ہمیں ایسی امداد نہیں چاہیے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہمیں ایسی امداد نہیں چاہیے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔حکمرانوں نے قوم کو بھکاری بنادیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تحریر :۔ محمد احمد ترازی
بھکاری تو بھکاری ہوتا ہے،اُس کا کام ہر ایک کے سامنے کاسہ گدائی پھیلانا اور صدا لگانا ہے ”دے جا سخیا ….دے جا….اللہ کے نام پر….اللہ تیری مراد پوری کرے۔“بھکاری ہر ایک کے سامنے اپنا کشکول پھیلاتا ہے اور دن بھر اپنے کشکول میں گرنے والی چونیاں، اٹھنیاں جمع کرتا ہے،جس طرح بھکاری کو اِس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ دینے والا کون ہے،اُس کا نام و نسب کیا ہے،کہاں سے آیا ہے اور کیا کرتا ہے،بالکل اُسی طرح ہمارے ارباب اقتدار کو بھی اِس بات سے کوئی مطلب نہیں کہ امداد کو ن دے رہا،کس لیے دے رہا ہے اور کتنی دے رہا ہے،انہیں اگر کوئی غرض ہے تو اِس بات سے کہ امداد ملنی چاہیے،کہیں سے بھی ملے،چاہے وہ ہمارا ازلی دشمن بھارت ہی کیوں نہ دے،حکمرانوں کے اِسی انداز فکر نے حکومت کو سیلاب زدگان کیلئے 50لاکھ ڈالر کی بھارتی امداد کو قبول کرنے کی راہ دکھائی،ہمیں بھارتی امداد قبول کرتا دیکھ کر اسرائیل کی بھی ہمت بڑھی اور اُس نے بھی ہمارے پھیلے ہوئے کاسہ گدائی میں خیرات ڈالنے کی پیش کش کر ڈالی،کیا اب ہمارے حکمرانوں کیلئے ایک دشمن ملک کی امدادی پیشکش قبول کرنے کے بعد دوسرے دشمن ملک کی امدادی پیشکش کو قبول نہ کرنے کا کوئی اخلاقی جواز رہتا ہے ۔؟ہمارے خیال میں نہیںلیکن ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا بھارت کی پچاس لاکھ ڈالر کی امداد ہمارے اُن زخموں پر مرہم رکھ سکتی ہے جو بھارت نے ہمیں گذشتہ 64برسوں میں پہنچائے ہیں،کیا یہ پچاس لاکھ ڈالر کی معمولی امداد پاکستان کو دولخت کرنے کی گھناؤنی سازش ، مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ تسلط اور وہاں جاری تحریک حریت کو کچلنے کیلئے ظلم و جبر کے ہتھکنڈوں کا استعمال،بلوچستان میں بغاوت و انارکی کو ہوادینے،سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی اور پاکستان کی جانب آنیوالے دریاﺅں پر 62 سے زائد ڈیم تعمیر کرکے ہمارے پانی کو روکنا اور ہمیں قحط سالی سے دوچار کرنے کی پلاننگ کرنا اور باقی ماندہ پاکستان کو توڑنے جیسے گناہ عظیم اور جرائم سیاہ کا مداوا بن سکتے ہیں،ہرگز ہرگز نہیں…..ہماری طرح ہر محب وطن پاکستانی کا یہی جواب ہوگا،یہاں یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ سونامی،قطرینہ اور 2005ء میں پاکستان میں آنیوالے زلزلے سے بھی زیادہ تباہ کن موجودہ صدی کا سب سے بڑا اور خوفناک جو سیلاب آیا ہے اور جس کی تباہ کاریاں اِس وقت بھی جاری ہیں،بھارت کی جانب سے دریائے چناب، جہلم اور سندھ میں اور بھارتی ایما ءپر دریائے کابل میں زیادہ پانی چھوڑنے کے ہی کا نتیجہ ہے۔
ایک طرف بھارت ہمارا پانی روک کرہماری سرسبزوشاداب زمینوں کو بنجر بنانے کا انتظام کرتا ہے،تو دوسری جانب وہ اپنا زائد پانی چھوڑ کر ہماری تباہی و بربادی کا نظارہ کرتا ہے،اِس صورتحال میں وہ ہمارا ہمدرد،خیرخواہ اور دوست کیسے ہو سکتا ہے ….! اِس تناظر میں بجائے اِس کہ اپنے شاطر اور مکار دشمن کی امداد کی پیشکش قبول کی جاتی،حکومت کو چاہیے تھا کہ بھارت کا وہ مکروہ چہرہ عالمی برادری کے سامنے لاتی،جو منہ میں رام رام ،بغل میں چھری کے فلسفے کی بنیاد پر دنیا کو دھوکہ دینے اور ہماری سالمیت پر وار کرنے کی مذموم منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنا رہا ہے،اِس وقت ضرورت تو اِس امر کی تھی کہ ہمیں ڈبونے کے حالیہ بھارتی جرم کے ساتھ اُس کے ماضی کے تمام جرائم سے بھی پردہ اٹھایا جاتا،چہ جائیکہ قومی غیرت و حمیت کے منافی بھارت کی حقیر سی امداد قبول کی جاتی ۔
