نواز شریف کی کمیشن کی تجویز، کیا کمیشن کی نظر ہوگئی!!!
نواز شریف کی کمیشن کی تجویز، کیاکمیشن کی نظر ہوگئی!!!
حکمرانو! کچھ کروکراچی کی ٹارگٹ کلنگ رضاحیدر کے بعد عبیداللہ کو بھی نِگل گئی…
آخرکب تک؟؟؟
امریکی اِنتباہ!پاکستانی سیاستدا ن نمبر بنانے کے بجائے متحدہوجائیں…؟؟
تحریر: محمداعظم عظیم اعظم
ایک طرف سارے پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں اپنے عروج پر ہیں تو دوسری طرف ملک کے سب سے بڑے تجارتی مرکزکراچی میں کچھ دنوں کے وقفے کے بعد گزشتہ دنوں ایئر پورٹ کے علاقے میں مسلح ملزمان کی جانب سے گھات لگاکر پیش آنے والے ٹارگٹ کلنگ کے ایک اور واقع میں اے این پی کے صوبائی رہنما عبیداللہ یوسف زئی اور اِن کے ساتھی سیلم اختر کی شہادت کے بعد شہرکراچی میں ایک بار پھرہنگامے پھوٹ پڑے جس کے نتیجے میں شہر بھر میں ہونے والے جلاو گھیراو اورتوڑ پھوڑ کی وارداتوں سمیت ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں مزید 15نہتے اور بے گناہ افراد شہید اور 80کے قریب زخمی ہوگئے اِس کے بعد اے این پی کی مرکزی صوبائی قیادت نے شہر میں تین دن کا پرامن یوم سوگ کا اعلان کیا ۔
اگرچہ اے این پی کی صوبائی قیادت نے پر امن یوم سوگ کا اعلان کیا مگر اِس کے باوجود بھی شہر کے بیشتر علاقوں میں مسلسل کشیدگی برقرار رہی اور شہر کراچی کے آدھے سے زیادہ حصے میں ہر قسم کامعاملات زندگی مفلوج ہوکررہ گیا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شہرکراچی میں گذشتہ کئی سالوں سے ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کو اَب تک حکومت روکنے میں بری طرح سے ناکام رہی ہے تو وہیں سیکورٹی کا کوئی بھی ادارہ شہر کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کی روک تھام اور شہر کے امن کو طویل مدت تک برقرار رکھنے کی ذمہ داری لینے کو بھی شائد تیار نہیں ہے جس کی وجہ سے شہر کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کا ہونا روزکا معمول بن چکاہے۔
یہاںمیراخیال یہ ہے کہ اگر حکومت نے اِس جانب سنجیدگی سے اقدامات نہ کئے تو اِس کی تباہ کاریوں کے اثرات ملک میں آنے والے صدی کے اِس خطرناک ترین سیلاب سے بھی کہیں زیادہ ہولناک اور عبرتناک ہو سکتے ہیں ۔لحاظ اَب ابھی وقت ہے کہ حکومت جس طرح ملک میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمتنے کے لئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کررہی ہے تو وہیں حکومت کو یہ بھی چاہئے کہ کراچی میں آئے روزہونے والے ٹارگٹ کلنگ کے واقعا ت کی روک تھام کے لئے بھی ایسے ہی اقدامات کرے تاکہ کراچی میں امن وامان کی فضا قائم ہوتو ملک بھی ترقی اور خوشخالی کی جانب ایک قدم آگے بڑھ سکے گا ورنہ اگر حکومت نے سنجیدگی سے کوئی لائحہ عمل نہ مرتب کیاتو پھر یہی کچھ ہوتارہے گا جیسا گذشتہ دنوں ہوااوراِس سے قبل 2اگست کو ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے صوبائی اسمبلی کے ممبر رضاحیدر اور اِن کے محافظوں کی ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں ہونے والی شہادتوں کے بعد شہرکراچی میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے اور تین دن بند رہنے کی وجہ سے شہر کراچی کا اربوں کا نقصان ہوا تھااور اِسی طرح اے این پی کے عبیداللہ یوسفزئی اور اِن کے ساتھی کی شہادتوں کے بعد پھر تین دن کے سوگ کے اعلان کی وجہ سے بھی اِس شہر قائد کو ایک بڑے نقصان سے دوچار ہوناپڑے گا۔
