پی پی پی کی عوام دوست حکومت کاعوام کوسال 2011کا پہلا تحفہ……..پیٹرولیم مصنوعات مہنگی
|
Related Posts
پی پی پی کی عوام دوست حکومت کاعوام کوسال 2011کا پہلا تحفہ……..پیٹرولیم مصنوعات مہنگی
غریبوں کی حکومت کے دعوےداروںنے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کردیا
لگتا ہے کہ حکومت نے پہلے ہی یہ تہیہ کررکھاتھا کہ وہ اپنے عوام کو نئے عیسوی سال 2011کے پہلے ہی روز (اِبن المہنگائی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںمیں اضافہ کرکے) کوئی ایسا تحفہ دے گی کہ عوام بلبلااٹھیں اور واقعی اِس عوام دوست(پی پی پی ) حکومت کے دعویداروں نے ایساہی کیا جیسااِنہوںنے سوچ رکھاتھا کہ جیسے ہی ملک میں2010کا سورج غروب ہواہی تھا کہ ہمارے ملک کے وہ وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی جنہیں جے یوآئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ناپسندیدہ وزیراعظم قرادے چکے ہیںاور وہ صدرمملکت آصف علی زرداری سے بھی برملا اِن کی فوری تبدیلی کا مطالبہ کرچکے ہیں جی ہاں!ہمارے اِن ہی وزیراعظم نے گزشتہ دنوں اوگراکی اُس سمری کی منظوری دیتے ہوئے ملک میںمہنگائی کا ایک اور طاقتور ترین سیلاب لانے والے اُس نوٹیفکیشن پر دستخط بھی کردیئے جس کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںمیں بالترتیب پٹرول 6.71روپے،ڈیزل4.25روپے اورمٹی کا تیل 4.04روپے فی لیٹر اضافہ کردیاگیاجس سے ملک میں یقینا مہنگائی کا ایک اورطاقتورترین سیلاب چلاآئے گاجس کی زد میںا مرا ¿ تو نہیں مگر ملک کے غریب عوام ضرور آجائیں گے اور پھر ملک وہ کچھ ہوگا جس کا تصور بھی نہیںکیاجاسکتاہے ۔حکومت کے اِس عوام دُشمن اقدام کے بعد کون کہہ سکتاہے کہ یہ کسی عوام دوست حکومت کا عوام دوست اقدام ہے ۔
یہ غلط یکسر غلط محنت کشوں کا دُور ہے یہ ہے خوش فہمی یہ دورِ عظمتِ مزدور ہے
یہ بھی نادانی یہ عہدِ شوکت ِ جمہور ہے یہ سیاسی رشوتوںکا سازشوں کا دور ہے
اور آج اِس ساری صُورت حال میںافسو س کی بات تو یہ ہے کہ گزشتہ پونے تین یا تین سالوں میںمہنگائی کو جو پَر لگے ہیں وہ اِس عوام دوست جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کا اَحسن کارنامہ ہے جِسے عوام نے ملک سے مہنگائی ،بیروزگاری،اور غربت کے خاتمے کے لئے 18فروری کے انتخابات میںووٹ دے کر اقتدار کے مسندِ عالیٰ پر بٹھایاتھاکہ یہ ایک عوام دوست پارٹی ہے اور اِس جماعت کا ماضی بھی گواہ ہے کہ جب بھی ملک میںپی پی پی کی حکومت آئی تواِس نے ہمیشہ عوام دوست اقدامات کئے ہیں مگر اِس مرتبہ عوام کو اِس جماعت کو اقتدار سونپ کر سخت مایوسی ہوئی ہے اور آج وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اِس بار اِس پارٹی کے حکمرانوں نے ایسے ایسے عوام دشمن اقدامات کرڈالے ہیں اور مزید کرنے پر تُلے بیٹھے ہیںکہ ملک میں غریب اور تنخواہ دار طبقے سمیت ہر فرد کا چین سے جینا محال ہوگیاہے اور عوام اپنی اِس کسمپری کا ذمہ دارموجودہ حکمرانوں کو ٹہراتے ہیں جن کی نااہلی اور ناقص منصوبہ بندیوں کی وجہ سے ملک میںمہنگائی کا سیلاب آچکا ہے جو کم ہونے کانام ہی نہیںلے رہاہے اوراِس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومت میںوزرا ¿ کی ایک فوج ِ ظفر موجود ہے اورہمارے حکمران ہیںکہ یہ اپنے اِن ہی وزرا ¿ کی فوج لئے بیٹھے ہیںاور یوںسب کے سب اپنی اپنی مستیوں میںمگن ہیں اور قومی خزانے سے خُوب اپنی عیاشیاں کررہے ہیںاور کہتے ہیںکہ خزانہ خالی ہے اوراِس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیںکہ قومی خزانے کو بھرنے کے لئے ملک میںمہنگائی اور ٹیکسوںکا نفاذناگزیر ہوچکاہے۔
