محبت کرنا جرم نہیں ہے لیکن ……………………
تحریر : محمد اسلم لودھی
کیا محبت کرنا جرم ہے ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر نوجوان کے ذہن میں ابھر رہا ہے جگہ جگہ اس پر تکرار جاری ہے ان کا موقف یہ ہے کہ آج جو لوگ خود کو بزرگ اور پاک با ز کہلاتے ہیں جب وہ جوان تھے انہوں نے بھی کسی نہ کسی سے محبت کی ہوگی اسی بنا پر وہ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اگر محبت کرنا واقعی جرم نہیں ہے تو محبت کرنے پر پابندیاں کیوں لگائی جاتی ہیں انہیں سرے عام رسوا کیوں کیا جاتا ہے ان کے بقول ہر نوجوان کو اپنا جیون ساتھی منتخب کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیئے – انہی خیالات کے حامل نوجوانوں نے اس مرتبہ ویلنٹائن ڈ ے کے موقع پر حجاب رکھنے کی بجائے کھل کر اپنے محبت بھرے جذبات کا اظہار کیا ہے – دوسرے لفظوں میں محبت کے شوقین نوجوانوں نے سینٹ ویلنٹائن کو اپنا گرو مان کریہ دیکھے بغیر اس کے راستے پر چلنے کا اعلان کردیا ہے کہ سلطنت روم میں نے ویلنٹائن کو خفیہ طور پر شادی کرنے کے جرم میں سزائے موت دی تھی دوران قید اسے جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی تو جیلر کی بیٹی بھی اس بات کو فراموش کرکے ویلنٹائن پر مرمٹی کہ کچھ ہی عرصے بعد ویلنٹائن کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا لیکن ویلنٹائن کے لئے جو دن پھانسی کے لئے مخصوص کیاگیا تھا اس دن ویلنٹائن نے آخری خواہش کو پورا کرتے ہوئے بات کو آگے بڑھانے سے پہلے میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ محبت وہ لطیف اور پاکیز ہ جذبہ ہے جس کے بغیر خود انسان بھی مکمل نہیں ہے رب العزت جو خالق کائنات بھی ہے اور روز جزا کا مالک بھی- اپنے حبیب نبی کریم ﷺ سے قرآن پاک میں بارہا مرتبہ اپنی محبت کا اظہار کرتا ہوا اس پاکیزہ جذبے کو تقویت بخشتا ہے -وہی پروردگار ایک خالق کی حیثیت سے اپنی مخلوق سے ستر ماﺅں جتنا پیار کرنے کا دعوی بھی کرتا ہے تو یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ محبت کرنا ہرگز جرم نہیں ہے بلکہ محبت کا جو انداز ہماری نوجوان نسل نے دور حاضر میں اپنا رکھا ہے وہ غلط ہے –
درحقیقت محبت وہ لطیف جذبہ ہے جو پیدا کیا نہیں جاتا بلکہ خود بخود ہوجاتا ہے اب محبت کی بھی دو صورتیں سامنے آتی ہیں ایک محبت وہ ہے جو ہم اپنے والدین بہن بھائیوں ‘ چچا تایاﺅں سے کرتے ہیں دوسری محبت کی حقدار ہر وہ خوبصورت چہرہ ہے جو آنکھوں کے راستے دل میں اتر کر مدتوں اپنی اہمیت کا احساس دلاتا ہے – جو شخص یہ کہتا ہے کہ اس نے کبھی کسی کو محبت نہیںکی میری دانسیت وہ جھوٹ بولتا ہے کیونکہ تخلیق آدم کے ساتھ ہی اللہ تعالی نے مکمل اختیارات دے کر شیطان کو بھی اس دنیا میں بھیج دیا گیا ہے اورقیامت کے دن تک وہ انسان کو کسی نہ کسی صورت میں ورغلاتا رہے گا -عورتوں کی کشش مردوں کے لئے اور مردوں کی کشش عورتوں کے لئے انسانی ذہنوں میں محفوظ کردی گئی ہے حالانکہ دنیا کی سب سے پہلی خاتون حضر ت اماں ہوا علیہ السلام حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے ہی پیدا ہوئی تھیں اس لئے خود انہوںنے بھی یہ فرمایا پروردگار یہ کونسی مخلوق آپ نے میرے جسم سے پیدا کی ہے جس کی کشش اور محبت میں اپنے دل میں محسوس کررہا ہوں اللہ تعالی نے فرمایا یہی وہ محبت ہے جو میں آپ دونوں میں ہمیشہ کے لئے ودیعت کردی ہے اب جاﺅ زمین پر اور نسل انسانی کی ترویج کا باعث بنو-