یہ ایک لمحہ فکریہ ہے اُن لوگوں کے لئے جو اقتدار کی مسند پر بیٹھے ہیں اور اُن لوگوں کے لئے بھی جو اپنے صوبوں سے ہجرت کرکے یہاں اپنے ذریعہ معاش کے لئے آئے ہیں اِن سب کو چاہئے کہ اگر وہ کراچی کو واقعی اپناگھر سمجھتے ہیں اور اِس کی ترقی اور خوشحالی کو اپنی اور ملک کی ترقی اور خوشحالی جانتے ہیں تو براہِ کرم سیاسی جماعتوں کا آلہ µ کار بننے کے بجائے اپنی بساط کے مطابق اِس شہر اور ملک کی ترقی اور خوشحالی کے خاطر یہاں کے مقامی باشندوں کے ساتھ ملک کر کام کریں اپنا حق ایک اچھے دوست کی حیثیت سے حاصل کرتے رہیں اِس ہی میں ہم سب کی بھلائی ہے اور طاقت کے یوں بیدریغ استعمال سے سوائے نقصان کے کچھ ہمارے ہاتھ نہیں آئے گا۔
جبکہ اِدھر ملک میں آنے والے صدی کے سب سے زیادہ ہولناک سیلاب کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا ایک اندازے کے مطابق تخمینہ639ارب روپے لگایاگیا اگرچہ اِس ہدف کو پوراکرنے کے لئے جہاں پوری پاکستانی قوم اِس مصیبت کی گھڑی میں متحد ومنظم ہے تو وہیں عالمی برادری بھی پاکستان اور پاکستانی قوم کو اِن کٹھن اور مشکل لمحات میں اکیلانہ چھوڑنے کا تہیہ کیئے ہوئے ہے اور وہ بھی اِس حوالے سے پاکستان کی ہرممکن مددکرنے کو ہمہ وقت تیار ہے صوبوں کے لحاظ سے سیلاب کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں اِس میں کوئی شک نہیں کہ سب سے زیادہ نقصان خیبر پختونخواہ میں 187،پنجاب میں80، سندھ میں90اور بلوچستان میں55ارب روپے کے نقصانات ہوئے ہیں اِس لحاظ سے یہ ذمہ داری موجودہ حکومت پرہی عائد ہوتی ہے کہ وہ تمام صوبوں میں ہونے والے نقصانات کو سامنے رکھتے ہوئے اِس کے ازالے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرے اور صوبوں کو اِن کے ہونے والے نقصانات اور طلب کے مطابق رقم مہیاکرے۔اور محکومتی اراکین کا سیلاب سے متاثرہ علاقوں کاہیلی کاپٹروں میں بیٹھ کر خالی دورے کرنے اور زبانی کلامی کرنے سے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا جب تک حکومت متاثرین سیلاب کی بحالی کے لئے عملی طور پر صاف وشفاف اقدامات خود سے نہ کرلے تو اُس وقت تک ملک میں سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کا ازالہ ناممکن ہوگا ۔
اگرچہ اِس حوالے سے گذشتہ دنوں ایک بار پھر ملکی کی پہلی اور دنیا کی اپنی نوعیت کی اُس انوکھی فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والی پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نوازشریف نے ملک میں آنے والے صدی کے خطرناک ترین سیلاب کی تباہ کاریوں سے ملک اور قوم کے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لئے قومی درد کو محسوس کرتے ہوئے جب وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی سے ایک ملاقات کی تھی توقوم کو قوی اُمید ہوچلی تھی کہ اِس باریہ دونوں قومی رہنمااپنے سیاسی اورذاتی اختلافات کو بالائے رکھتے ہوئے ملک اور قوم کے خاطرکسی نتیجہ خیز انجام کو ضرورپہنچیںگے اورسیلاب کی شکل میںملک میں آنے والی اِس قدرتی آفت سے دوچار قوم کو مصیبت کی گھڑی سے نکالنے میں ایک دوسرے کی معاونت کریں گے جس سیلاب نے پورے پاکستان کوجکڑ رکھاہے اور یوں ملک کے موجودہ اور سابق وزیر اعظموںکے درمیان ہونے والی اِس ملاقات کو سیاسی ،سماجی اور مذہبی حلقوں میں بھی بے حدسراہاگیا اور اُنہوں نے وزیر اعظم سید یوسف رضاگیلانی اور نوازشریف کے درمیان ہونے والی ملاقات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاںنواز شریف کی جانب سے وزیراعظم کو دی گئی اُس تجویز کو بھی ملک اور قوم کے بہتر مستقبل