پیپلزپارٹی کی سازیں تو خوبصورت ہیں لیکن آواز یں بھدّی ہیں۔
پیپلزپارٹی کی سازیں تو خوبصورت ہیں لیکن آواز یں بھدّی ہیں۔
تحریر:شکیل انور
نوجوانوں کا ٹولہ ایک خوب رُو اور موہنی صورت دوشیزہ کو اپنی جانب آتی دیکھ کرخوشی سے کھِل اُٹھا ہے۔ جس جس کے ہاتھ میں گانے بجانے کے جو جو آلات ہیں‘ وہ سب کے سب سنبھال کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور آنے والی دوشیزہ کا والہانہ استقبال کرنے کے انداز میں بے ساختہ گنگناتے لگتے ہیں ۔اُن نوجوانوں کا خیال ہے کہ اُن کے درمیان میں آنے والی دوشیزہ جس قدر خوب صورت ہے اُسی قدر حسین اور سُریلی اُس کی آواز بھی ہوگی۔ایک نوجوان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اُس دوشیزہ سے بات کرے ‘ معاً اُس نوجوان کی نظر میز پر پڑی ہوئی ایک موبائل پر پڑتی ہے‘ نوجوان موبائل اٹھاکر دوشیزہ کے آگے آجاتا ہے اور کہتا ہے، ” آپ کی موبائل۔“ اُس حسینہ نے انتہائی بھدّی آواز میں کہا،”شکریہ!“ اور وہاں ایک بھگدڑ سی مچ گئی۔کسی نے کہا’نکل لے یہاں سے‘ کچھ لڑکوں کے دیدے متواتر پھڑکنے لگے اور کچھ لڑکوں نے حیرت میں آکر اپنے منہ جو کھولے پھر کھلے ہی چھوڑ دیے۔ دوشیزہ کی بھدّی آواز ہُو! ہا! کی محفل کو گہنا گئی۔موبائل سروس کی طرف سے پیش کیا جانے والایہ اشتہار بہت سارے قارئین نے ٹی وی پر ضروردیکھا ہوگا۔
آج کل پیپلز پارٹی کے ترجمانوں کی طرف سے ایسے ہی اشتہارات ٹی وی پر پیش کیے جارہے ہیں اور سننے والوں کی سمع خراشی کا باعث بن رہے ہیں۔فرحت اﷲبابرصاحب ہوں یا جناب بابر اعوان دونوں کے نام کے ساتھ ’شیر‘ لگا ہُوا ہے اور شیر جب دہاڑتا ہے پھر وہاں آدمی کہاں ٹھہرپاتا ہے۔فوزیہ وہاب صاحبہ کو دیکھ کر جی نے کہا کہ اِن کی باتیں سننے میں مزہ آئے گا لیکن میرا خیال غلط نکلا۔ فوزیہ صاحبہ سے جو سوالات کیے جاتے تھے وہ اُن سوالوں کا جواب دینے کے بجائے خود سوال کر بیٹھتی تھیں۔ پچھلی شب وزیرآعلیٰ سندھ کی مشیر محترمہ شرمیلا فاروقی صاحبہ نے بھی بے تکی باتیں کرکے اور آم کے جواب میں املی کہہ کراپنے قدکاٹھ کا بھرم کھول دیا ہے۔مشرف گورنمنٹ کا حوالہ دے کر موصوفہ سے پوچھاگیا کہ اُس وقت اتنی مہنگائی نہیں تھی جتنی اب ہے اور پاکستانی کرنسی کا معیار بھی اتنا پست نہ تھا جتنا اب ہوچکاہے۔ٹی وی اینکر نے سوال کیا کہ بڑھتی ہُوئی مہنگائی اور پاکستانی روپے کی گراوٹ کے حوالے سے وہ کیا کہنا چاہینگی۔شرمیلا صاحبہ نے فرمایا کہ محترمہ بے نظیر مرحومہ کے دَورِ حکومت میں مشرّف دَور کے مقابلے میں اَشیا زیادہ سستی تھیں۔مشرّف صاحب کی نمائندگی کرنے والے چودھری فواد صاحب نے شرمیلا جی سے پوچھاکہ ڈالر کے ساتھ ساتھ چینی آٹا دال اور اناج کی بڑھتی ہُوئی قیمت پر اُن کا کیا تبصرہ ہے۔موصوفہ اِس سوال کا جواب دینے کے بجائے فوّاد صاحب سے پوچھنے لگیں کہ امریکہ نے مشرّف کو جو پندرہ ملین ڈالر دیے تھے وہ کہاں گئے۔یہ کیسا عجیب سوال تھا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت ایک طرف مشرّف کو تمام تر خرابیوں کا ذمہ دار سمجھتی ہے اور دُوسری طرف انھیں گارڈ آف آنر دے کر ملک سے باہربھیج دیتی ہے۔ساتھ ہی اُن کے تحفّظ کا بھی اہتمام کرتی ہے۔سکاٹ لینڈ یارڈ جیسی بھاری سیکیو ریٹی نے مشرف صاحب کی رکھوالی کے عوض حکومت پاکستان سے اب تک کروڑوں روپے وصول کیے ہیں۔
تصدیق کے لیے The Sunday times کی یہ ایک خبر ملاحظہ کیجیے:
Adam Fresco, Crime Correspondent
Pervez Musharraf, the former President of Pakistan who is living in London, is being protected by Scotland Yard at a cost to taxpayers of approximately £25,000 a day.
The Metropolitan Police Specialist Protection Unit, known as SO1, has assigned a round-the-clock team of at least ten men and women to protect Mr Musharraf, who lives in a three-bedroom flat in West London.شرمیلا بی بی سے امن وامان کے حوالے سے جب سوال کیا گیا تو محترمہ نے کہا کہ لال مسجد میں محصور ہزاروں بچّے اور خواتین کو جب مشرّف نے قتل کروایا تب آپ کیوں خاموش رہے۔اکبر بکتی کاقاتل ملک سے بھاگ نکلا اور آپ اپنا انگوٹھا اپنے منہ میں دبائے کھڑے رہے۔شرمیلا سے جب انصاف فراہم کرنے کی بات کی گئی تب اُن کا ارشاد ہُوا کہ ججوں کو بند کرنے والوں سے تو کوئی نہیں پوچھتا ہے اور ہم سے انصاف کی بات کی جاتی ہے۔الغرض ایسی ہی بے تکی باتیں تھیں جو وہ بکے چلی جارہی تھیں چنانچہ مَیں نے چینل تبدیل لینا ہی مناسب سمجھا۔محترمہ کے لیے ایک شاعر نے بہت خوب کہا ہے: رکھناہے پاوں یہاں تو رکھّو ہو وہاں……..تمہیں چلنا ذرا کیا آیا ہے ‘ تم اترائے چلو ہو۔