پاکستان اپنی آنکھیں کھلی رکھے
پا ک بھارت مذاکرات ہمیشہ سے ہی بے معنی،بے فائدہ، اور سر مہری کا شکار رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ 1947ءکی غیر منصفا نہ تقسیم بر صغیر ہے ۔جس کی رو سے پاکستان کو ہر اس بنیادی چیز سے وائسرائے نے محروم کر دیا جو کہ پاکستان کا حق تھا اور تو اور اس نے تمام خوشحال صوبے، دریا،مشینری،فیکٹریاں،ریلوے اسلحہ اور باقی تمام ادارے بھی انڈیا کو اپنی غیرمنصفانہ تقسیم سے تحفے کے طور پر پیش کر دیئے ان کی وجہ سے پاکستان کو ابتدا ءمیں ہی سخت مشکلات کا سامنا کر نا پڑا ایک طرف مہاجرین کی آ مد آمد تھی تو دوسری طرف ان کی آ باد کاری اور حکومتی امور سر انجام دینے کا کٹھن مرحلہ مشکل سے مشکل تر ہو تا جا رہا تھا زیادہ ترغیر ہنر مند افراد پاکستان کی تقدیر میں لکھ دیئے گئے تھے خیر جو ہوا سو ہوالیکن1947ءسے لے کر آ ج تک انڈیا نے پاکستان کو ایک آزاد ملک اور خود مختار ریاست تسلیم نہیں کیا بلکہ پاکستان کو اپنے ملک کا ہی ایک حصہ قرار دیا ہواہے جس کو پانے کی خاطر انڈیا دو دفعہ جنگ بھی کر چکا ہے مگر کامیابی نہیں ملی اور1947ءمیں یہی انڈیا اور اس کے حکمران یہی کہتے نظر آ تے تھے کہ یہ ”تقسیم وکسیم“کچھ نہیں ”یہ تو مسلمانوں کا جنون اور پاگل پن ہے “جب مشکلات کا انبار سر پر پڑھے گا تو ہو ش ٹھکا نے آ جا ئیں گے اور چار دن میں ہی یہ پھر سے انڈیا کے ساتھ شامل ہر کر برصغیر ہی کہلا ئیں گے مگر پاکستانی عوام اور قائداعظم ؒنے ان کے یہ خواب چکنا چورکر دیئے اور پاکستانی عوام اور قا ئداعظم ؒ (جن کی زندگی نے ان سے وفا نہ کی)نے پورے جوش وجذبے سے اس ملک کی ابتدا ءکی اور ایک مکمل راہ بھی متعین فرما ئی۔
آ ج یہ ملک 63سال کا خوبصورت ،تناوراور سر سبز و شاداب درخت نظر آ رہا ہے۔ ان 63سالوں میں کئی ایک مقا ما ت پر اور کئی ایک پاک بھارت مذاکرات بھی ہوئے جن میں دو ہمسایوں کے آ پسی تعلقات ، تحفظات، پا نی کا مسئلہ، مسئلہ کشمیر ،ریاستی دہشت گردی وغیر ہ پر بات چیت ہو ئی۔ مگر آ ج تک تمام کے تما م مذاکرات بنا کسی نتیجے کے ختم ہو گئے اور سر د خانے کی نظر کر دیئے گئے۔ جب کہ حالیہ مذاکرات کی طرف دیکھیں تو ایک امید کی کر ن نظر آتی ہے یہ مذاکرات تھوڑے مختلف نظر آ تے ہیں ان میں کسی پیش رفت کا امکان نظر آ تا ہے ان مذاکرات کو فریقین نے سر خا نے کی نظر نہیں ہو نے دیا ۔بلکہ ان مذاکرات کے بعد جو جو اقدامات اور پیش رفت دونوں ملکوں میں ہو نی چا ہیئے کو اپنے اپنے ملکوں کی حکومتوں کو بتا دیا ان مذاکرات کی جان ”سیا ہ چین گلیشیر کی زندگی “موضوع بنا رہااور اس کی اہمیت اور اس کی حفا ظت اور اس کے لئے اقدامات اٹھا نا شا مل تھامذاکرات کی روسے دونوں مما لک نے اس علاقے کو ”غیر فوجی علاقہ“ کی قرار قرار دینے پر اتفاق کرتے ہوئے فوری طور پر اپنی اپنی حکومتوں کواس بارے میں آگاہ کیا اس کے ساتھ ساتھ انڈس واٹر کمیشن نے فیصلہ کیا کہ وہ آزاد ماہرین کی خدما ت حا صل کر یں گے اور اس فیصلے کے بارے میں مزید پیش رفت شاید کسی آ نے والے اجلاس میں ہو جا ئے ۔یہ تو بات تھی مذاکرات کی ۔مگر حکومت پاکستان کو اس اٹل حقیقت کو ہمیشہ یاد رکھنا ہو گا کہ انڈیا، امریکہ اور سانپ پر کبھی بھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا یہ تینوں ہی زہر قاتل بن سکتے ہیں کیو نکہ ضیا ءکے دور میں اسی سیاہ چین پر ہندو بنیئے نے قبضہ کر لیا تھا جو بعد میں بڑی مشکلات اور قربا نیوں سے واپس حا صل کیا گیا اور 1965ءکی جنگ کے واقعات کو بھی یاد رکھنا ہو گا جب رات کے اندھیرے میں انڈین گیدوڑوں نے” پاکستانی شیروں “ کو للکارہ تھا جس کے جواب میں اسے دم بھگا کے واپس جا نا پڑاتھا۔اس لئے حکومت پاکستان کو ان مذاکرات پر گہری نظر سے سو چناہو گا کہ کہیں ان مذاکرات کے بھیس میں کو ئی نیاءوار ہی نہ ہو اس لئے پاکستانی حکومت کو یہ مسئلہ افواج پاکستان اور اپنی عوام پر چھوڑ دینا چا ہیئے کہ وہ اس بارے میں کیا کہتے ہیں ۔ اور جو فیصلہ آ ئے اس کی رو سے پاکستان کی بقا ءکے لئے کو ئی فیصلہ کیا جا ئے اور امید ہے کہ افواج پاکستان اور عوام اس علاقے کو کبھی بھی خالی کر نے کا نہیں کہیں گے ۔ اور افواج پاکستان کو کبھی بھی اور کسی بھی حالات میں یہ علاقہ /یہ جگہ نہیں چھوڑ نی چا ہیئے ۔ یہ ہماری بقاءہے یہ جگہ پاکستان کی زندگی ہے