۔۔۔انمو ل مو تی۔۔۔
۔۔۔انمو ل مو تی۔۔۔
حجاز کے بے آب و گیاہ صحرا میںتپتی ریت پر مکہ کے چند نوجوان ایک غلام کے گلے میں رسی ڈال کر اسے گھسیٹنے کا عمل دھرا رہے ہیں محض اس جرم کی بنا پر کہ وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ ایک ہے اور حضرت محمد ﷺ اسکے سچے رسول ہیں۔ جیسے جیسے اسکی آوازِ شہا دت بلند سے بلند تر ہو تی جا تی ہے سردارانِ قریش کا غم و غصہ شدید سے شدید تر ہو تا جاتا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ سردارانِ قریش کا سارا ظلم و ستم، جبر و تشدد اور جا ہ و جلال ا سے شہادت دینے سے با ز نہیں رکھ سکتا بلکہ جب کبھی ظلم و جبر سہتے سہتے وہ بے ہوش ہو جا تا ہے تو اسکی انگشتِ شہا دت اسکے حقیقی جذبو ں کی علا مت بن کر اسکے جذبو ں کی ترجمانی کا حق ادا کر تی اور ا نھیں صداقت کا جامہ پہنا کر ابدیت سے ہمکنار کر دیتی ہے۔ سردارانِ قریش اسے ۱ ذیت دیتے ہیں تو وہ اسے عشق کی سوغات سمجھ کر قبول کرتا ہے وہ اسے ریت پر گھسیٹتے ہیں تو وہ اسے رفعتِ عشق کی علا مت تصور کرتا ہے وہ اسکے سینے پر پتھر ر کھتے ہیں تو وہ اسے اپنے عشق کی حقا نیت کا تحفہ سمجھ کر قبول کرتا ہے اسکی خوا ہش ہے کہ قریش اس پر ظلم ڈھا تے جا ئیں وہ ان مظالم کو سہتا چلا جا ئے عشق کو نئے افق عطا کرتا جا ئے اور اپنے محبوب کی نگا ہوں میں سرخرو ہو تا چلا جا ئے۔ نہ قریش اپنے ظلم سے ہاتھ روکتے ہیں اور نہ یہ شہادت دینے سے باز نہیں آتا ہے حق اور سچ کی یہ جنگ جا ری رہتی ہے تا آنکہ ظلم ہار جاتا ہے او ر عشق فتح یاب ہو جا تا ہے جھوٹ کا مقدر شکست اور رات کا مقدر مٹ جا نا ہی ہوا کرتا ہے۔ یوں وہ روئے زمین پر عشق کی تکبیر کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا نقیب بن کر ابھرتا ہے اور دنیا اسے سید نا بلال کے نام سے یاد کرتی ہے۔
سید نا بلال کا عشق جب ساری آزما ئشوں اور کٹھا لیوں سے گزر کر اپنی انتہا ﺅ ں کو چھونے لگتاہے تو سرکارِ دو عالم ﷺ اسے موذنِ ِ رسول کے عظیم تر ین منصب سے سرفراز فرما کر عشقِ بلال کو ایسی رفعت عطا فرما دیتے ہیں جس تک پہنچنا کسی بھی انسان کےلئے ممکن نہیں ہے شاعرِ مشرق نے عشقِ بلال کی اس کیفیت کو اذان اور نماز کے تمثیلی انداز میں جس خو بصور تی سے بیان فرما یا ہے وہ انہی کا کمال ہو سکتا ہے لوگ نماز اور اذان کو کیا سمجھتے ہیں اس سے ہم سب بخو بی آگا ہ ہیں لیکن ایک عاشق اذان اور نماز کو کس رنگ میں دیکھتا ہے اقبال کی زبان سے سنئے اور وجد میں آجا ئیے۔
اذان ازل سے تیرے عشق کاترانہ بنی۔۔۔نمازا’ س کے نظا رے کا ک بہا نہ بنی
