مجھے بننے میں لگیں گے ہزاروں سا ل
مجھے بننے میں لگیں گے ہزاروں سا ل
مجھے بننے میں لگیں گے ہزاروں سا لشمشیرحق ۔۔محمدوجیہہ السمائمیں 63سال کا ایک خوبصورت اور تناوردرخت ہوں میری 17کڑور سے زیادہ شا خیں ہیں ۔ 5صوبے ہیں جن میں ہر کسی کے دل میں میرے لئے حب وطنی کوٹ کو ٹ کے بھری ہو ئی ہے ہر کوئی مجھے سنوارنا چا ہتا ہے میری بھی یہی کو شش رہی ہے کہ ان کو اپنے سینے میں جگہ دوں ان کے لئے آ سانیا ں پیدا کرو ںچاہے اس کے لئے مجھے کتنی قربا نیاں دینی پڑ جا ئیں مگران کو ان کی محب وطنی کا بدلہ دوں مگر میری قربا نیاں تو بہت کم ہیں میر ے سپوتوں نے تو ایٹم بم بنا کر مجھے ناقابل تخسیر بنا دیا اب کو ئی دشمن میری طرف آ نکھ نکال کے بات نہیں کر سکتا۔ اچھے بلے دن گزر رہے تھے ۔ اور راضی الہی ٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ مجھے مون سون کی بارشو ں نے آ ن لیا۔ اور ہر گزرتے دن کے سا تھ میر ا وہ حال ہو رہا ہے کہ دشمن بھی کانپ اٹھے ہیں اور مان چکے ہیں کہ کوئی تو ہے جو ”نظام ہستی چلا رہا ہے وہی تو خداہے“ ۔ بات ہو رہی تھی میری تباہ بربادی کی میں خود آ ج خون کے آنسو رہ رہا ہوں کیونکہ میرا کم سے کم 1.7ملین ایکڑ رقبہ جس پر کبھی فصلیں لہراتی ،بل کھا تی نظر آ تیں تھیں سیلاب کی زد میں آ چکا ہے سرکاری اطلاعات کے مطا بق میرے ڈیڑھ ہزار سے زیادہ میرے پیارے عوام اس کی بلی چڑھ چکے ہیں۔ دو لاکھ حیوانات مجھے بچاتے خود اس سیلاب کی زد میں آ کر میری بنیادوں کو اپنا خون دے گئے ہیں۔ دو کروڑ لوگ اس آ فت کی وجہ سے متا ثر ہو ئے ہیں ۔اور اب وہ بے یارومدد گا ر ہیں۔میرا 1/5 حصہ سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔ 1237000مکان اس سیلاب میں بہہ کر نشان عبرت بن چکے ہیں۔2300لوگ اس میں زخمی ہو ئے ہیں ۔ میں خود خون کے آ نسو رو رہا ہوں کہ میرے محب وطن پاکستانیوں، میرے باسیوں پر اتنی مشکل کیسے آ پڑی ہے اے خدا! یہ ناتواں لوگ تو اپنے بیوی بچوں کی خوشیاں پوری نہیں کر پاتے پھر میرے خدا ان کا اتنا بڑا امتحان کیوں ؟؟ کیسے دیں گے میرے مالک یہ ایسے امتحان؟۔ اے میرے مالک میں نے خود انسان کو اور کتے کو ایک جگہ سے پا نی پیتے دیکھا ہے۔ما ﺅوں بہنوں کی چیخ و پکار میرا سینہ چیڑھ رہی ہے ۔ کسی کو اس کی بیٹی نہیں مل رہی تو کسی کو اس کے باپ کی لاش کی فکر ستا ئے جا رہی ہے ۔ مالک کسی کو خوراک نہیںمل رہی تو کسی کو لاشوں کے لئے کپڑا اور قبر کی جگہ نہیں مل رہی ۔ کسی کے مو یشی اس سیلاب کی نظر ہو گئے ہیں تو کسی کو ابھی تک سیلاب زدہ علاقوں سے ریسکیو نہیں کیا گیا نہ ہی ان کو ان علاقوں سے محفو ظ مقا ما ت کی طرف لا یا گیا ہے۔ اے میرے خدا !جو کبھی خود مہمان نواز تھے آ ج کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔ اے میرے مالک مجھ پر میری چھو ٹی سی بستی پر رحم فرما۔