کرنل قذافی، عبرت کی ایک اور داستان
قاسم علی دیپالپور
حضرت سعدی شیرازی اپنی مشہورِزمانہ تصنیف گلستانِ سعدی میں ایک سبق آموز واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں ”ایک بادشاہ نے خواب میں دیکھا کہ ایک قبر کھلی ہوئی ہے جس میں بادشاہ سبکتگین کا ڈھانچہ پڑا ہے لیکن اس کی آنکھیں کھلی ہیں جن میں حسرتوں کا ایک سمندر موجزن ہے”بادشاہ نے یہ خواب علمائے کرام کے سامنے رکھا جنہوں نے اس کی یوں تعبیر کی کہ ”بادشاہ سبکتگین کی حسرت و یاس سے بھری آنکھیں اس بات کی نشاندہی کررہی ہیں کہ ہائے جس مملکت کے حصول کیلئے میں نے اس قدر کشت و خون کیا اور یہ سمجھتا رہاکہ میرااقتدار ہمیشہ یوں ہی قائم رہے گا لیکن افسوس آج اُس مملکت پر غیروں کا قبضہ ہے اور میں قبر میں پڑا ہوں اور کوئی میرا نام لینے تک کو تیار نہیں ”سعدی اس حکائت میں یہ حقیقت بڑی خوبصورتی سے بیان فرماتے ہیں کہ کسی بھی شخص کو اقتدار کا ملنا اللہ کی طرف سے ایک امتحان ہوتا ہے اگر وہ اپنے دورِ اقتدار میں اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کو ترجیح دیتا ہے اور ان کے درمیان عدل و انصاف کو قائم رکھتا ہے تو یہ اقتدار اس کیلئے دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بن سکتا ہے ورنہ وہ نہ صرف دنیا میں ذلیل و خوار ہوتا ہے بلکہ آخرت میں بھی اللہ کے غیض و غضب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔اسی حقیقت کو ثابت کرتی ہوئی ایک تازہ ترین داستان لیبیا پر 42سال تک بلا شرکت غیرے حکومت کرنیوالے کرنل قذافی کی ہے ۔
معمرقذافی 1942ء میں لیبیا کے صحرائی علاقے سرت میں پیدا ہوئے عہدِجوانی میں مصری قوم پرست رہنما جمال عبدالناصر سے متاثر تھے اور شروع ہی سے باغیانہ خیالات کے مالک اور جنگجویانہ ذہنیت کے حامل تھے انہوں نے اعلیٰ تعلیم برطانیہ سے حاصل کی اور لیبیا میں واپس آکر فوج میں بھرتی ہوگئے 1969ء میں جب وہ محض 27برس کے تھے وہ کرنل کے عہدے پر پہنچ چکے تھے اور اسی سال ہی انہوں نے اپنے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت حکومت کا تختہ الٹ کر اِس پر قبضہ کرلیااور دنیائے عرب میں ایک قوم پرست رہنما کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے اور اس سلسلے میں انہوں نے عرب دنیا میں بیداری کی مہم بھی شروع کی اور مصر،اُردن اور شام جیسے اہم ممالک کے ساتھ کئی دفاعی معاہدے بھی سائن کئے اپنے پورے دورِحکومت میں ایک متنازعہ شخصیت بلکہ ایک معمہ بنے رہے کیونکہ کبھی تو وہ تنظیم آزادیء فلسطین اورآئرش ریپبلکن آرمی سمیت درجنوں مجاہدتنظیموں کی پشت پناہی کرکے طاغوتی طاقتوں کو للکارتے نظر آتے ہیں تو دوسری جانب اُن سے منسوب ایسے بیانات بھی ریکارڈ پر ہیں جوانہوں نے شعائرِ اسلام کی توہین میں ادا کئے 1986ء میں امریکہ نے یورپ پر حملوں کا الزام قذافی