اس لئے اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ مرد کو عورت کی راغب نہیں ہونا چاہیئے تو وہ انسانی فطری جذبوں کی نفی کرتا ہے جو فطرت نے انسان کے دل و دماغ میں پیدا کررکھاہے محبت اندھی بھی ہوتی ہے اور پاگل بھی کردیتی ہے –
یہ الگ بات ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری محبتوں کے دھارے مقدس رشتوں کی بجائے کسی اور طرف بہنے لگتے ہیں – لیکن اس کو بھی غلط قرار نہیں دیا جاسکتا – از ل سے ابد تک محبت اور پیار کا سلسلہ کسی نہ کسی صورت میں جاری و ساری رہے گا لیکن اسے بیہودگی اور بے حیائی کی حدیں نہیں پھلانگنی چاہیئں- کیونکہ معاملہ وہیں خراب ہوتا ہے جب محبت بھرے جذبات پر شیطان بھی غالب آجاتاہے اور بیخودی اور نادانی میں انسان وہ کچھ کرگزرتا ہے جس کی اس توقع نہیں کی جاسکتی –
جس طرح جذبات میں آکر بلی انسان کا چہرہ نوچ لیتی ہے اسی طرح عاشق بھی محبوب کو حاصل کرنے کے لئے ننگی تلوار پر پاﺅں رکھ کر نتائج سے بے خبر ہوکر آگ میں کود جاتا ہے اور جس سے محبت ہوتی ہے اسے ہی دنیا کا آخری کنارہ تصور کرنے لگتا ہے اور راستے کی ہر دیوار کو گرا دینا چاہتا ہے –
اس لمحے مجھے وہ نوجوان یاد آرہا ہے جس کو ایک شہزادی سے محبت ہوگئی تھی حالانکہ شہزادی اسے پیار نہیں کرتی تھی بھربھی دل رکھنے کی خاطر اس نے یہ شرط لگادی کہ اظہار محبت کے طور پر گلاب کا پھول پیش کرے گا تو وہ اس سے شادی کرنے پر رضامند ہوجائے گی -وہ نوجوان شہزادی کو حاصل کرنے کے لئے گھر سے گلاب ڈھونڈے نکلتا ہے اس مقصد کے لئے وہ ہر گلاب کے ہر پودے کے پاس پھول کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے لیکن کسی بھی پودے پر اسے گلاب کا پھول دکھائی نہیں دیتا وہ مایوس ہو کر اپنے گھرکی اس کھڑکی میں آبیٹھتا ہے جو باغیچے کی جانب کھلتی تھی ایک بلبل اس نوجوان کی بے بسی پر دل گرفتہ ہوتی ہے وہ اس نوجوان سے ا
س کی درد بھری داستان سن کر اسے کہتی ہے کہ جس موسم میں تم گلاب ڈھونڈتے پھر رہے ہو یہ گلاب کا موسم نہیں ہے گلاب کے پھول موسم بہار میں کھلتے ہیں اس مقصد کے لئے تمہیں موسم بہار کا انتظار کرنا پڑے گا نوجوان انتہائی افسردہ لہجے میں بلبل کو کہتا ہے کہ موسم بہار کا میں انتظار نہیں کرسکتا میں جس شہزادی سے محبت کرتا ہوں اس نے مجھ سے گلاب کے پھول کی فرمائش کی ہے اگر میں فرمائش پوری نہ کرسکا تو وہ کسی اور کی ہوجائے گی ا گر ایسا ہوا تو زندہ نہیں رہ سکوں گا – بلبل اس کی غم بھری
داستان سن کر کہتی ہے میں تمہارے لئے کوشش کرتی ہوں اگر کسی پودے نے حامی بھر لی تو پھر وہ بلبل باغیچے میں آکر ہر گلاب کے پودے کے پاس جاتی ہے منت