اے خدا ان مجبوروں، بے کسوں، کے گناہ معاف فر ما دے اور ان کو اس مشکل سے نکال دے میری چھوٹی سی بستی کو پھر سے پاک سرزمین بنا دے جہاں ہر کو ئی اپنی زندگی اسلام کے مطا بق گزارےاے میرے مالک مجھے پتہ ہے کہ تیری مرضی کے بغیر تو ایک پتہ بھی اپنی جگہ سے نہیں ہل سکتا۔ اب مجھ میں اور دکھ سہنے کی سکت نہیں رہی ۔ میرا پورا سینہ سیلاب سے چھلنی ہو گیا ہے ۔ اب اس سیلاب کے ختم ہو نے کے بعد بھی میں ہزاروں سالوں بعد اس جگہ پہنچوں گا جہاں ایک ماہ پہلے تھا۔ میرے حکمرانوں کو بھی مالک عقل دے یہ اب بھی سیلاب زدگان۔ ان کی بے بسی، ان کی مظلومیت پر اب بھی سیاست کھیل رہے ہیں ایک دوسرے کو الزام تراشیوں سے رسوا کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ میرے دنیاوی خد ا اب بھی ا مریکہ کو اپنا مالک سمجھ رہے ہیں اس کی طرف ہی امداد کے لئے ہاتھ جو ڑے کھڑے ہیں۔ ان کو پتہ بھی نہیں کہ اگر اب سیلاب زدہ علاقوں کو فوری ریسکیو نا کیا گیا تو وہاں سے پاکستانی عوام کے لئے جو جو اشیا ءکھانے پینے کے لئے آ تیں تھیں وہ نہیں آئیں گی۔ اس کے ساتھ اگر ان علاقوں کو فورا مداد فراہم نہ کی گی تو وہ علاقے اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کے مر جا ئیں گے یہ صرف ان علاقوں کی ترقی کی بات نہیںیہ تو پاکستان کی بقاءہے جتنی جلدی وہ ان کی مدد کر یںگے اتنا ہیمیرے لئے بہتر ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ اے میرے مالک میرے دنیاوی خداﺅوں کو یہ بھی تو فیق دے کہ اپنے ملک کے غریب ،سیلاب زدہ لوگوں کی مدد کر سکیں ان کے باپ کا تو خزانہ نہیں جس میں سے وہ ان غریب لوگوں کی مدد کر نے میں پریشانی محسوس کر رہے ہیں ۔ کیو نکہ بیس ہزار سے تو ان کے گھر نہیں بنیں گے نہ ہی نہ ہی ان کے بچھڑے واپس آ جا ئیں گے ان کو وہ قرضہ کے طور پر نہیں بلکہ پاکستانی حکومت کی طر ف سے مد د کے طور پر وہ دیئے جا ئیں۔ اس کے ساتھ اب با ہر دیکھنے کی بجا ئے پاکستانی حکومت کو اپنے پا ﺅں پر کھڑا ہو کے فیصلے کر نے چا ہئیں کیو نکہ ایک اہم فیصلہ تو ترقیا تی کام بند کر نے والا کر چکی ہے تو دوسری طرف بہت سارے مسا ئل ابھی سر اٹھا ئے کھڑے ہیں جن میںملازمتوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اس لئے حکومت کو اس طرف دھیان دے کر ان ملوں،فیکٹریوں اور دوسرے بزنس مینوں کو قر ضہ(امداد) دینا ہو گا جو صحیح طورپر اور اس قر ضہ کو ملکی لیول پر سب کے لئے یکسان نا فذ کیا جا ئے تا کہ سرمایہ دار، ملوں کے ما لک جو اس سیلاب میں اپنا سب کچھ کھو بیٹھے ہیں ان کو ان کی زندگی پھر سے واپس مل جا ئے۔اس کے ساتھ ساتھ زراعت جو ہمارے ملک کے 70%سے زیادہ دیہی لوگوں کا ذریعہ معاش ہے اس کو بھی سمبھالنا ہو گا۔