مینگو ڈپلومیسی
شہزاداقبال
مرزا غالب توکہہ گئے تھے کہ آم ہوں اور عام ہوں اور یہ کہ آم گدھے نہیں کھاتے لیکن اکیسویں صدی میں جہاں آم کے گڑھ پاکستان میں آم ،عام نہیں ،بلکہ یوں کہنا چا ہئے کہ غریب کی دسترس میں نہیں تو وہاں اب گدھوں کے ساتھ ہاتھی بھی آم کھا نے لگے ہیں اور یہ گدھے اور ہاتھی مملکت امریکہ کے وہ سیاست دان ہیں جو پاکستانی آم کے اس قدر دلدادہ ہیں کہ انہوں نے پاکستان کے ”مینگو سیکٹر “میں باقاعدہ سرمایہ کاری کرنا شروع کر دی۔
پاکستان اور افغانستان کے لئے سابق امریکی نمائندے آنجہانی رچرڈ ہالبروک آم کے انتہائی شوقین تھے اور ان کی صحت اس بات کی گواہ تھی لیکن بیچارے جلد ہی …… امریکہ کی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن بھی شاہ محمود قریشی کے ملتان اور ان کے آموں کی شوقین ہیں ،شائد یہی وجہ ہے کہ ان کے دور میں ہی ملتان میں آموں پر سرمایہ کاری کی گئی اور حال ہی میں پاکستان میں متعین امریکی سفیر ڈاکٹر کیمرون منٹراپنی زوجہ محترمہ کے ہاں ملتان گئے ،”پراسسینگ پلانٹ“ کا دورہ کیا بلکہ باغ میں جاکر کچے نہیں بلکہ پکے آم جدید طریقے سے توڑے اور مجال ہے کہ پاکستانی باغبان نے آم توڑنے پر انیں کچھ کہا ہو حالانکہ ہمارے ہاں تو کچے آم توڑنے پر ہی خون ہو جاتا ے لیکن یہاں معاملہ امریکی کا تھا ،میڈیا پر اگرچہ منٹر اور ان کی اہلیہ کو آم کھاتے نہیں دکھایا گیا وگرنہ گورے سفیر کے منہ پر آم لگا دیکھ کر بے شمار پاکستانیوں کے چہرے کھل اٹھتے ….. ویسے یہ حسرت ہی رہ جاتی کہ امریکی آم کھاتے ہیں چوستے نہیں …. چوسنے کے لئے ان کے پاس پاکستانیوں کا خو ن ہی کافی ہے ار اب جب وہ خون چوس چوس کر تھک گئے ہیں تو منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے پاکستان کے ہر قسم کے آموں پر لگی دس سالہ درآمدی پابندی ختم کر دی اور یوں پاکستانی آموں کی پہلی کھیپ صدر براک اوباما کے آبائی شہر شکاگو روانہ کر دی گئی جہاں پاکستانی بھی بڑی تعداد میں رہتے ہیں لیکن گمان غالب ہے کہ امریکی گدھے اور ہاتھی آم کھاتے ہوئے پاکستانیوں کو چڑائیں گے ضرور…. کہ دیکھو تمھیں تو اپنے ملک میں آم عام دستیاب نہیں اور ہم یہاں بیٹھ کر تمھاری سرزمین کے آم عام کھا رہے ہیں ۔
امریکہ کے ساتھ پاکستانیوں کے آم کا رشتہ تو ویسے تو بہت پرانا ہے ،قارئین کو یاد ہو گا کہ 17 اگست 1988ءکو جب امریکی ٹینکوں کا معائنہ کرنے کے بعد جنرل ضیاءالحق بہاولپور سے روانہ ہوئے تو چند منٹ بعد ہی ان کا سی ون تھرٹی جہاز ہوا میں پھٹ گیا جس کے باعث جنرل ضیاء،جنرل عبدالرحمن سمیت کئی جنرلز اور دیگر فوجی افسران سمیت امریکی سفیر بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اس حادثے کے متعلق یہی کہا گیا کہ فولادی جہاز کی تباہی کا سبب آم کی وہ پیٹیاں تھیں جو جنرل ضیاءکے طیارے میں رکھ دی گئی تھیں اب معلوم نہیں ان پیٹیوں کے آموں سے عسکری قیادت نے مستفید ہونا تھا یا اس میں سے آنجہانی امریکی سفیر کو بھی کچھ ملنا تھا لیکن یہ آ م بہرحال بہت مہنگے ثابت ہوئے۔
پاکستان نے آموں کی سفارت کاری کے لئے صرف کولمبس کے دیس کا انتخاب نہیںکیا بلکہ مشرقی بعید کے ملک جاپان میں بھی مینگو ڈپلومیسی کی اور جولائی میں ہی ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا ایک وفد ہزاروں کلو گرام آموں کے ساتھ ٹوکیو پہنچ گیا جہاں اس نے ناصرف شہنشاہ جاپان کے حضور آم پیش کئے بلکہ عمائدین سلطنت و حکومت کے ساتھ خاص خاص افراد کو بھی آم کھلائے تاکہ جاپان میں حالیہ ہولناک زلزلے کے باعث خوف کی جو فضاء طاری تھی اسے آم کے جادو سے دور کیا جا سکے اور جب وہ آم کے دیوانے ہو جائیں تو دیوانہ وار پاکستانی برآمدکندگان کو مینگو ایکسپورٹ کرنےکے آرڈر دے سکیں۔ اسے کہتے ہیں آم کے آم اٹھلیوں کے دام۔
یہ ہے مینگو ڈپلومیسی کی حالیہ ابتدائ……. اس ڈپلومیسی کی ابتداءاس حوالے سے بھی ضروری تھی کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان گزشتہ کچھ عرصے میں جس قدر اختلافات بڑھ گئے تھے اس کی تلخی دور کرنےکے لئے آم سے زیادہ اور کوئی شیریں پھل ہو ہی نہیں سکتا تھا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کا مفاداتی ٹولہ کب اور کس طرح میٹھا ہوتا ہے آنکھ اس ہولناک منظر کے بے نقاب ہونے کی منتظر ہے۔