وقت کا پہیہ آگے بڑھتا ہے اور آخر کار وہ لمحہ آ ٓجا تا ہے جب سرکارِ دو عالم اس جہانِ فا نی سے رخصت ہو جا تے ہیں موذنِ ِ رسول پر عجیب کیفیت طاری ہو جا تی ہے جس شہر میں روز اپنے محبوب کے دیدار سے فیض یاب ہوا کرتے تھے وصالِ رسول ﷺ کے بعد اس شہر میں اب کو ئی کشش با قی نہیں رہتی لہذا اسے چھوڑ کر کسی دوردراز علاقے میں سکونت اختیار کر لیتے ہیں ایک وقت تھا کہ مد ینہ ة ا لنبی ان کےلئے مقصودِ زندگی تھا حاصلِ زندگی تھا اور دنیا بھر میں سب سے زیا دہ عزیز تھا اب وہی شہر ان کےلئے سوہا نِ روح بن جا تا ہے لہذا اسے چھوڑ د ینا ضروری قرار پا تا ہے ۔ محبوب کی گلیاں چونکہ عاشق کی محبت کی شاہد اور امین ہو تی ہیں لہذا ان گلیوں سے عاشق کےلئے تنہا گزر جا نا نا ممکن ہو تا ہے کیونکہ ان گلیوں سے چمٹی محبت اسے ہر نکر سے صدا ئیں دیتی ہیں لیکن وہ اکیلا ان صد ا ﺅں کا جواب دینے کی تاب نہیں رکھتا لہذا ان گلیوں سے دامن بچا کر کسی ایسی نگری میں پناہ لے لیتا ہے جہاں اس نگری کی گلیاں اسے ا یسی صدا ئیں دینے سے قاصر ہوتی ہیںجو اسکے دلِ بے چین میں طو فان برپا کر دیتی ہیں اور یہی سب کچھ سیدنا بلال کے ساتھ بھی ہوا تھا انھوں نے مد ینہ ة النبی کی گلیوں کو خیر باد کہہ دیا تھا تا کہ محبوب کی یا دوں سے چھٹکا را مل جا ئے ۔جب محبوب عا شق کی نگا ہو ں کے سا منے اس جہانِ فا نی سے رخصت ہو جا ئے تو عاشق کےلئے دنیا اندھیر ہو جا تی ہے اس کےلئے جینا محال ہو جا تا ہے اور جدائی کے صدموں کو بر داشت کرنا نا ممکن ۔ محبوب کے بچھڑ جا نے سے ا نسا ن بظا ہر زندہ تو ہو تا ہے لیکن اس کے جسم میں روح نہیں ہوتی اسکی ساری امنگیں اور آر زﺅ یں محبوب کی رخصتی کے ساتھ ہی دم توڑ جا تی ہیں وہ ایک ایسی موج کی مانند ہو تا ہے جو کبھی شر مندہ ساحل نہیں ہو تی اور یہا ں پر تو معاملہ محبوبِ خدا سے عشق و محبت کا تھا جسکی گہرا ئی اور گیرائی کا اندازہ کرنا ہماری بساط سے با ہر ہے۔
وقت کا پہیہ اور آگے بڑ ھتا ہے اور ایک ایسا لمحہ آجا تا ہے جب عاشقانِ رسول ﷺ کی بیتابیاں اپنی انتہا ﺅں کو چھو نے لگتی ہیں وہ سب کے سب محبوبِ خدا کے ساتھ گزارے ہو ئے وقت اور منظر کو دیکھنے کے متمنی ہو تے ہیں لہذا مﺅذنِ رسول کی تلاش میں نکل پڑتے یں تا کہ انکی اذان سے سرکارِ دوعالم ﷺ کی پا کیزہ محفلوں کی یاد تازہ ہو جا ے اور وہ سارے کا سارا منظر نگا ہوں میں پھر تازہ ہو جائے جب اذان کے بعد سرکارِ دو عالم صفیں سیدھی کرنے کا حکم صادر فرما یا کرتے تھے کوششِ بسیار کے بعد مﺅذنِ رسول اذان دینے پر رضا مند ہو جاتے ہیں لیکن جب اشھد’ انَ محمد رسو ل اللہ پر پہنچتے ہیں اور نورِ مجسم کو اپنے سامنے موجود نہیں دیکھتے تو بے ہوش ہو کر گر پڑتے ہیں۔ وہ نورِ مجسم جنکی گو اہی دینا انکا مقصودِ زندگی تھا اور جس کےلئے انھوں نے ہرقسم کے ظلم و جبر کو برداشت کیا تھا آج وہ نورِ مجسم سامنے نہیں تھا توسیدنا بلال کےلئے اذ ان بے معنی تھی۔ سرکار کی محبت بلال کے ایمان پر سبقت لے گئی اور انکے ہوش و حواس پر غالب آ گئی تبھی تووہ تصو رِ محبوب میں ہر حد سے گزر گئے اور عشق و محبت کی ایسی دنیا تخلیق کر گئے جو عاشقوں کا مان بھی ہے فخر بھی ہے۔
