ہم بُزدل ہیں یا دلیر؟
تحریر : عدنان شاہد
کیا آپ نے کبھی لفظ مذمت سنا یا استعمال کیا ہے ؟ اگر نہیں تو کوشش کریں کہ کچھ وقت کے لئے کوئی نیوز چینل لگا کر بیٹھ جائیں تو آپ کو یہ لفظ کئی ہزار بار سننے کو ملے گا۔ اگر آپ ہزار بارکو مبالغہ آرائی سمجھتے ہیں تو ہزار بار نہ سہی لیکن کئی بار آپ کو یہ لفظ ضرور سننے کو ملے گا۔ بلکہ یوں کہہ لیجئے یہ ہماری عادت بن گئی ہے ۔اسلام آباد میں دھماکہ ہوتا ہے تو “ہم مذمت کرتے ہیں”۔ اطلاع ملتی ہے کہ بلوچستان میں کوئی شخص اغواءہوگیا ہے تو “ہم مذمت کرتے ہیں”۔ امریکی ہمارے گھر میں ہمارے ملک میں گھس کر ڈرون حملے کرتے ہیں تو “ہم مذمت کرتے ہیں” ، اور اگر ملک کے کسی کونے میں دہشتگردی کا کوئی واقعہ رونما ہوجائے توبھی “ہم مذمت ہی کرتے ہیں”۔کیا ہم مذمت کرنے کے علاوہ کوئی اور کام بھی کرسکتے ہیں ؟۔
آپ دنیا پر ایک نگاہ ڈالیں ، کہیں پر آپ کو مذمت کی یہ مثال نظر نہیں آئے گی۔ دنیا میں صرف لفظی مذمت کا سہارا وہاں لیا جاتا ہے جہاں نقصان دوسرے کا ہو، کسی دوسرے ملک میں در اندازی ہو، کسی اور کا گھر تباہ ہو جائے ۔ لیکن جب کسی شخص یا ملک کا اپنا نقصان ہو، کیس ملک کی اپنی خود مختاری خطرے میں ہو تو صرف لفظی مذمت سے کام نہیں چلایا جاتا بلکہ ڈٹ کر مقابلہ کیا جاتا ہے اور ملکی اور شخصی ساکھ بچانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی جاتی ہے۔ وہاں کا میڈیا ہو یا ارباب اقتدار، عسکری ادارے ہوں یا عوام سب یک دل و یک جان ہو کر مقابلہ کرتے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ آپ میں سے کچھ لوگوں کو میری باتیں سخت محسوس ہوں یا پھر میری تنقید بے جا لگے۔ لیکن میرے خیال میں یہ بہترین وقت ہے کہ ہم اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں ،حالات کا سامنا کریں اور خود کوایک بہادر اور نڈر قوم ثابت کریں۔
2001ءمیں امریکہ میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا جس میں مختلف قومیتوں کے ان گنت لوگ مارے گئے جو کہ ایک بہت بڑا نقصان تھا ۔ اس واقعے کے نتیجہ میں پورا انفراسٹرکچر تباہ ہوگیا۔ پاکستان ان 91ملکوں میں سے ایک تھا جس کے باشندے اس اندوہناک حادثے میں مارے گئے ۔ حالات کا تقاضا تو یہ تھا کہ ہم اپنے مقتولین کا انصاف مانگتے اور جب تک حساب برابر نہ ہوتا چین سے نہ بیٹھتے ۔ لیکن ہم نے بجائے انصاف مانگنے کے امریکہ کی غلامی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے اپنی سرحدوں کے اندر آزادانہ نقل و حرکت کی نا صرف اجازت دی بلکہ اپنی ہوائی اڈے بھی ان کے حوالے کر دیئے۔ اس وقت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سوچ اور ذہنیت کو سمجھتے ہوئے ہمیں جو سٹریٹیجک منصوبہ بندی کرنی چاہئیے تھی ۔ بد قسمتی سے ہمارے عاقبت نا اندیش حکمرانوں نے ایسا کرنے کے بجائے ان کے تلوے چاٹنے کو ترجیح دی اور ہماری صرف دو پالیسیاں بن گئیں اول جو امریکہ کہے ہم وہ کریں ، دوم جو کچھ وہ کریں ہم ان کی مذمت کریں۔2006ءسے2011ءکے درمیان اب تک امریکہ ہماری سرحد کے اندر 220سے زائد ڈرون حملے کرچکا ہے جن میں سے صرف 10ایسے حملے تھے کہ جس میں اس نے اپنے اصل ٹارگٹس کو نشانہ بنایا ہو ۔ اور ہم ہیں کہ سوائے مذمت کے کچھ بھی نہ کر سکے !