کے لئے حوصلہ افزاقراردیا جس کے تحت نوازشریف نے وزیراعظم کو کہاتھا کہ سیلاب زدگان کے لئے ہر لمحہ قیمتی ہے اور اِن کی بروقت اورصاف و شفاف طریقے سے مد د کے لئے ایک ایسا کمیشن کا قیام عمل میں لایاجانا بہت ضروری ہے جو ملکی اور اقوام عالم کی جانب سے رقوم اور سامان کی شکل میں آنے والی امداد کو بلاکسی رنگ و نسل اور سیاسی وابستگیوں کے اپنی زیرِ نگرانی تقسیم کو یقینی بناسکے اور میاں نواز شریف کا وزیراعظم سیدیوسف رضا گیلانی کواِس موقع پر یہ کہنا بھی سوفیصد درست تھا کہ غیر سیاسی اور غیر جانبدار افراد پر مشتمل اِس آزادکمیشن کے بغیر سیلاب زدگان کی صاف وشفاف طریقے سے مدد نہیں کی جاسکتی جس کے قیام کے لئے نواز شریف نے حکومت کودودن کی مہلت دی تھی۔اگرچہ یہ بھی درست ہے کہ دوسری جانب بعض سیاسی حلقوں اور تجزیہ نگاروں نے تو نواز شریف کی جانب سے وزیراعظم کو دی جانے والی ایک آزاد کمیشن کے قیام کی تجویز پر پہلے ہی اِس خیال کا اظہار کردیا تھا کہ ملک میں آنے والے بدترین سیلاب کی تباہ کاریوں کے متاثرہ علاقوں میں فنڈز جمع کرنے اور اِسے خرچ کرنے کے حوالے سے ملک کے انتہائی معروف اور غیر متنازع اشخاص پر مشتمل آزادکمیشن کے قیام کی میاں نواز شریف کی تجویز کوجہاں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے فوری طور پر قبول کیا تو وہیں اِس سے یہ بھی صاف اور واضح طور پر ظاہر ہو گیاہے کہ وزیر اعظم نے اپنی حکومت کی اہلیت پر کھلم کھلا عدم اعتماد کا بھی اظہار کردیاہے جس سے وزیراعظم کی اپنی شخصیت ،اہلیت اور سیاسی بصیرت خوداپنی ہی پارٹی میں سوالیہ نشان بن جائے گی ….اور پھر وہی ہواجس کا خدشہ بعد والے بعض انتہائی معتبر سیاسی حلقوں اور تجزیہ نگاروں نے ظاہرکیاتھا۔
اور افسوس کہ حکومت کی جانب سے اپنی نوعیت کی اِس انوکھی ملاقات کا بھانڈہ اُس وقت پھوٹ گیا جب وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے یقینا پارٹی مصلحتوں کا شکار ہوتے ہوئے ایک بریفنگ کے دوران واضح اور دوٹوک الفاظ میں اپنے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت وزیر اعظم سید یوسف رضاگیلانی اور نوازشریف کے درمیان ہونے والی ملاقات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف کی جانب سے دی جانے والی اُس تجویز کوجو ملک وقوم کو اِس بحران سے نکالنے میں بڑی حد تک معاون اور مددگار ہوسکتی تھی اِسے یکسر ردکردیا اور یہ موقف اختیار کیاکہ نوازشریف کی تجویز پر فوری عمل قطعاَنہیں ہوسکتا کیوں کہ صرف دورہنماو ں میں اتفاق سے کمیشن کیسے بن سکتاہے…..؟ اِن کا اِس موقع پر یہ بھی کہنا تھاکہ نوازشریف کی اِس تجویز پر عمل کرنے کے لئے صوبوں کو اعتماد میں لیناہوگا….. کائرہ کا یہ جملہ جہاں بہت سے سوالات کو جنم دے گیا تو وہیں ایک سوال یہ بھی تھا کہ جب دوحکومتی اتحادی جماعتیں ایم کیو ایم اور اے این پی جو اپنے صوبوںمیں اپنااچھا سیاسی اور سماجی اثر ورسوخ رکھتی ہیں وہ پہلے ہی آزادکمیشن کے قیام کے حق میں فیصلہ دے چکی تھیں تو پھر کائرہ کا یہ کہنا کہ تمام صوبوں کو اعتماد میں لیناہوگا کس طرح درست ہوسکتاہے ……؟؟؟؟