کیو نکہ پاکستان کی ہر چیز اس علاقے سے آ تی ہے جہاں سے سیلا ب نے زندگی کے آثار تک ختم کر دیئے ہیں۔ ا س طرف بھی میرے حکمرانوں کو دھیان دینا ہو گا تا کہ ملک میں غذائی بحران جس کا اظہار حکومت کے قائم کردہ ادارے اور ایجنسیاں کر چکی ہیں اس پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔عوام کو بھی اتنی جلدی اس کام سے منہ نہیں پھیر لینا چا ہیئے کیو نکہ ابھی تک جو دیکھا گیا ہے کہ الیکٹرک میڈیا نے اپنی کوریج اس طرف کم کی ہے تو لوگوں کی ا کثریت کو یہ خیال آ گیا ہے کہ سیلاب آ یا۔ چلا گیا لوگ اپنے گھروں کو لوٹ چلے ہیں سب کچھ صحیح ہو چکا ہے ہر طرف امن و سکون آ چکا ہے ہریا لی ہی ہر یا لی ہو چکی ہے۔ جب کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ سیلاب تو شرو ع ہی اب ہوا ہے لوگوں کو ان کے گھروں تک پہنچنے، ان کی ضروریات،روزگار ، تعلیم و زراعت سب ہی تو ابھی کر نے والا ہے کوئی بھی تو کام نہیں ہوا ابھی ۔ پھر میڈیا کیو ں منہ پھیر چکا ہے ۔ میڈیا کو اپنا رول ادا کر نا ہو گا حکومت کو ایک راہ دیکھا نی ہو گی ۔ جعلی ڈگریوں کے کیسیز ز ہی نہیں دیکھا تے جانا بلکہ ان مظلوم،بے بسوں ،بے کسوں کو بھی حکومت کے سامنے لانا ہو گا جو ان امدادوں میں ابھی شا مل نہیں ہو سکے جو حکومت دے رہی ہے ۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہماری تھوڑ ی سی مدد کر نے سے ان کے دکھ ، ان کے زخم بھر نہیں جا ئیں گے نا ہی ان کے بچھڑے واپس آ جا ئیں یہ تو ان کو زندگی کی ایک نئی کرن دیکھا نے کے لئے ہو گا کیو نکہ ان لوگوں نے واپس اپنے اپنے علا قوں میں جا نا ہے تو اپنی مشکلات اپنی ضروریات، اپنے جسم و روح کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لئے خود ہی لڑنا ہے ۔ اس لئے ابھی بھی حکومت عوا م،میڈیا کو سا تھ مل کر چلنے کا و قت ہے کیو نکہ عوام اپنے ملک کو قر ضوں سے بچا سکتی ہے ۔ میڈیا ہر جگہ ہے وہ ان مشکلات کو ہا ئی لائٹ کر ے جو ان سیلاب زدگان کو درپیش ہیں ووہ سامنے آ ئیں تا کہ ان کی مدد کی جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کا سب سے زیادہ حق بنتا ہے کہ اپنی عوام کو ان کی زندگی واپس دینے میں بڑھ چڑھ کے حصہ لے کیو نکہ حکومت کے پا س خزانے میں جو جو پڑا ہو ا ہے وہ اسی قوم کے خون و پسینے کی کما ئی ہے۔ وہ خزانے اب اسی عوام کا حق ہے اسی پر لٹا دینے کا وقت ہے کیو نکہ یہ کسی حکومت کے ”بڑوں“ کانہیں ۔اسی کا ہے اسی پر لٹانا چاہیئے بھا گ بھا گ کے قرضہ نہیں لینے جا نا چا ہیئے کیو نکہ پہلے ہی”جمہوری حکومت“ دو سال میں 30ارب ڈالڑز کا قر ضہ پاکستان پر بڑھا چکی ہے۔ اس لئے اب اپنے ملکی خزانوں کا منہ ہر ضرورت مند کے لیئے کھول دینا چا ہیئے کیو نکہ حکومت کے کروڑوں ڈالرز کے اخراجات اگر یہ خزانہ دے سکتا ہے تو عام عوام کو اس کی زندگی بھی یہی خزانہ دے سکتاہے