پر عائد کرتے ہوئے طرابلس پر بمباری کی جس میں کرنل قذافی کی گود لی گئی بیٹی بھی ہلاک ہوئی اور 1988ء میں سکاٹ لینڈکے مقام لاکربی پرتباہ ہونے والے مسافربردارہوائی جہازجس میں 20سے زائدملکوں سے تعلق رکھنے والے279افراد ہلاک ہوئے کا الزام بھی کرنل پر ہی لگایا گیااور اسی کو بنیاد بنا کر امریکہ نے اقوامِ متحدہ کے ذریعے لیبیا پر پابندیاں عائد کروادیں لیکن ان تمام حالات کے باوجودقذافی کے لہجے میں امریکہ اور اس کے حواریوں کیلئے کوئی نرمی پیدا نہ ہوئی بلکہ اس دوران انہوں نے لیبیا کیلئے جوہری پروگرام بھی شروع کردیااور یہیں سے انہیں عالم اسلام میں زیادہ پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جانے لگا لیکن پھر 2003ء آگیا اور کرنل قذافی نے ایک ڈرامائی یوٹرن لیااس سال انہوں نے لاکربی حادثے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے نہ صرف اپنے دستِ راست اورخفیہ ادارے کے سابق اہلکار عبدالباسط المدراہی کوہالینڈ کے حوالے کردیا بلکہ حادثے میں مرنے والوں کے لواحقین کو کئی ارب ڈالر ہرجانہ بھی ادا کیا ابھی دنیا ان کے اس اقدام پر ہی حیرانی کا اظہار کررہی تھی کہ انہوں نے ایک اور بڑا اقدام اٹھاتے ہوئے لیبیا کے ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے کا اعلان کرکے سب کو چونکا دیااُن کے اِن دو پے درپے اقدامات کو اگرچہ پورے مغرب میں تحسین کی نظر سے دیکھا گیا لیکن عالم اسلام کی طرف سے انہیں امریکی ایجنٹ اور غدار جیسے القابات سے نوازا گیا ۔
قارئین کرام؛اگر ہم کرنل قذافی کے دورِ اقتدار کو دیکھتے ہیں تو وہ ہمیں رنگینیوں سے مزین نظر آتا ہے لیکن ان رنگینیوں اور پینترے بازی کا مقصد ایک ہی تھا جو سہر ڈکٹیٹر کا ہوتا ہے یعنی اپنے اقتدار کو طول دینا اس کیلئے پہلے اس نے عرب قوم پرستی کا نعرہ بلندکیا کہ اس وقت اسے عرب دنیا میں مقبولیت کیلئے ایسے خوشنما نعروں کی ضرورت تھی لیکن جب ہو انے رُخ بدلا اور امریکہ نے اس کیلئے مشکلات میں شدید اضافہ کردیا تو اس نے اسلام کے خلاف لاف زنی اور ایٹمی پروگرام رول بیک کرتے ہوئے امریکہ کے چرنوں میں بیٹھنے سے بھی گریز نہ کیا لیکن اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے ہر حربہ استعمال کرنے والا ڈکٹیٹر قانونِ قدرت کے سامنے سرنگوں ہوکررہا اور تیونس سے شروع ہونیوالی عرب دنیا میں تبدیلی کی لہرزین العابدین اور حسنی مبارک کے بعد کرنل قذافی کو بھی لے ڈوبی ۔عشروں پرمحیط اپنے عرصہء اقتدارمیں سیاہ و سفید کے مالک رہنے والے اور اپنے اپنے ملک کے نصف سے زائد وسائل کو اپنی ذاتی جاگیر میں بدل لینے کے باوجود انہیں کوئی چیز نہ بچا سکی کہ حقیقی اقتدار کا مالک جب چاہتا ہے جس کو چاہتا ہے اس کے سر پر تاجِ بادشاہت سجا دیتا ہے اور جب چاہتا ہے اسے قیدی،گدا اور مفرور بنا دیتا ہے کہ اس کی پکڑ بڑی سخت ہے۔