بہرحال! اَب جبکہ وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی نے گذشتہ جمعرات کو نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے متاثرین سیلاب میں ملکی اور غیرملکی امداد کی صاف و شفاف طریقے سے تقسیم کے کاموں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ملک کی ممتاز اور معروف اچھی شہرت کی حامل شخصیات پر مشتمل ایک قومی نگراں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کونسل کے قیام کا اعلان کرکے جہاں نوازشریف کی کمیشن کی تجویز کو ردکرکے اِنہیں حیران کردیاہے تو وہیں پوری پاکستانی قوم اور دنیا کو بھی پریشان اور ششدراور ساتھ ہی اِنہیں یہ سوچنے پر بھی مجبورکردیاکہ آخر کیا حرج تھا…..؟ کہ اگر حکومت نوازشریف کی دی گئی تجویز پر عمل کرلیتی اوراُن شخصیات پر مشتمل آزاد کمیشن بنادیتی جن پر نوازشریف نے اعتبار اور اعتماد کیاتھا تو ملک میں یقیناً ایک مثبت اور تعمیری سیاست کی ابتدا توہوجاتی ……اور اَب جب کہ حکومت نے نوازشریف کی تجویز کو ردی کی ٹوکری کے نظرکرتے ہوئے 9سے13ارکان پر مشتمل ایک قومی نگراں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کونسل کے قیام کا ابھی صرف اعلان ہی کیاہے اور اِ س کی تشکیل کے لئے صوبوں سے اچھی شہرت رکھنے والی شخصیات کے نام مانگے جارہے ہیں تو اِس کے باضابطہ قیام کو اور اِس کے فعل ہونے میں کتناوقت لگ سکتاہے …..؟؟؟؟یہ بھی وہ سوالات ہیں جن سے جہاں پاکستانی قوم پریشان ہے تو وہیں مفلوک الحال سیلاب سے متاثرین بھی اِس مخمصے اور الجھن کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں کہ حکومت ہماری مدد میں جلدبازی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے دانستہ طور پر ایسے حربے استعمال کررہی ہے کہ متاثرین سیلاب میں امداد کی تقسیم میں تاخیر ہواور پاکستانی قو م اور عالمی توجہ اِس جانب سے ذرا سی بھی ہٹے تویہ بھی اِس امداد کا وہی حشر کرے اور اِس کے ساتھ وہی گیم کھیلے جیسے ماضی میں ملک کے ایک وزیر اعظم نے ملک میں قحط کا ڈھنڈورا پیٹ کر قحط زدگان کی مدد کے لئے بیرونِ ممالک سے آنے والی امدادی رقوم کا کیا………!!!! اور ایک صدر نے اپنی حکومت میں شمالی علاقہ جات میں آنے والے ہولناک زلزلے کے بعدملک میں آنے والی عالمی امداد کے ساتھ کیاتھا۔
اور اِس کے ساتھ ہی مجھے یہ کہنے دیجئے !کہ اُدھر یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے ملک میں آنے والے صدی کے اِس ہولناک اور عبرت ناک سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھاجس سے سینکڑوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور ہزاروں انسان لقمہ اجل بن گئے ہیں اِس کے باوجود بھی یہ سب اپنی اپنی سیاسی دکانیں چمکانے اور ایک سے بڑھ کر ایک بڑے بڑے دعوے کرکے میڈیا کی زینت بننے کے سواعملی طور پر متاثرین سیلاب کی مدد کے لئے کچھ نہیں کررہے ہیں اِن کی اِس بے حسی کو دیکھتے ہوئے تب توواشنگٹن میں امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن نے بھی پاکستان کے ایک کثیرالاشاعت روزنامے کے نمائندے کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں بلاجھجک یہ کہہ کر پاکستانی سیاستدانوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہاہے کہ وہ ملک کو درپیش اِس مشکل چیلنچ کے موقع پر اپنے اپنے سیاسی فوائد حاصل کرنے اور ایک دوسرے سے نمبر بنانے کے بجائے متحد ہوکر اپنے ملک اور قوم کو اِس قدرتی آفت سے چھٹکارہ دلانے کے لئے عملی کام کرکے دکھائیں ناکہ میڈیا پر آکر بیان دینے اور تصویریں بنوانے سے نہ تو یہ مشکل ختم ہوگی اور نہ اِس مصیبت زدہ چیلنچ کا مقابلہ ہی کیاجاسکتاہے جس نے نہ صرف پاکستان کو ہلاکر رکھ دیاہے بلکہ ساری دنیا کو بھی یہ سبق دے دیاہے کہ آئندہ دنوں میں ایسی اور اِ س سے بھی کہیں زیادہ طاقتور قدرتی آفت دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ اور ترقی پزیرملک میں بھی آسکتی ہے۔