میاں صاحب! قوم کو لیاقت علی خان کی ضرورت ہے
تحریر: سید بدر سعید ،
پنجاب اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے کی تاریخ جوں جوں قریب آتی جا رہی ہے توں توں سیاسی ماحول میں گرمی کی شدت زیادہ ہوتی نظر آ رہی ہے ۔ پنجاب حکومت کے مخالفین کا ارادہ ہے کہ وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ہونے والی ہلڑ بازی کا بھر پور جواب پنجاب اسبلی میں دیا جائے اس حوالے سے باقاعدہ پلان تیار ہو رہے ہیں اور جیالے ”بدلہ“ لینے کے لیے بےقرار نظر آ رہے ہیں جبکہ گورنر پنجاب کا کہنا ہے کہ اس قسم کی ہلڑ بازی نہ کی جائے ۔پنجاب اسمبلی کے اس بجٹ کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ پنجاب حکومت میں وزیر خزانہ سرے سے موجود ہی نہیں اور وزیر خزانہ کا چارج فی الحال وزیر اعلی میاں شہباز شریف صاحب کے پاس ہے ۔اطلاعات کے مطابق میاں شہباز شریف بذات خود بجٹ پیش کرنے کی غلطی نہیں کریں گے اور یہ اہم ”فریضہ“ کسی اور کو سونپا جائے گا لیکن اپوزیشن کی خواہش ہے کہ بجٹ میاں صاحب پیش کریں تاکہ اس کی آڑ میں پچھلاحساب بھی چکایا جا سکے ۔ دوسری طرف فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ پنجاب میں بجٹ منظور کرانے کے لیے پنجاب حکومت کے پاس اکشریت نہیں لیکن پیپلز پارٹی بجٹ منظور کرانے کے لیے پنجاب حکومت کی مدد کرے گی اور ہم ہنگامہ آرائی نہیں کریں گے ۔یہاں آ کر پیپلز پارٹی دو حصوں میں نظر آتی ہے ایک دھڑا ہنگامہ آرائی کی تیاریوں میں نظر آتا ہے اور اس حوالے سے باقاعدہ مسلم لیگ ن کو للکارا جا رہا ہے جبکہ دوسرا دھڑا میاں صاحب کو حوصلہ دیتا نظر آ رہا ہے ۔ پیپلز پارٹی کے حوالے سے ایک دلچسپ صورت حال یہ بھی ہے کہ وفاق میں شامل پیپلز پارٹی کے کچھ لوگ مفاہمت پر آمادہ نظر آتے ہیں لیکن اصل غصہ پنجاب اسمبلی کے ان سابق وزرا میں پایا جاتا ہے جنہیں کچھ عرصہ قبل میاں صاحب نے مکھن میں سے بال کی طرح نکال باہر کیا تھااور ان کی وزارتیں ختم کر دی تھیں اوریہ لوگ حکمران ڈیسک سے اپوزیشن ڈیسک پر آنے پر مجبور ہو گئے ۔ان کی اکثریت پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کی خواہش مند نظر آتی ہے ۔گذشتہ کچھ عرصہ سے ان لوگوں اور مسل لیگ (ن) کے اراکین کے درمیان ایک دوسرے پر کیچر اچھالنے کا مقابلہ چل رہا ہے ۔ان میں سے بعض نجی محفلوں میں یہ کہتے پائے جا رہے ہیں کہ پنجاب بجٹ مسلم لیگ(ن) کی مٹی پلید کرنے کا ایک اہم موقع ہے جسے ضائع کرنا بے وقوفی ہو گی ۔پیپلز پارٹی عین وقت پر کیا گیم کھیلنے کا ارادہ رکھتی ہے اس بارے میں کچھ کہنا مشکل نظر آ رہا ہے کیوں کہ ماضی میں پیپلز پارٹی آخری لمحات میں پلٹا کھا تی رہی ہے سیاسی زبان میں کہا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی اپنے پتے آخری لمحات تک بچا کر رکھنے کا فن جانتی ہے ۔ پیپلز پارٹی شاید وفاق میں اپنے تعلقات مسلم لیگ سے بہتر بنانے اور اپنی حکومت کو درپیش مشکلات دور کرنے کے لیے پنجاب میں اس نازک موقع پر مسلم لیگ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لے لیکن اصل فیصلہ مسلم لیگ (ق )کو کرنا ہے کیونکہ تخت لاہور کا اصل مقابلہ ان دو پارٹیوں کے درمیان ہے او ر جیسے ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں اسی طرح مسلم لیگ (ق) کے سرپرست یہ گوارا نہیں کریں گے کہ میاں صاحب اتنی آسانی سے بجٹ منظور کروا لیں لیکن ظاہری طور پر چوہدری برادارن اس حوالے سے کمزور نظر آتے ہیں ان کی کمر توڑنے کو ہم خیال گروپ ہی کافی تھا کہ ماروی میمن بھی اپنی پارٹی کی پالیسیوں کے خلاف کھڑی نظر آ رہی ہیں یاد رہے کہ ماروی میمن نے قومی اسمبلی میں اپنی پارٹی قیادت سے بغاوت کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کا ساتھ دیا تھا اور پارٹی عہدے داران کے منع کرنے پر کہا تھا کہ وہ عوام کے ساتھ ہیں اور عوام کی لائن پر ہیں ۔اندرونی اطلاعات کے مطابق چودہری برادارن کی آستین میں ایسے کئی سیاست دان ہیں جو اندر کھاتے میاں برادران سے ہاتھ ملا چکے ہیں اور اگلے الیکشن میں ن لیگ کی ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے یہ لوگ بجٹ کے موقع پر بھی غیر محسوس انداز میں میاں صاحب کو سپورٹ کریں گے ۔اس موقع پر ان کی ذرا سی غلطی اور چودہری برادران کی تھوڑی سی چالاکی انہیں بے نقاب کر سکتی ہے لیکن اس صورت میں ممکن ہے کہ یہ لوگ بھی ہم خیال کی طرح کھل کر سامنے آجائیں ۔یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ مسلم لیگ (ق) اندرونی اختلافات کا شکار ہے
سیاسی حلقوں میں پنجاب کے بجٹ کے حوالے سے خاصی گہما گہمی نظر آتی ہے ۔بجٹ میاں صاحب پیش کریں یا کوئی اور پیش کرے سوال یہ ہے کہ کیا یہ بجٹ عوام دوست ہو گا یا محض اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ؟ ٍمیاں شہباز شریف عوام دوست ہونے کا دعوی کرتے ہیں ویسے تو یہ دعوی ہر سیاست دان کرتا ہے لیکن اس دور حکومت میں میاں شہباز شریف نے اپنے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لیے ہنگامی دورے ، عملی اقدامات، غیر معمولی منصوبوں سمیت کرپٹ اور سست سرکاری آفسروں کو معطل کرنے کا اس سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے ۔ میاں شہباز شریف اور ان کی حکومت کس حد تک عوام دوست ہے اس کا فیصلہ موجودہ بجٹ کر دے گا ۔ میاں شہباز شریف سے صرف اتنی سی گزارش ہے کہ پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے اور عوام جتنی بری طرح غربت اور مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے اسے سامنے رکھتے ہوئے اسی بجٹ کی ضرورت ہے جو لیاقت علی خان نے پیش کیا تھا۔وہ بجٹ جسے عالمی سطح پر غریب دوست بجٹ تسلیم کیا گیا تھا ۔ میاں صاحب! قوم کو ایک اور لیاقت علی خان کی ضرورت ہے ۔کیا آپ اس قابل ہیں ؟