آپ کہتے ہیں کہ ہے اپنا خزانہ خالی میری دانست میںہے ایک بہانہ خالی
آ وزیروں کی ذرافوجِ ظفر موج تودیکھ کون کہتاہے کہ ہے اپنا خزانہ خالی
اگر چہ یہ حقیقت ہے کہ گزرے زمانوںمیں ہمارے ملک میںجب کبھی حکمرانوں کی جانب سے اِن کے کئے جانے والے عوام دُشمن مہنگائی جیسے کسی بھی اقدام کے حوالے سے عوام کو ذرابرابر بھی دھجکا لگتاتھا تو ملک کے طول ُارض میں عوام کا ایک سیلاب مہنگائی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آتاتھا اور اُس وقت کے حکمران عوام کے اِس غیظ و غضب کے سامنے بے بس نظر آتے اور ملک میںکئے جانے والے اپنے مہنگائی کے فیصلوں کو واپس لینے میںاپنی عاقبت سمجھتے اور عوام بھی اپنی اِس یکجہتی اور ملی اخُوت پر اطمینان کا سانس لے کرہنسی خوش بیٹھ جایاکرتے تھے۔
مگرمعاف کیجئے گا مجھے یہاںیہ کہنے دیجئے کہ گزشتہ دوہائیوں سے ہمارے ملک میں جتنے بھی حکمران مسلط ہوئے یا کئے گئے یا امریکا نے اِنہیں اپنے مفادات کے حصول کے خاطر زبردستی ملک کا اقتدار سونپاتووہ اتنے دہیٹ اور بے حس تھے کہ اُن کے کئے گئے عوام دُشمن اقدامات پر جب بھی عوام کی جانب سے کسی بھی قسم کا عوامی ردِعمل یا حکومت مخالف چلائی جانے والی تحریکوں اوراحتجاجوںکی صُو رت میں جب بھی سامنے آیا تو اُن کے کانوں پر جُوں تک نہ رینگی اور وہ اپنے فیصلوں پر اَٹل رہے اور اُنہوں نے وہی کچھ کیا جیسا وہ اپنے آقا امریکا سے سیکھ پڑھ کر آئے تھے ۔
اور آج افسوس کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑرہاہے کہ ہمارے ملک کے موجودہ حکمران بھی اپنے پیش روکے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں اور یہ بھی وہی کچھ کررہے ہیں جیسے اِن سے پہلے والے کیاکرتے تھے یعنی اِنہیں بھی عوامی مسائل حل کرنے اور عوامی پریشانیوںکے مداوے سے کوئی غرض نہیں ہے اگر اِنہیں کوئی فکر لاحق ہے تو بس اپنی کُرسی کی ہے کہ وہ اِن سے کہیں نہ چھن جائے…. بھلے سے عوام کا بیڑاغرق ہوتاہے تو ہوتارہے ۔مگر اِن کی کرُسی سلامت رہے اور آج یہی وجہ ہے حکمرانوں نے اپنی نجات اِسی میں جان رکھی ہے کہ امریکا خوش ہے تو سمجھوسب خوش ہیںاور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک اِن سے راضی ہے تو اِن کی حکومت قائم رہے گی اور اگر کبھی اِنہوں نے عوامی احتجاجوں اور اپنے خلاف چلائی جانے والے تحریکوں کے دباو ¿ میں آکر امریکی ہدایات اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی معاشی اصطلاحات کے لئے دیئے جانے والے مشوروںاور تجاویز پر عمل نہ کیاا وراِن کی ناراضگی مول لیے لی تو پھر سمجھوکہ حکومت ہاتھ سے گئی ۔