سماجت کرتی ہے لیکن تمام پودے اسے یہی کہتے ہیں کہ گلاب کے پھول تو صرف موسم بہار ہیں ہی کھلتے ہیں اس سے پہلے ہم تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتے پودوں کا جواب سن کر بلبل سخت مایوس ہوتی ہے وہ پریشان حالت میں ایک ٹہنی پر بیٹھی ہوتی ہے کہ ایک پودے سے اس کی پریشانی دیکھی نہیں جاتی وہ بلبل سے کہتا ہے کہ میں تمہیں ایک شرط پر گلاب کا پھول دے سکتا ہوں اگر تم اپنا جگر میرے کانٹے پر رکھ کر موسم بہار کا گیت گاﺅ جیسے جیسے تمہارے جسم کا خون اس کانٹے کے ذریعے پودے میں منتقل ہوتا جائے گا اسی طرح گلاب کا پھول کھلتا چلا جائے گا اس طرح تمہاری موت بھی واقع ہوسکتی ہے –
بلبل چونکہ ہر صورت اس نوجوان کی مدد کرنا چاہتی ہے اس لئے اس نے پودے کے کانٹے پر اپنا جگر رکھ کر موسم بہار کا گیت گانا شروع کردیا جوں جوں وہ گیت گاتی رہی اسی طرح کانٹا بھی بلبل کے جگر میں پیوست ہوتا رہا حتی کہ جسم کا سارا پودے میں منتقل ہو گیا تو پودے کی ایک ٹہنی پر گلاب کا پھول کھل گیا لیکن اس لمحے بلبل اس پودے کے قریب ہی مردہ حالت میں گر پڑی – اچانک کھڑکی میں بیٹھے ہوئے نوجوان نے دیکھا تو اسے باغیچے میں گلاب کا ایک پھول کھلا ہوا نظر آیا وہ دوڑتا ہوا آیا اور پھول توڑ کر شہزادی کے محل میں پہنچ گیا- اسے اس کی محبت کے لئے جان قربان کرنے والی مردہ بلبل نظر نہ آئی –
وہ پھول لے کر محل میں پہنچا تو شہزادی کسی اور کی بانہوں میں جھوم رہی تھی نوجوان ہمت کرکے آگے بڑھتا ہے اور شہزادی کو پھول پیش کرتا ہے لیکن شہزادی یہ کہتے ہوئے پھول اسے واپس کر دیتی ہے کہ تم نے آنے میں تاخیر کردی ہے گویا جس خود غرضی کا مظاہر ہ وہ نوجوان جان قربان کرنے والی بلبل سے کرتا ہے اسی خود غرضی کاسامنا اسے شہزادی کی جانب سے کرنا پڑتا ہے –
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آج کے نوجوان ایک نہیں درجن بھر لڑکیوں کے ساتھ محبت کرنے کے جتن کرتے ہیں پہلے وقتوں میں اگر کسی کو لڑکی سے محبت ہوجاتی تھی تو وہ سب کی نظروں سے بچ کر کسی بچے کے ذریعے اپنی محبت کا اظہار اپنی محبوبہ تک پہنچاتا تھا اور محبوبہ کو بھی اپنے عاشق تک پیغام پہنچانے کے لئے کسی کبوتر کا سہارا لینا پڑتا تھا کچھ نوجوان محبوبہ کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بھی پوری عمر کھڑکی کھلنے کے انتظار میں گزار دیتے تھے اور پورے محلے میں بدنام بھی ہوجاتے تھے لیکن جیسے جیسے زمانہ ترقی کرتا جارہا ہے محبت کرنے اور اس کا اظہار کرنے کے طریقے بھی تبدیل ہوتے جارہے ہیں اب کسی نوجوان کو کھڑکی کھلنے کا انتظار نہیں کرنا پڑتا اور نہ کسی کا پیچھا کرنے کی نوبت آتی ہے – موبائل نے ہر گھر کی چار دیواری کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے کوئی وقت تھا کہ گھروں میں لڑکیوں کو فون اٹھانے کی اجازت نہیں تھی لیکن آج کے زمانے میں ہر لڑکی اور ہر لڑکے کے پاس ایک نہیں دو دو موبائل فون دیکھے جاسکتے ہیں اور وہ بغیر کسی روک ٹوک کے کئی کئی گھنٹے اپنے چاہنے والوں سے دل کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں – کالج ہو یا پارک ‘ دفتر ہو یا کوئی سڑک ہر جگہ ہر لمحے محبت کرنے والے بے چین اور بے سکون دکھائی دیتے ہیں –
