URDUSKY || NETWORK

پاکستان میں کرپشن

147

تحریر: منیب اشفاق
کرپشن ایک ایسا ناسور ہے جو کسی بھی ملک کے انتظامی ڈھانچے کو دیمک کی طرح چاٹ جاتاہے اور اس ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ اور نتیجہ با لاآخر تباہ کن ہی ہوتاہے ۔بد قسمتی سے کرپشن ہمارے ملک میںایک خوفناک عفریت کی شکل اختیار کر چکا ہے اور یہ ایک حقیقت بن چکی ہے جسے اب جھٹلایا نہیں جا سکتا ہے۔ کرپشن کا یہ خطرناک زہرملک کے ہر حکومتی شعبے میں پوری طرح سرایت کر چکا ہے ۔اس نے ملک کی اقتصادی ترقی پر انتہائی برے اثرات مرتب کئے ہیں۔کرپشن کی بہت سی اقسام ہیں مثلاََ سیاسی کرپشن ،معاشی کرپشن ، رشوت، اقربا پروری اور سرکاری اختیارات کا ناجائز استعمال بھی کرپشن کے زمرے میںآتا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق وہ محکمے جو کرپشن کے فروغ میں اپنا اہم کردار ادا کر رہے ہیں ان میںپولیس، نیشنل ہائی وے اتھارٹی ،پاکستان ہاﺅسنگ اتھارٹی ،واپڈا ،پیپکو،پاکستان سٹیل ،ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان ،نیسپاک،منسٹری آف واٹر اینڈ پاور اور سیکورٹی ایکسچینج کمیشن کے ادارے شامل ہیں۔نام نہاد سیاست دان ابھی اس کو فروغ دینے میں مصروف عمل ہیں یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کرپٹ ترین ممالک میں پاکستان47 ویںنمبر سے ترقی کرکے42 ویں نمبر پرآگیا ہے جو کہ پاکستان کی عوام کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔ ان کا ٹیکس جو وہ اپنے خون پسینے کی کمائی سے ادا کرتے ہیں اس کا زیادہ حصہ عوام کی فلاح و بہبودکی بجائے سیاستدانوں اور سرکاری اہلکاروں کے نجی خزانوں میں جاتاہے ۔ اور نوکری اور ترقیاں حقداروں کو بجائے میرٹ پر دینے کے اپنے عزیز و اقارب اور دوست احباب میں تقسیم کر دیں جاتی ہیں۔ رشوت نے ایک باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کر لی ہے۔عوام کے اذہان میں،ہر ان ہر وہ کام جو کسی سرکاری ادارے سے متعلقہ ہو، رشوت دے کر کروانے کا تصورراسخ ہوچکا ہے ۔نیز وہ وقت کے ضیاع سے بچنے کے لیے اپنے جائز کام کروانے کے لیے بھی بخوشی رشوت دینا پسند کرتے ہیںرشوت نہ دینے پر کام نہیں کیا جاتا یا پھر لیت و لعل سے کا م لے کر تنگ کیا جاتا ہے۔اس میںنہ صرف ملازمین کانچلہ طبقہ شامل ہے بلکہ افسران بالا اپنا پورا پورا حصہ وصول کرتے ہیں۔ بڑے بڑے سیاستدان جو ملک وعوام سے اپنی وفاداری اور اپنی حب الوطنی کا یقین دلاتے ہوئے تھکتے نہیں اور بیرونی دوروں میں ترقی یافتہ ممالک سے ان کا سرمایہ پاکستان میں لگانے درخواسٹ کرتے ہیں ان سب سیاستدانوں کے سرمائے باہر کے بینکوں میں پڑے ہیں۔
” ورلڈ اکنامک فورم "کی 2007-08 میں شائع ہونے والی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والی ملکی و غیر ملکی کاروباری کمپنیاں کرپشن کے حوالے سے اپنے شدید تحفظات رکھتی ہیںاور اسے اپنا تیسرا بڑا مسئلہ تصور کرتی ہیں۔تقریباََ 40 فیصد کاروباری کمپنیاں اسے ایک بہت بڑا مسئلہ قرار دیتی ہیں۔” ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل گلوبل کرپشن بیرو میٹر” کی 2007 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کرپشن سے شدیدترین متاثر ممالک میں شامل ہے اور سروے میں شامل44 فیصد زائد لوگوں نے کہا کہ وہ اپنے کسی جائز کام کے سلسلے میںسرکاری محکمہ میں رشوت اداکر چکے ہیں۔ اس کے حالیہ سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان میںپچھلے تین سالوں میں کرپشن میں 400% اضافہ ہو چکا ہے۔مختلف حلقے خیال کرتے ہیں کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ایک ایسا ادارہ ہے جو مختلف لابیز کی سپورٹ سے مختلف ممالک کی حکومتوں کو غیر مستحکم اور ان کا امیج عالمی دنیا میں مسخ کرنے کا کام کرتی ہے لیکن یہ غیر جانبدار ادارہ ہے جو کہ ورلڈ بنک ،ورلڈ اکنامک فورم اور دوسرے کئی اداروں کی معاونت سے ایک موضوع پر سے 6سے 13تک غیر جانبدار سروے کرواتاہے اور پھر رپورٹ شائع کرتا ہے۔ ایک سینیئر اکانومسٹ کے مطابق بجٹ کا ایک چو تھائی حصہ ہر سال کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے یعنی ہر ایک سو روپے میں سے پچھہتر روپے کرپشن پر ضائع ہو جاتے ہیں۔ جبکہ” نیشنل کرپشن پرسیپشن سروے "2009 ظاہر کرتا ہے کہ6 200 میں کرپشن جو 45 بلین روپے سالانہ تھی اب 2009 میں بڑھ کر 195 بلین روپے سالانہ ہو گئی ہے۔ یعنی کہ اوسطاََ ہر خاندان 9,428/- روپے سالانہ رشوت پر خرچ ہو جاتے ہیں۔اس سروے میں پولیس، زمین و مال،صحت اور توانائی کے محکمہ جات کو ملک کے کرپٹ ترین ادارے قرار دیا گیا ہے ۔ محکمہ پولیس نے ہرسال کی طرح اپنے اعزازکا دفاع کرتے ہوئے کرپشن میں پہلی اور پاور سیکٹر نے اپنی دوسری پوزیشن برقرار کھی جبکہ عدلیہ میں اس حوالے سے بہتری آئی ہے اور وہ کرپٹ ترین اداروں کی فہرست میں تیسرے سے ساتویں نمبر پر آگئی ہے۔رپورٹ میں سول اور فوجی حکومتوں کا موازنہ ظاہر کرتاہے کہ سول حکومتوں نے فوجی حکومتوں کے مقابلے میں کرپشن کو زیادہ فروغ دیا ہے۔ موجودہ لوکل ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی کرپشن میں گذشتہ ملٹری گورنمنٹ کے جانے کے بعدتیزی آئی ہے اور اس میں 66.48% اضافہ ہو ا ہے۔آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی تازہ ترین آڈٹ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ موجودہ وفاقی حکومت کے پہلے مالی سال 2008-09 میں6کھرب 98 ارب 85کروڑکی مالی بے ضابطگیاں ہوئیں۔ایف ۔بی ۔آر میں 1کھرب 16ارب روپے،واپڈا اور پیپکومیں63ارب 56کروڑ روپے، اقتصادی امور ڈویژن میں53ارب روپے، پاکستان ریلوے میں34ارب روپے ،وزارت خزانہ میں 29ارب90کروڑ روپے ،پاکستان سٹیل مل میں22ارب 26کروڑ روپے ،و زارت تجارت میں9ارب 50کروڑروپے ،وزارت ہاﺅسنگ تعمیرات میں 5 ارب روپے سوئی سدرن میں4ارب 50 کروڑ روپے اور وزارت دفاعی پیداوار میں 4ارب 50کروڑ کی مالی بے ضابطگیاں شامل ہیں ۔ جو کہ جمہوریت پسندوں کے لئے شاید ایک اچھا شگون نہیںہے۔
کسی بھی قوم کی ترقی کا انحصار افراد کے انفرادی رویوں اور ان کے کردار منحصر پر ہوتاہے ۔انفرادی سوچ اگر تعمیری ہو تو قومی ترقی خود بخود پروان چڑھتی ہے۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ کرپشن کی وجہ بڑھتی غربت ، کمزورمعیشت اور جہالت بھی ہے لیکن بڑی وجہ قومی سوچ کا نہ ہونا ہے۔مختلف حلقوں کی طرف سے یہ تجویز دی جاتی رہی ہے کہ تنخواہوں میں اضافہ کرو تو کرپشن خود بخود ختم ہو جائے گی لیکن یہ سب مفروضات تجربات سے غلط ثابت ہو چکے ہیں۔کئی مثالیں موجود ہیں مثلاََ محکمہ پولیس اور دیگر محکمہ جات کے ملازمین کی تنخواہیں کئی فیصد بڑھانے کے باوجود بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہ کئے جاسکے۔ پاکستان میں کرپشن کی وجوہات میں ایک کمزور سول سوسائٹی کا ہونا ، سیا سی مقابلے بازی کے رجحان میں کمی ،احتساب کا ناقص نظام وغیرہ شامل ہو سکتی ہیں۔ترقی یافتہ ا قوام کی تاریخ پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو یہ بات عیاں ہے کہ انہوں نے اپنے کرپشن زدہ مجرموں کو جو ان کی ترقی میں رکاوٹ تھے ان عز ت نہیں دی بلکہ دوسروں کے لئے عبرت کا ایک نشان بنا دیا۔ہمارے ہمسایہ ملک چین میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیںوہاں بڑے بڑے وزراءکو صرف کرپشن کے الزام میں پھانسی کی سزا ہو چکی ہے۔ اس لئے وہاں کرپشن کا گراف بہت کم ہے۔ وجہ صر ف یہ ہے کہ پاکستان میں عوام اپنے حقوق کے لیے بیدارنہیں ہے ۔ساتھ ہی ساتھ ضرورت ہے تو صرف ایک ایسے نظام کی جو ان آستین کے سانپوں کا کڑا احتساب کرسکے جنہوں نے وطن عزیز ملک پاکستان کو خاکم بدہن تباہ و برباد کرنے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے۔ بقول سرسیدجو قومیں اپنے مسائل کے حل کے لئے کسی معجزہ یا کسی بیرونی نجات دہندہ کا انتظار کر تی ہیں ہمیشہ ناکام و نامراد رہتی ہیں ۔