اوراِ س کے ساتھ ہی یہاں مجھے یہ بھی کہنے دیجئے کہ اَب ہمارے حکمرانوں ،سیاستدانوں اور عوام کوبھی یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہئے کہ اِنہیںامریکا، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے اپنے شکنجوں میںجکڑاور عوام کو اپنے منہ میں دپوچ رکھاہے یوں یہ تینوں ہی اپنی اِس بے بسی اور لاچارگی پر ضرور جھنجلاہٹ اور تلملاہٹ کا شکار ہیں مگراَب یہ بیچارے بھی کیاکریں حکمرانوںاور سیاستدانوں کی بات تو خیر چھوڑیں یہ تو ہیں ہی سارے کہ سارے امریکی پٹھومگر اِن کے چکر میں تو ماری جارہی ہے ملک کی وہ بیچاری معصوم عوام جس کو کبھی اپنی اِس بات پر بڑاناز تھا کہ وہ حکمرانوں کے خلاف اِن کے کسی بھی عوام دُشمن اقدام پراپنے احتجاجوں اورتحریکوںسے اِنہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیں گے مگر آج تو اِن کے ناتواں جسموںمیں حکومت کی جانب سے ملک میںبے لگام بڑھتی ہوئی مہنگائی اور زبردستی ٹیکسوںکے نفاذ کے خلاف( اِن عوام دُشمن اقدامات پر) نہ تو ملک بھر میں حکومت مخالف کوئی تحریک چلانے اور آئے روز سڑکوں پر نکل کر حکومت مخالف احتجاج کرنے کے لئے وہ پہلے والی ملی یکجہتی اور اخُو ت ہی ر ہی ہے اور نہ اَب وہ تاب ہی باقی رہ گئی ہے جو پہلے کبھی ہمارے ملک کے عوام میں ہواکرتی تھی ۔بقول ِ شاعر :-
سرمایہ ¿ حیات سمجھتے تھے ہم جِسے افسوس اَب وہ لاج بھی باقی نہیں رہی
پہلے تو احتجاجوں پر تھا اِنحصارِزیست اَب تابِ احتجاج بھی باقی نہیں رہی
ویسے ہمارا اپنے عوام اور حکمرانوں اور سیاستدانوںکو بھی ایک مشورہ ہے کہ وہ ہمت پکڑے اور بولیویا کے لوگوںکی مثال کو سامنے رکھے کہ ایک خبر کے مطابق بولیویا جہاں ہمارے ملک کی طرح اِس پر بھی آئی ایم ایف اور ورلڈبینک کی اجارہ داری قائم ہے یہاں بھی جب اِن اداروںکے مشوروںاور تجاویز کی روشنی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںمیںاضافہ کیا گیا تو یہاںکے عوام اِس کے خلاف اپنی پُرامن آوازِ احتجاج بلندکرتے ہوئے سڑکوںپر نکل آئے اور حکومت کو مجبور کیا کہ وہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںاضافے کے اپنے فیصلے کو واپس لے اور اطلاعات ہیں کہ وہاں کی حکومت نے عوامی احتجاج کی وجہ سے اپنے اِس فیصلے پرنظر ثانی کرنے کے بعد اِسے واپس لینے کا بھی اعلان کردیاہے۔اور حکمرانوںاور سیاستدانوں سے یہ کہناہے کہ جب عالمی منڈی میں پیڑولیم مصنوعات کی قمیتیں کم تھیںتو اُنہوں نے ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیںاِس طرح کیوںنہیں کم کیںتھی جس کا عوام مطالبہ کررہے تھے اُس وقت تو ہمارے حکمرانوں (بالخصوص وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی ) نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںمیں روپوںکے بجائے چندپیسوںکی کمی کا اعلان کیاتھااوراَب جب کہ عالمی منڈی میںتیل کی قیمت بڑھی ہے تو ہمارے اِنہی وزیراعظم نے ملک میںبے تحاشہ اضافہ کرکے عوام پر مہنگائی کے سیلا ب کا راستہ ہموار کردیا ہے۔اور اِن سے مزید یہ کہناہے کہ وہ جس قدر جلد ممکن ہوسکے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے چُنگل سے نجات حاصل کرلیں کیونکہ اِس ہی میںاِن کی اور ہمارے ملک کی اور ہم سب کی بھلائی ہے۔ورنہ ورنہ یہ دونوںادارے اور امریکا ہم سب کو کھاجائے گا۔