موبائل کمپنیوں نے سستے پیکج متعارف کرواکے راتوں کی نیند بھی حرام کردی ہے ساری ساری رات لڑکیوں اپنے عاشقوں سے باتیں کرتی گزار دیتی ہیں اور لڑکے بھی سورج طلو ہونے تک موبائل پر من پسند لڑکیوں سے باتیں کرنا گنا ہ نہیں سمجھتے – لیکن یہ بات میرے لئے حیران کن ہے کہ صبح سے رات گئے تک خود کو بے چین رکھنے والے نوجوان سیر کے دوران بھی موبائل سے جان نہیں چھڑواتے اور کانوں سے لگا کر مسلسل باتیں کرتے نظر آتے ہیں – یہ دیکھ کر مجھے پاکستانی قوم کے نوجوانوں کا مستقبل بہت تاریک دکھائی دیتا ہے کیونکہ اس وقت دنیا میں پچاس کروڑ انسان ایسے ہیں جو قوت سماعت سے محروم ہوکر معاشرے سے کٹ چکے ہیں جدید ٹیکنالوجی اور سائنسی ترقی کے باوجود بہرہ پن کا کوئی علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوا جو لوگ اس منحوس مرض میں مبتلا ہیں ان سے اس مرض کی سنگینی کے بارے میں پوچھا جاسکتا ہے لیکن ہمارے نوجوان جس قدر موبائل فون کرنے اور سننے کے جنون میں مبتلا ہوچکے ہیں اسے دیکھتے ہوئے یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ وہ دن زیادہ دور نہیں ہے جب ہماری نوجوان نسل کا ہر چوتھا پانچواں کانوں کے امراض کا شکا ر نظر آئے گا -اس میں شک نہیں کہ قدرت نے ہر انسانی اعضا کو استعمال کی ایک حد رکھی ہے جب کوئی اس حد کو عبور کرتا ہے تو وہ اعضا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور دنیا کی کوئی دوائی اس انسانی اعضا کو اپنی پرانی شکل میں واپس نہیں لا سکتی –
یہی حال انٹرنٹ کا بھی ہے جن نوجوان لوگوں کو انٹرنٹ کی سہولت حاصل ہے وہ اسے ریسرچ اور مفید مقاصد کی بجائے صرف اور صرف اظہار محبت اور چیٹنگ کے لئے استعمال کرتے ہیں پہلے ایک گاﺅں کا لڑکا اپنے گاﺅں کی لڑکی سے ہی محبت کرنے کی جستجو کرتا تھا اس کی دنیا صرف اپنا گاﺅں ہی ہوا کرتا تھا -لیکن جب سے انٹرنٹ نے پوری دنیا کو ایک گاﺅں کی شکل دے دی ہے اب پاکستان میں بیٹھ کر دنیا بھر کی لڑکیوں کو اپنے دام میں پھانسنا مشکل دکھائی نہیں دیتا اور یہی عالم دنیا بھر کی لڑکیوں
کا ہے جو اپنے ہی گھر یا کسی نٹ کیفے میں بیٹھ کر ساری دنیا کے نوجوانوں کو اپنا ہم راز بنا لیتی ہیں اور نتائج سے بغیر اپنی عصمت اور عزت سمیت سب کچھ گنوا بیٹھتی ہیں –
نوجوانوں کو بے راہ روی کا شکار کرنے میں ڈش ‘ ٹی وی کیبل بھی کسی سے پیچھے دکھائی نہیں دیتا -یہ وہ دور ہے جس میں ہر گھر میں ڈش یا کیبل کی سہولت موجود ہے کیبل پر دکھانے والی فلموں اس قدر بیہودہ اور لچر پن سے آراستہ ہوتی ہیں کہ ہر پانچ دس منٹ بعد بوس و کنار کا ایک سین دکھا دیا جاتا ہے یہ حال صرف انگلش فلموں کا نہیں بلکہ اب انڈین فلمیں بھی اسی ڈگر پر چلتی ہوئی پاکستانی نوجوانوں کے ذہنوں کو آلودہ کرتی چلی جارہی ہیں -کوئی روکنے اور ٹوکنے والا نہیں ہے ہر شخص پرویز مشرف کی روشن خیالی سے اپنا ایمان خراب کرتا پھر رہا ہے –
