کراچی،قیام امن کے لیے علماءآگے آیئں
عثمان حسن زئی
وطن عزیز میں بدامنی اور لاقانونیت کا بازار گرم ہے۔بالخصوص کراچی میں بد امنی کی شرح روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ ہر شخص خوف کی فضا میں سانس لینے پرمجبور ہے۔آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے اور اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے علماءکرام کو کیا کرنا چاہیے یا ان کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔ذیل میں ہم اسی کا جائزہ لیں گے۔
امن وامان کسی بھی معاشرے کی ترقی میں بنیادی کردارادا کرتے ہیں اس کی افادیت سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا ۔اﷲتعالیٰ نے قرآن مجید میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ذکر کیا ہے آپ نے دیگر تمام دعاوں سے قبل یہ دعا کی ”اے میرے پروردگار!اس شہر (مکہ)کو امن والا بناد ے“۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ امن کسی معاشرے کی فلاح وبہبود کے لیے کتنا ضروری ہے۔جس معاشرے میں امن وامان ناپید ہوجائے اس کی ترقی کا عمل رک جاتا ہے ،وہ زوال کی طرف بڑھنا شروع ہوجاتاہے،وہاں قتل وغارت گری کا بازار گرم ہوجاتا ہے ،لوگ خوف ودہشت کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ،سرمایہ کار اس ملک سے اپنا سرمایہ نکال لینے میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں، اس معاشرے کے باسیوں کے روز مرہ معاملات مفلوج اورزندگی اجیرن ہو جاتی ہے ،لوگ مایوسی کی انتہاءکو پہنچ جاتے ہیں مہنگائی کا طوفان کھڑا ہو جاتا ہے ،عوام کے لیے دووقت کی روٹی کا حصول اور جسم وجان کا رشتہ برقرار رکھنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے ۔خود کشی کے واقعات بھی معمول بن جاتے ہیں ۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں آج بعینہ یہی صورت حال ہے ۔کاروان زندگی چلانے کے لیے ہم غیروں کے محتاج بن کر رہ گئے ہیں ۔تشویشناک ملکی حالات سے ہمیں کتنا نقصان ہوا؟اس کا اندازہ اس امر سے لگا لیجئے کہ بڑھتی ہوئی بد امنی اور غیر یقینی کی فضا کے باعث پاکستانی مارکیٹو ں سے غیر ملکی سرمایہ نکل رہا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق کاروبار کے پچھلے 13 سیشنوں کے دوران بیرونی سرمایہ کاروں نے 30 کروڑ ڈالر ز نکال لیے ۔جبکہ کراچی میں امن وامان کی مخدوش صورت حال کے باعث مقامی سرمایہ کار بھی گھبراہٹ کا شکار ہیں۔
ملک کا صنعتی وتجارتی مرکز کراچی عرصہ دراز سے دہشت گردوں کا مرکز بنا ہوا ہے ،اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے رواں سال جولائی کی رپورٹ کے مطابق یعنی صرف ایک ماہ کے دوران 337بد نصیب موت کے کھاٹ اتارے جاچکے ہیں ۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ سال 2011 ءکے پہلے 7 ماہ میں کراچی میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 800 ہوگئی ہے جوکہ 1995ءکے بعد سب سے زیادہ ہے جب 900 افراد مارے گئے تھے۔اب عام اور بے گناہ شہریوں کواغواکرکے انہیں تشددکی موت ماراجارہاہے۔کوئی دن نہیں گزرتاجب کراچی کی سڑکوں سے آٹھ،دس بوری بند لاشیںبرآمد نہ ہوتی ہوں۔بلکہ اب توقانون نافذکرنے والے اداروں کوبھی سرِعام نشانہ بنانے سے بھی دریغ نہیں کیاجارہا۔
کراچی کے رہائشی قبضہ مافیا،اتحادی جماعتوں کی سیاسی لڑائی اور اس کے بعد حکمرانوں کی طفل تسلیاں سن سن کر عاجز آچکے ہیں۔کیا یہ افسوس ناک صورت حال نہیںکہ کراچی میں بے گناہوں کاخون پانی کی طرح بہائے جانے پر بھی ہمارے حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ،وہ ٹس سے مس تک نہیں ہوتے ۔ہمارے ارباب اختیار کبھی بھی خلوص دل سے قیام امن کے لیے راست اقدام نہیں کرتے ۔باالفاظ دیگر حکومت نے کراچی کے باسیوں کو دہشت گردوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے ۔کوئی گھر سے نکلے تواسے یقین نہیں ہوتا کہ وہ سلامت گھر لوٹ بھی سکے گا کہ نہیں؟