چشمِ تصور سے دیکھئے کہ وہ شحص جو سردارانِ قریش کے ظلم جبر کے سامنے کوہِ گر اں بن جا یا کرتا تھا۔ انکے غیض و غضب کو برداشت کیا کرتا تھا۔ انکی بے رحم سزا ﺅ ں کو اپنے سینے پر جھیلتا تھا۔سردارانِ قریش کی ساری قوت و حشمت، طاقت، سارا جا ہ وجلال اور تشدد اسے اشھد’ انَ محمد رسو ل اللہ کہنے سے روک نہیں سکا تھا لیکن آج وہی شخص وہ الفاظ جو اسکی پہچان تھے اس کےلئے حاصلِ زندگی تھے اسکی عظمت کی علامت تھے اسکی روح کی پکار تھے، اسکے مقام و مرتبہ کی بنیاد تھے ، اسکے عشق کا حاصل تھے اور اسکی ساری کائنات تھے ادا کر نے سے قا صر ہو جاتاہے اسکے لب خاموش ہو جاتے ہیں مگر وہ پیکرِ عشق و وفا بنکر عشق کی نئی دنیا ئیں تخلیق کرتا ہے اورانسانیت کو عشق کی ایسی کیفیات سے روشناس کرواتا ہے جس سے دنیا ابھی تک نا آشنا تھی ۔ اس کا سکو تِ لب عشق کی ایسی ان کہی داستان ہے جس میں عاشقوں کی جان اٹکی ہو ئی ہے۔
کو ئی ہے جو اس کیفیت کو کو ئی نام دے سکے اور اسکی روح تک پہنچ سکے اور یہ بتاسکے کہ وہ کونسی قوت ہے جو ا یک سچے عاشق سے اظہار کی قوت کو سلب کر لیتی ہے یقین کیجئے کہ اس کی صحیح توضیح پیش کرنا کسی بھی انسان کے بس میں نہیں ہے کہ ایساکیوں ہو تا ہے البتہ میر ی نگا ہو ں میں تخلیقِ آدم کا وہ منظر گھوم رہاہے جب فرشتوں نے اپنے تخفظات کا اظہار کیاتھا تو خالقِ ارض و سماءنے فرشتوں کو یہ کہہ کر خاموش کر دیاتھا کہ جو کچھ میں جا نتا ہوں تم نہیں جا نتے اور مﺅذنِ رسول کے عشق کا یہ لازوال مظاہرہ خدا کے اسی فرمان کی منہ بو لتی تصویر تھی اور پھر یہ بات صرف فرشتوں تک ہی محدود نہیں بلکہ اس دھرتی پر کسی بھی انسان کےلئے ممکن نہیں ہے کہ وہ یہ بتا سکے کہ خاک کا یہ پتلا کن خصوصیات کا حامل ہے اور زندگی کی پر پیچ اورخطر ناک راہوں پر اپنے عشق کے کیسے کیسے نقوش ثبت کر کے انسانیت کو ورطہِ حیرت میں گم کرتا رہےگا۔
حضرت بلال کے عشق ِ لا زوال کی انمٹ کیفیتوں میں رچی بسی ہوائے عشق بے آب و گیاہ صحرا سے نکل کر پورے عالم میںپھیل جا تی ہے۔ کبھی یہ یمن کی ہوا ﺅ ں کو معطر کرتی ہے،کبھی منصور حلاج کی شکل میں انا الحق کا نعرہ بلند کرتی ہے، کبھی سلطان با ہو کی ہو کا روپ اختیار کر لیتی ہے،کبھی مو لا نا روم کی مثنوی میں ظہورپذ یر ہو تی ہے، کبھی دما دم مست قلندر کی صدائیں بلند کرتی ہے،کبھی بابا بلھے شاہ کے روپ میں جلوہ گر ہو تی ہے، کبھی سچل سر مست کی مستی کو بے نقاب کرتی ہے،کبھی شاہ لطیف بھٹائی کے کلام میں اپنی نمود کا احساس اجا گر کرتی ہے، کبھی سرمد شہید کے پیکر میں نمو دار ہو تی ہے، کبھی بابا غلام فرید کی کافیوں میں ڈھل جاتی ہے ، کبھی داتا گنج بخش کی کشف المحجوب کی محجو بیت کو فاش کرتی ہے کبھی قیومِ زمان کے تصوف سے رعنائی پاتی ہے اور کبھی علامہ اقبال کے اندر سرائیت کر کے اس کی شاعری کو غیر فا نی بنا دیتی ہے۔