درحقیقت سچی محبت کرنا بہت مشکل کام ہے یہ ہو تو جاتی ہے لیکن اس کے میعار پر پورا اترنا انتہائی مشکل ہے اگر آج سب لوگ سینکڑوں سال بعد بھی ہیر رانجھا کو فخریہ انداز میں یاد کرتے ہیں اور ان کی داستان محبت لہک لہک کر پڑھتے ہیں تو اس بات پر غور نہیں کرتے کہ رانجھا نے ہیر کو حاصل کرنے کے لئے بارہ سال بھینسیں چرائی تھیں تب کہیں جاکر اسے ہیر ملی تھی فرہاد کو بھی شریں حاصل کرنے کے لئے کئی سالوں تک نہر کھودنی پڑی تھی تب شریں اس کے نام سے منسوب ہوئی لیلی کو حاصل کرنے کے لئے بھی مجنوں سالہاسال تک ریگستان کی تپتی ہوئی ریت پر ننگے پاﺅں پھرتا رہا لیلی پھر بھی اس کی نہ ہوسکی – سوہنی کو ٹھاٹھیں مارتا ہوئے دریائے چناب کو رات کے اندھیروں میں کچے گڑھے پر عبور کرنا پڑتا تھا تب کہیں جا کر مہینوال سے ملاقات ہوتی تھی –
لیکن آج کا نوجوان خود کو رانجھا ‘ فرہاد اور مجنوں تو تصور کرتا ہے اور یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کی محبت بھر ی داستان ہمیشہ کے لئے امر ہوجائے لیکن وہ یہ سب کچھ موبائل کے ایس ایم ایس اور انٹرنٹ چیٹنگ سے کرنا چاہتا ہے اس میں یہ ہمت نہیں کہ وہ بھی فرہا د کی طرح کہیں نہر کھود دے ‘ اس میں طاقت نہیں کہ وہ بھی رانجھے کی طرح بارہ سال تک محبوبہ کی بھینسیں چراتے رہے ‘ وہ تو چاہتا ہے کہ وہ اس کی محبوبہ باغ کے کسی گوشے میں چھپ کر بیٹھے ہوں دنیا سے بے نیاز باتوں میں رات گزار دیں –
یہی حال لڑکیوں کا بھی ہے ہر لڑکی کی آنکھوں میں کوئی نہ کوئی سمایا ہوتا ہے اور جس لڑکی کی جانب کو ئی لڑکا راغب نہیں ہوتا ہے و ہ نہ صرف خود کو بدقسمتی تصور کرتی ہے بلکہ احساس کمتری کاشکار رہتی ہے سہیلیوں یہ کہتے ہوئے اسے تنگ کرتی ہیں کہ تمہیں چاہنے والا کوئی نہیں – گزشتہ دنوں میں ایک میگزین پڑھ رہا تھا جس میں ڈیرہ غازی خاں کی ایک لڑکی نے سوال کیا کہ مجھے ٹی وی اداکار سے محبت ہوگئی ہے میں اس سے شادی کرنا چاہتی ہوں لیکن یہ شادی کیسے ہوسکتی ہے کہ اداکار نے مجھے دیکھا ہی نہیں آپ کوئی راستہ بتائیں – جواب دینے والے نے لکھا کہ بدقسمتی سے آج کی لڑکیاں فلمی اور ٹی وی ادارکاروں کی یک طرفہ محبت کا شکار ہوجاتی ہیں لیکن ایسی محبتیں خیالی پلاﺅ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں -بہتر یہی ہے کہ کسی اداکار کی تصویر اپنی آنکھوں میں بسانے کی بجائے اپنے خاندان یا شہر میں شادی کا انتظار کریں – ہمارا معاشرتی ماحول جس قدر تیزی سے اپنی قدریں بدل رہا ہے اس میں شادی تو محض ایک رسم بن کے رہ گئی ہے لڑکی اور لڑکے کی پاک دامنی اس سے بڑا مذاق بن چکی ہے یہی وجہ ہے کہ ریت پر خاندان کی مضبوط عمارت کھڑی نہیں کی جاسکتی -اور شادی کے چند مہینوں بعد ہی رشتوں کی بربادی اور اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور نوبت طلاقوں تک پہنچ جاتی ہے –