اس پس منظر اور صورت حال کے پیش نظر لوگوں نے حالات کو سدھارنے کے لیے اب حضرات علما کرام سے ہی امیدیں اور توقعات وابستہ کرلی ہیں،کیونکہ حکمرانوں سے حالات میں بہتری لانے کی توقع رکھنا فضول ہی معلوم ہوتا ہے،قوم کا پیمانہ صبر بھی اب لبریز ہونے لگا ہے ۔کراچی کا امن اوراس کی روشنیاں اسے دوبارہ لوٹانے کے لیے علما کرام کو ہی آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا ہوگا۔بلا شبہ تحریک پاکستان کا جائزہ لیا جائے تو قربانیاں دینے والوں میں ہمیں علما کرام ہی پیش پیش نظر آئیں گے ۔اس ملک کی بنیادوں میں ان کا خون پسینہ شامل ہے۔علما کرام نے ماضی میں بھی قیام امن کے لیے کئی مواقع پر مثبت کردار ادا کیا۔ابھی حال ہی میں کراچی کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے بعد اہلیان کراچی کی دعوت پر تبلیغی جماعت کے مبلغ مولانا طارق جمیل صاحب مدظلہ کراچی آئے ۔انہوں نے ایک دوسرے کا خون بہانے پر لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرایا ۔مولانا طارق جمیل نے ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو اور اے این پی کے مرکز کے علاوہ بنارس باچاخان چوک میں بھی خطاب کیا۔جس میں انہوں نے مسلمان بھائی کے خون کی حرمت اورا س کی عظمت پر دلائل دیے۔
تبلیغی جماعت کے ارکان یا علما کرام کی ذمہ داریاں صرف اسی اقدام یا بیانات کرنے پر ختم نہیں ہوجاتیں ۔سچ تو یہ ہے کہ کراچی کے مسئلہ کا پائیدار حل نکالنے کے لیے علما کرام کو مسلسل کوششیں کرنا ہوں گی۔ٹھوس اقدامات کیے بغیر یہاں کے حالات سدھارنے کی کوئی بھی کوشش رائیگا ں ہی جائے گی۔علما کو چاہیے کہ وہ منبر ومحراب کے پلیٹ فارم کو بھر پور طریقے سے استعمال کریں۔اس حوالے سے وہ قوم میں اتحاد واتفاق پیدا کرنے کے لیے بھائی چارگی اور مسلمانوں کے آپس کے ایک دوسرے کے حقوق سے انہیں آگاہ کریں تاکہ عوام میں شعور اجاگر ہو اور اس کے ساتھ ساتھ اﷲ تعالیٰ سے مانگتے بھی رہنا چاہیے۔اﷲ تعالیٰ سے رورو کر بھٹکے ہوئے لوگوں کی ہدایت کے لیے دعائیں مانگنی ہوں گی۔
کچھ درد مند علماءکرام کراچی کو تباہی وبربادی سے بچانے کے لیے سرگرم عمل ہوگئے ہیں جن کے لیے ”علماءامن کونسل “ کے نام سے ایک پلیٹ فارم بھی تشکیل دیا جاچکا ہے۔گزشتہ دنوں کراچی میں شر انگیزی اور بڑھتی ہوئی تخریبی کاروائیوں کے بعد علماءامن کونسل کراچی کی اپیل پر شہر بھر میں یو م دعائے امن منایا گیا۔اس موقع پر مساجد میں نماز جمعہ کے بعد خصوصی دعاوں کا اہتمام کیا گیا۔جبکہ خطبات جمعہ میں ائمہ وخطباءنے امن کے حوالے سے خصوصی تقاریر کیں۔
علماءکرام نے شہریوں کو امن وامان کی اہمت اور اس کے فوائد وواقعات سے بھی آگاہ کیا ۔اس کے 2 ہی دن بعد مختلف مکاتب فکر کے علماءاور دینی جماعتوں کے رہنماوں کا ایک کنونشن جامعة الدراسات گلشن اقبال میں منعقد ہوا جس میں کونسل کے چیئر مین قاری محمد عثمان جبکہ مہمان خصوصی جماعة الدعوة کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید تھے۔کنونشن سے دیگرمقرررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے ،لہٰذا ہم ہر گلی محلے کی مساجد میں امن کمیٹیاں بنائیں گے تاکہ عوام کی جان ومال کی حفاظت ہوسکے ۔مقررین نے اس عزم کا بھی اظہارکیا کہ وہ ملک کی سلامتی ،بقاءاور تحفظ کے لیے ہر سازش کو ناکام بنادیں گے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ حضرات علماءکرام کی یہ کوششیں وکاوشیں قابل قدر ہیں بس اخلاص نیت کے ساتھ مسلسل محنت کی ضرورت ہے ۔حالات کی سختی سے کبھی بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے ۔ہمیں چاہیے کہ علماءکرام کا ساتھ دیں اور جتنا ہمارے اختیار میں ہے ہم اسی کے مکلف ہیں باقی نتیجہ اﷲ تعالیٰ پر چھوڑ دینا چاہیے۔