ازل سے تھی یہ کشمکش میں اسیر۔۔۔ہو ئی خاکِ آدم میں صورےت پذیر
سبک اسکے ہا تھو ں میں سنگِ گراں۔پہاڑ اسکی ضربوں سے ریگِ رواں
۸۲ اکتوبر ۸۰۰۲ کو میاں منیر ہا نس نے شیریٹن ہو ٹل دہئی میں ایک خوبصورت شام بیادِ بے نظیر بھٹو شہید کا اہتمام کیا تھا اور اس محفل میں میری نظر سے ایک ایسا منظر گز را جس نے مجھے قلم اٹھا نے پر مجبور کر دیاَ۔ اس شام سٹیج پر دو عاشق پہلو بہ پہلو بیٹھے ہو ئے تھے اور دل ہی دل میں اپنے اپنے عشق پر فخرو ناز کر رہے تھے ان میں سے ایک عاشق نے اپنی روا ئتی للکار سے داستانِ عشق کے بہت سے اوراق کی نقاب کشا ئی کی اور ہال میں بیٹھے ہو ئے افراد کی محبت کو اپنے دامن میں سمیٹا لیکن جب دوسرے عاشق (سفیرِ پاکستان خور شیدا حمد جو نیجو )کو دعوتِ خطاب دی گئی تو بی بی کی محبت اسکے دل و دماغ پر غا لب آ گئی، اسے اپنی گرفت میں لے لیا، اسے ایسے جکڑ لیا کہ وہ قوتِ اظہار سے محروم ہو گیا بالکل ویسے ہی جیسے سیدنا بلال بوقتِ اذان نورِ مجسم سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفے ر ﷺ کو اپنے سامنے نہ دیکھ کر قوتِ گو یا ئی سے محروم ہو گئے تھے ۔
عاشق(خور شید احمد جو نیجو )اپنے چند آنسو و ں کا نذرانہ پیش کر کے اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔ اسکے یہ چند آنسو اسکے عشق کے سب سے بڑے گواہ ٹھہرے اور داستانِ عشق کو ان آنسو و ں نے جو تکلم عطا کیا وہ بیان سے باہر ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اس دن جیت انہی آنسو و ں کا مقدر بنی۔ ہال میں بیٹھے ہو ئے بہت سے افراد کی طرح میری حا لت بھی عجیب و غریب تھی اسکے عشق کو داد بھی دے رہا تھا، اس پر فخر بھی کر رہا تھا اور اس پر مان بھی کر رہا تھا۔عشق اس کا تھا لیکن فخر سے سینہ میرا پھول رہا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ جب کبھی بھی محبت آفا قی روپ اختیار کر لیتی ہے تو لوگ ایسے ہی فخر و ناز کی کیفیت سے دوچار ہوا کرتے ہیں ۔ سچی بے لوث اور ریا سے پاک محبت ہمیشہ سے انسا نیت کا فخرو ناز رہی ہے لہذا محبت کے اس انو کھے اظہار پر میرا اسیرِ وفا ہونا ،بےتاب ہونا ، فخر و ناز کرنا ، داد دینا اور وجد میں آنا فطری تھا۔
چشمِ تصور سے دیکھئے کہ ایک ایسا شخص جو جنرل ضیا ا لحق کی بے رحم آمریت کے سامنے سیسہ پلا ئی ہو ئی دیوار بن گیا تھا ، قید و بند کی صعوبتوں سے گزرا تھا موت کو قریب سے دیکھا تھا لیکن پھر بھی وحشیانہ مارشل لاءکے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا تھا۔ جس نے موت و حیات کے فلسفے میں اپنی وفاﺅں سے رنگ بھر کر اس کو نئے افق عطا کئے تھے۔ جس نے اپنے لہو کی سر خی سے جمہو ریت کے پودے کو سینچا تھا ۔جو اپنی بسالتوں سے جئے بٹھو کے فلک شگاف نعروں سے ہزاروں دلوں کو جرا ئتیں عطا کرتا رہا۔جب تک سورج چاند رہے گا۔۔ بھٹو تیرا نام رہے گا۔۔ کے تاریخ ساز نعرے سے آمریت کو للکارتا رہا۔ کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے۔۔ کے جرا ت ا نگیز نعرے سے اپنے عشق کا اظہار کرتا رہا جو۔ چاروں صوبو ں کی زنجیر۔۔ بے نظیر بے نظیر۔۔ کی گواہی سے وفا ﺅں کی نئی تاریخ رقم کرتا رہا اور جو سرِ دار بھی یہ پکاراتا رہاکہ