یہ جنگ امریکہ اور افغانستان کے مابین ہے نہ کہ پاکستان کی تو ہمیں درمیان میں کودنے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ ایمانداری اور غیرجانبداری سے بتائیں کہ کیا یہ ہمارا بزدلانہ رویہ نہیں ہے ؟ہم ایک ایٹمی قوت ہیں لیکن ہم میں اتنی ہمت نہیں کہ کسی کو اپنی حدود میں در اندازی کرنے سے روک سکیں۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی یہ جنگ دہشتگردی کے خلاف ہے ؟ یا پھر طاقت کا مظاہرہ اور کسی علاقے پر قبضہ کرنے کی سازش ہے ؟دنیا بھر کا میڈیا بڑی صفائی کے ساتھ ہمار ے لیڈروں کی مکارانہ سازشوں کے پیچھے چھپے ہوئے حقائق بیان کررہا ہے ۔اور تو اور امریکی آفیشلز بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہماری حکومت نے امریکہ کو پاکستان میں ڈروں حملے کرنے باقاعدہ اجازت دی ہے اور اس کے لئے ایک خفیہ ڈیل کی گئی ہے لیکن ہمارے حکمران کسی بھی ایسی ڈیل یا معاہدے کے بارے میں صاف انکاری ہیں۔شائد ان کا خیال ہے ان کی اس نہ نہ والی پالیسی پہ لوگ اعتبار کرلیں گے لیکن وہ اپنا اعتبار خود ہی گنوا چکے ہیں اور اب عوام میں بھی شعور پیدا ہوچکا ہے۔ وہ جھوٹ اور سچ کو پرکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔جیسے ہی یہ لوگ یعنی ہمارے لیڈرز عوامی اجتماعات میں وارد ہوتے ہیں تو بڑی وطن پرستی دیکھاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شائد وہ اپنے بیانات سے عوام کو بے وقوف بنالیں گے۔لیکن یہ ان کی غلط فہمی ہے اور عوام ان کے ایجنڈے کو مسترد کرچکی ہے اور اب عوام میں اتنا شعور آچکا ہے کہ وہ ان کی ڈرامے بازیوں کو سمجھ سکتی ہے۔اور اب ان لیڈران کو بھی سمجھ لینا چاہئیے کہ اب وہ وقت گزر گیا جب لوگ ان کی چکنی چُپڑی باتوں میں آجاتے تھے۔ اب عوام بھی اسی کو مانتے ہیں جو کہ عملی طور پہ ملک کےلئے کچھ کرتا ہے۔اور عوام ایسے لیڈر ز کو پسند کرتے ہیں جو کہ گفتار کا غازی نہ ہو بلکہ کردار کا غازی ہو اور محب وطن ہو۔ امریکی ایجنڈا اور ہماری حکومت کے طرز عمل کو صرف پاکستانی میڈیا یا اینکرز ہی تنقید کا نشانہ نہیں بنارہے بلکہ پوری دنیا کا میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ان پہ لعن طعن کررہی ہیں ۔
یہ بہت حیران کُن امر ہے کہ ہم کس طرح دوسرے ملکوں کو اجازت دے رہے ہیں کہ وہ ہمارے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کریں۔ہماری اپنے لیڈروں سے یہی ڈیمانڈ ہے کہ وہ دوسرے ملکوں کی دخل اندازی کا سختی سے نوٹس لیں اور سب کے سامنے ڈٹ جائیں ۔ ہماری اپنے منتخب نمائندوں سے ڈیمانڈ ہے کہ وہ بندے کے پُتروں کی طرح ہماری نمائندگی کریں۔ کیونکہ ہم ایک جرات مند قوم ہیں ناں کہ بزدل ۔ پاکستان ہماری جان ہے ، ہماری عزت ہے اور ہم کسی بھی صورت میں اپنی عزت پہ آنچ نہیں آنے دیں گے ۔