ” عدلیہ اور انتطامیہ کی جنگ میں جیت ہمیشہ انتطامیہ کی ہوئی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ جمہو ری ممالک میںانتظامےہ اور عد لےہ کے مابےن تصا دم مےںہمےشہ عدلیہ کو ہی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
٭فرانس مےں۹۵۹۱ مےںجب صدر ڈےگال نے دےگر اصلاحات کی طرح عدلےہ مےںبھی اصلاحات متعا رف کر وانا چا ہیں تو اس کو شدےد عدالتی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔عدلےہ کے کئی جج اس کے خلاف ہو گئے۔ڈےگال نے ۳۱ ججوںکو بر طرف کر دےا اور اپنی اصلاحات جاری کر دیں۔آج تک فرانس مےںجو عدالتی نظام چل رہا ہے وہ انہیںاصلاحات پر مبنی ہے۔
٭سپےن کی حکومت (انتظامےہ)نے جب علیحد ےگی پسند تنظےم ای ٹی اے پر 1970 مےں پابندی لگائی اور اس کے ہزاروںکارکنوںکو گر فتار کےا تو عدلےہ نے ان کار کنوں کو رہا کر کے انتظامی فےصلے کو چےلنج کر دےا اس کے جواب مےں انتظا مےہ نے 8 ججوںکو بر طرف کر دےا۔ اور رہا ہو نے والے کارکنوں کو اےک مرتبہ پھر گر فتار کر لےا گےا۔
٭بھارت مےں الہ آباد ہائی کورٹ نے1975 میں اےک فےصلہ میں اندرا گا ندھی کے انتخابات کو متنازعہ اور ان کے خلاف کر پشن کے الزامات کو درست قرار دے دےا ۔اندراگا ندھی نے اسی وقت پورے ملک مےں اےمر جنسی کا نفاذ کر کے متلعلقہ تما م ججوںکو بر طر ف کر دےا اور وہ وزےر اعظم بر قرار رہےں۔
´٭جار ج بش جب 2000مےں صدر بنے تو اس نے اپنے قدامت پسند منشور کے نفاذ کےلئے امرےکی سپرےم کورٹ مےںکئی قدامت پسند ججوںکو تعینا ت کر نا شروع کر دےا اس سے امرےکی عدلیہ مےں شدےد بے چےنی پےدا ہو نے لگی۔حتٰی کہ سپرےم کورٹ نے اپنے اےک فےصلے میں بش کی تعینا ت کر دہ روز وےلن نا می جج کی تعیناتی کو ختم کر دےا۔مگر امرےکی انتظامیہ نے اس کے4ماہ بعد اسی جج کو اےک مرتبہ پھر تعینا ت کر دیا اور امریکی عدلیہ کچھ نہ کر سکی۔
٭ملائےشا مےں جب 1998مےں صدر مہا تےر محمد نے ڈاکٹر انوار ابراہےم کے خلاف کرپشن اور بد چلنی کے الزامات لگا کر ان کو قےد کر دیا تو 4 ججوں نے ان کو رہا کر کے اس انتظامی فےصلے کو چیلنج کیا۔مگر اس فیصلے کے چند روز بعد ان 4 ججوں کو بر طرف کر کے اےک مر تبہ پھر انوار ابراہےم کو گر فتار کر لیا گیا۔
جو بات ہم کہنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ جمہوری ممالک مےں جب بھی انتظامےہ اور عد لیہ کے ما بےن آپسی تنا زعات نے جنم لیا تو حتمی جےت انتظامےہ کی ہی ہوئی ۔جہا ں تک اےسی رےا ستوں کا تعلق ہے کہ جہاں پر ملوکیت ،شاہی نظام حکو مت،شخصی آمر یتوں (جےسے عرب ممالک،افرےقی ممالک،چےن اور روس )قائم ہیں تو ان ممالک مےں عد لےہ کلی طور پر اپنے ادارہ کے وجود اوربقاءکےلئے انتظا مےہ کی ہی طفیلی ہو تی ہے ،اس کا اپنا الگ تشخص ہی نہےں ہوتا۔لہٰذا نہایت احترام سے گزارش ہے کہ حکومت اور عدلیہ دونوں کو ہی اپنے جارحانہ روّیوں کو بدلنا پڑے گا۔عدالتی احکامات در اصل وہی صورتحال پیدا کر رہے ہیں جس میں جنرل مشرف نے یہ کہہ کر ایمرجنسی لگائی تھی کہ وہ دہشت گردوں کو پکڑتے تھے اور عدالتیں ان کو ضمانتوں پر چھوڑ دیتی تھیں ،وہ افسر جنہوں نے قانون نافذ کرنا ہوتا تھا ان کو عدالتوں میں بلا کر بے عزت کیا جاتا تھا اور کام نہیں کرنے دیا جاتا تھا ۔کیا ایسا تو نہیں کہ عدالتیں پھر ویسی ہی صورتحال پیدا کر کے حکومت وقت سے ویسی ہی غلطی کا ارتکاب کروانا چاہتی ہیں،جس کو بنیاد بنا کر ان کو گھر بھیجا جا سکے۔۔۔؟ لہٰذا حکومت کو بھی سوچ سمجھ کر فیصلے کرنا ہونگے جن سے جمہوریت کو کوئی گزند نہ پہنچے اور عدلیہ کا احترام بھی برقرار رہے۔ مگر یہ احترام بچانا اور کروانا خودعدلیہ کی ذمہ داری بھی ہے۔“ ´