یہ با زی عشق کی بازی ہے۔ یہ بازی تم ہی ہارو گے
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا۔۔۔۔تم کتنے بھٹو ما رو گے
لیکن جب عشق کے منہ زور جذبو ں کے اظہار کا وقت آیا تو اپنے چند آنسو و ںکی سوغات سے عاشقوں کے دامن کو بھر نے کے علاوہ اسکے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ اسکی سچی محبت آنسوو ں کا روپ اختیار کر چکی تھی۔ اسکے بہتے آنسو و ں نے اسکی بے لوث محبت کی سچا ئی کو بے نقاب کر دیا تھا اسکے آنسو و ں نے وہ ساری داستان کہہ ڈالی جسے الفاظ بیان کرنے سے قاصر تھے وہ اپنا درد چھپا نا چاہتا تھا لیکن آنسو ﺅ ں نے اسکی ساری محبت کو طشت از بام کر کے رکھ دیا اپنے جس عشق کی حقا نیت کےلئے وہ ساری حیاتی بر سرِ پیکار رہا اس عشق کی سر گزشت سنا نے کی باری آئی تو اس نے ایک ایسا انداز اپنا یا جو دلکش بھی تھا اثر انگیز بھی تھا۔ آ نسو ،آنسو اور چند آنسواور د نیا کی کو ئی تحریر آنسووں سے لکھی گئی اس تحریر کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور ( سفیرِ پا کستان خور شیدا حمد جو نیجو ) نے اسی راہ کا انتخاب کیا اور آنسو وں کو موتیوں میں بدل کر سبکو اپنا ہمنوا اور گرویدہ بنا لیا۔
یہ آنسو موتی کیسے بنتے ہیں انکا جذبہِ محرکہ کیا ہو تاہے ان میں جلا کہاں سے آتی ہے اور وہ کیا چیز ہے جو انسان کے اندر اس تڑپ کو رکھ دیتی ہے جو آنسو ﺅ ں کو موتی بنا نے کا فریضہ سر انجام دیتی ہے اور پھر اس آدمِِ خا کی کےلئے ایسی مسند تراشتی ہے جسکے سامنے فرشتے بھی سر بسجود ہو جا تے ہیں۔ دورِ جدید کا سب سے بڑا عا شق علامہ اقبال آنسو ﺅں سے موتی بننے کے عمل کی بنیادیں عشق کی مستی سے اٹھاتا ہے وہ اپنے مخصوص، دلکش، پر اثر اور خوبصورت انداز میں اس کا ا ظہار کرتا ہے۔ عشق دمِ جببرا ئیل عشق دلِ مصطفے۔۔عشق خدا کا رسول عشق خدا کا کلام کہہ کر عشق کو اوجِ ثریا سے ہمکنار کر دیتا ہے۔۔
ظلم و جبر کے سامنے آنسو بہا ئیں تو۔۔بز دلی۔۔ آمریت کے سامنے آنسو بہا ئیں تو ۔۔ تذلیل ِ انسانیت۔۔آزما ئش میں آنسو بہا ئیں تو۔۔بے ہمتی۔۔ میدانِ جنگ میں آنسو بہا ئیں تو۔۔ پست حوصلگی
لیکن اگر یہی آنسو کسی کی محبت میں گرا ئے جا ئیں تو ا نھیں موتی سمجھ کر شانِ کریمی بھی چن لیا کرتی ہے اور ۸۲ اکتوبر کی شب شیریٹن ہوٹل میں میں نے ایسے ہی موتی دیکھے تھے عشق کی بحرِ بے کراں میں چنے ہو ئے بے داغ ۔۔۔شفاف۔ ۔چمکدار۔۔پاکیزہ۔۔ بے مثل۔۔ بے نظیر۔۔ اور انمول مو تی۔۔