حقیقت تو یہ ہے کہ محبت صرف ایک لڑکی سے کی جاسکتی ہے بہت ساری لڑکیوں سے محبت نہیں کہلاتی بلکہ اسے بے راہ روی کہاجاتا ہے لیکن آج کے نوجوانوں کے پاس ایک محبت کرنے کا وقت ہی نہیں ہے وہ تو ہر گلی کوچے میں محبت کی نئی سے نئی داستان رقم کرتے دکھائی دیتے ہیں حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ میرے ساتھ ایک نوجوان گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ میری معاونت کرتا ہے اس دوران اس کو بارہا مرتبہ مس کالیں اور ایس ایم ایس موصول ہوتے ہیں ایک دن میں نے موبائل پکڑ کر دیکھا تو اس پر لڑکی کا ناملکھا ہوا تھا میں نے پوچھا کہ لڑکی کون ہے اس نے بتا کر مجھے حیران کر دیا کہ یہ ایک شادی شدہ لڑکی ہے جو کراچی میں رہتی ہے شادی کے باوجود وہ مجھ سے محبت کرتی ہے اور میں بھی اسے محبت کرتا ہوں دن ہو یا رات وہ مجھ سے پیار بھری باتیں کرتی رہتی ہے میں نے پوچھا اس سے حاصل کیا ہوتا ہے اگر وہ کنواری ہوتی تو تم اس سے شادی کرسکتے تھے لیکن پہلے سے شادی شدہ عورت کے ساتھ معاشقہ بظاہر کوئی فائدہ دکھائی نہیں دیتا – اس نے کہا کہ محبت شادی سے پہلے ہو یا بعد اس کا لطف ہی بہت ہے –
اس کی یہ بات سن کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ کنوارے تو ایسا کرنے میں شاید حق بجانب تصور کیا جاسکتا ہے کہ صنف نازک کی کشش ان کو اپنی جانب راغب کرتی ہے لیکن جن کو شادی کے بعداپنے گھر اور خاندان کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کے بجائے دوسری لڑکیوں اور لڑکوں سے معاشقے کرنے کی اجازت نہ تو ہمارا دین دیتا
ہے اور نہ ہی ملکی قانون اس کا متحمل ہوسکتا ہے –
یوں تو ہمای نوجوان نسل محبت کا اظہار کرنے میں بارہ مہینے ہی مصروف دکھائی دیتی ہے لیکن اس مرتبہ ویلنٹائن ڈے کے موقع پر نوجوان نسل کی جانب سے جس جوش و
خروش کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا ہے اسے دیکھ کر تو ہاتھ کانوں سے لگانے کو جی چاہتا ہے – کئی دن پہلے سے ہی ان دن کو منانے کی تیاریاں زور پر تھیں موبائل فون پر اس کا ذریعہ بن ہی رہے تھے لیکن پارکوں ‘ باغوں بڑ ے بڑے ہوٹلوں اور کالجوں میں بھی اس مرتبہ ویلنٹائن ڈے منانے کا اہتمام کیا گیا گلاب کے پھول دکانوں پر ختم ہوگئے اور بعض جگہوں پر انتہائی مہنگے داموں چوری چھپے فروخت بھی ہوتے رہے اخبارات میں پیغام رسانی کے ساتھ ساتھ ٹی وی پر اظہار محبت کی سلائیڈنگ چلتی نظر آئیں اور ہر کوئی اینے اپنے محبوب کو مشق سخن بنا رہا تھا -یہ سب کچھ دیکھ کر میں حیرت میں ڈوب گیا کہ پہلے کسی کو I Love u کہتے ہوئے ڈر لگتا تھا کہ کسی نے دیکھ لیا یا سن لیا تو بے عزتی ہوگی لیکن جب سے میڈیا نے بھی اظہار محبت کے لئے اپنے صفحات اور اپنی سکرین نوجوان نسل کو فراہم کردی ہے تو روکنے والا کون رہ گیا ہے جو بھی شخص نوجوانوں کو محبت کرنے سے روکے گا وہ محبت کا مجرم کہلائے گا – اس لمحے میں صرف یہی کہوں گا
کہ میرے وطن کے نوجوانوں محبت کرنا ہرگز جرم نہیں ہے لیکن کسی ایک سے کرو پورے پنڈ سے محبت کرنے کا ٹھیکہ لے لینا محبت نہیں واقعی جرم ہے اور یہ جرم معاشرے میں بے حیائی اور بے راہ روی کو جنم دیتا ہے آج اگر تم کسی کی بہن سے اظہار محبت کرو گے تو کل تمہاری بہن سے بھی کوئی نہ کوئی محبت کرنے والا پیدا ہوجائے گا پھر کیا ہوگا –