لیکن ہماری حکومت نے عوامی رائے عامہ کے بر خلاف امریکی دباﺅ پر بھارت کی پچاس لاکھ ڈالر کی امداد قبول کرنے کا نہ صرف فیصلہ کیا بلکہ ستم طریفی دیکھئے کہ ہمارے غیرت مند وزیر خارجہ نے بھارت کے امداد دینے کے فیصلے کو خوش آئند،جذبہ خیر سگالی کا مظہراورایک نئے دور کا آغاز قرار دینے کے ساتھ اُسے پاکستانی عوام کی جانب سے سراہا جانا بھی قرار دے ڈالا،اُن کے اِس بیان کو بھارتی ذرائع ابلاغ نے یہ کہہ کر ”بھارتی امداد کو حقارت سے ٹھکرانے والے پاکستان کو امریکی اشارے پر قبول کرنی پڑی “ نہ صرف پاکستان کو تضحیک کا نشانہ بنایا بلکہ اُس پر مختلف پیرائے میں توہین آمیزتبصرے بھی کئے،بدقسمتی سے یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہوا جب مقبوضہ جموں کشمیر میں غاصبانہ بھارتی تسلط کے خلاف کشمیری مسلمانوں کی تحریک ایک بار پھر اپنے عروج پر ہے اور بھارت کشمیری عوام کی تحریک آزادی کو دبانے کیلئے تمام تر ریاستی حربے،طاقت اور انسانیت سوز مظالم روا رکھے ہوئے ہے،تحریک آزادی کشمیر کا یہ نازک اور اہم ترین موڑ پوری دنیا کے مسلمانوں اور بالخصوص وطن عزیز پاکستان کے اصحاب فکر ودانش اور ارباب اقتدار کی خصوصی دلچسپی اور عملی تعاون کا محتاج ہے،کیونکہ اہل کشمیر جغرافیائی نہیں بلکہ وہی دینی و نظریاتی جنگ لڑ رہے ہیں جو جہاد کی صورت میں ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے،لیکن افسوس اور صد افسوس، حکمرانوں کی مبہم اور بزدلانہ پالیسیوں نے مسئلہ کشمیر کو مشکل اور پیچیدہ بنادیاہے،قیام پاکستان سے اب تک تمام سابقہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت نے بھی کشمیریوں کی قسمت سے کھیلنے کے شرمناک عمل کو جاری رکھااور بھارت کے ساتھ یک طرفہ محبت کی پینگیں بڑھائیں،بھارتی امداد قبول کرنے کا موجودہ فیصلہ بھی اسی کیفیت کا مظہرہے ۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ابتداءمیں مقتدر حلقوں اور وزارت خارجہ کے بعض حکام نے بھارتی امداد قبول کرنے کے معاملے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا،جس کے باعث حکومت نے بھارتی امداد کے بارے میں خاموشی اختیار کرلی تھی،دراصل بھارتی امداد کی مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ بھارت کی طرف سے محض 50لاکھ ڈالر کی پیشکش کی گئی تھی،جس سے امدادی کاروائیوں میں کوئی خاص بہتری نہیں آتی،دوسرے اِن حلقوں کا خیال تھا کہ بھارت اِس امداد کے بہانے پاکستان پر اخلاقی برتری حاصل کرنا چاہتا تھا، جس کی وجہ سے حکومت پاکستان نے بھارت کی جانب سے امداد کی پیشکش پر فوری ردعمل کا اظہار نہیں کیا،لیکن جب بارک اوباما انتظامیہ کی طرف سے پاکستان کو یہ باور کرایا گیا کہ وہ بھارت کی امداد قبول کرلے اور اسے سیاسی مسئلہ نہ بنائے،تو ہماری تابعدار حکومت کے فرمانبردار وزیر خارجہ نے 24گھنٹوں کے اندر اندر بھارتی امدادکے اسٹریجک اور دور رس اثرات کو نظر اندازکرتے ہوئے اُسے قبول کرنے کا حیرت انگیز اعلان کر دیا،حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک طرف حکومت بڑی شدت کے ساتھ یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ہم امریکی ڈکٹیشن قبول کرتے ہیں،نہ اُس پر عمل کرتے ہیں،مگر دوسری جانب امریکی انتظامیہ کی جانب سے ہلکے سے اشارے پر بھارتی امداد قبول کرلی جاتی ہے اور ہمارے محترم وزیر خارجہ امریکہ میں بیٹھ کر سرتسلیم خم کرتے ہوئے نہ صرف بھارتی امداد کی پیشکش قبول کرنے کا اعلان کرتے ہیں بلکہ توہین و تضحیک کے لبادے میں لپٹی ہوئی اِس پیشکش کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ارباب اقتدار کا یہی وہ شرمناک طرز عمل ہے جس نے اُس قوم کو جس کے اکابرین نے برطانوی اور ہندو سامراج سے آزادی چھین کرمملکت خداداد پاکستان حاصل کیا تھا،دنیا کے بازار میں بھکاریوں اورمنگتوں کی قوم بنادیا ہے،غیر ملکی آقاؤں کے تابع فرمان بددیانت اور کرپٹ حکمرانوں نے اپنی ہوس اقتدار اور عیش و عشرت کیلئے اتحاد،تنظیم،ایمان کو حرز جان بنا کر پاکستان حاصل کرنے والوں کی اولادوں کو بدامنی،انتشار اور ذلت و رسوائی کے اندھیرے غاروں میں دھکیل دیا ہے،یہ درست ہے کہ اِس وقت ہم مصیبت کے مارے ہیں،سیلاب نے ہماری کمر توڑ کر رکھدی ہے لیکن اِس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ ہم اپنے اُس دشمن کی امداد بھی قبول کرلیں جس نے اپنے دریاؤں کے بند کھول کر ہمارے ملک کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے دوچار کیا اور جس نے کبھی بھی ہمیں نقصان پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا،ہوسکتا ہے کہ حکومت کی اپنی مصلحتیں اور مجبوریاں ہوں لیکن ہمارا ماننا ہے کہ پاکستان کے غیور عوام بھارت کی اِس امدادی پیشکش کو نہ تو پسند کرسکتے ہیں اور نہ ہی سراسکتے ہیں اور نہ ہی کسی طور بھی وہ اپنے دشمن کی جانب سے دھوکہ،فریب اور منافقت کے زہر میں بجھی ہوئی امداد کو قبول کرنے کیلئے تیارہیں۔
یہ درست ہے کہ آج ملک و قوم مصیبت اور مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں،مگر اِس کے باوجود قوم میں ابھی بھی اتنی ہمت،طاقت، اور حوصلہ موجود ہے کہ وہ دشمن کی بھیک قبول کئے بغیر بھی زندہ رہ سکتی ہے،لہٰذا اِس صورتحال میں بھارتی امداد کو ایک نئے دور کا آغاز قرار دینا بڑا معنی خیز معلوم ہوتا ہے کیونکہ ایسا آغاز ماضی میں سینکڑوں بار بھارت کی بدنیتی اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے پیشکشوں،معاہدوں،مصافحوں،معانقوں،ملاقاتوں اور مداراتوں کی نظر ہوچکا ہے،اِس تناظر میں زیادہ بہتر تویہ تھا کہ قومی غیرت و حمیت کے منافی بھارتی امداد کی پیشکش کو قبول کرنے اور اِس معمولی امداد کی سپاس گزاری کرنے کے بجائے پاکستان عالمی برادری پر دباؤ ڈالتا کہ وہ بھارت سے کشمیر سمیت تمام متنازعہ اُمور طے کرائے،مگر افسوس جب عوام کی تمناؤں اور جذبوں کی ترجمانی کرنے والی آوازیں گنگ اور ڈرو مصلحت کا شکار ہوجائیں،جب ارباب اقتدار کی زبانیں زمینی حقائق کو جھٹلائیں اور رنگا رنگ تاویلیں پیش کریں تو اقتدار کے ایوانوں میں ہونے والے فیصلے قومی مفاد اورامنگوں کے خلاف ہی ہوا کرتے ہیں،بدقسمتی سے آج یہ سب کچھ اُس سیاسی جماعت کے دور حکومت میں ہورہا ہے جس کے بانی اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا”ہمیں ایسی امداد نہیں چاہیے جو ہمیں قومی مفادات سے بے خبر بنادے۔“یاد رہے کہ ملک و قوم کی عزت و آبرو بھارتی امداد سے کہیں زیادہ قیمتی اورمقدم ہے،جسے دشمن کے چند ٹکوں کی خاطر قربان نہیں کیا جاسک