لا ئنسس ٹو کل
بعض محاورے،کہا نیا ں، اور فلمیں خا ص کسی ملک کی تاریخی ، سیا سی ، سماجی اور ذہنی سو چ کی عکا س ہو تی ہیں بلکل اسی طرح ہا لی وڈ کی ایک مشہور فلم ”لائنسس ٹو کل “ امریکی نظر یے اور سماج کی بھر پور ترجما نی کر تی نظر آتی ہے اس فلم کی کہا نی میں دکھا یا گیا ہے کہ ہیر و (جیمز با نڈ) اپنے مشن کی تکمیل کے لیے بین الا قوامی قوانین کی پا بندی سے آزادہے کسی ملک کے قانون کو خاطر میں نہیں لا تا پوری دنیا میں اسے استثنا حا صل ہے کہ وہ پوری دنیا میں بنا ءکسی پا سپورٹ اور دیگر ضروری ڈاکو مینٹس کے ہر جگہ ،ہر شہر ،ہر علا قے اور ہر شاہراہ پر بناءکسی روک ٹوک آزادانہ گھوم پھر سکتا ہے بغیر کوئی دبا ﺅ کے اپنے مقا صدکی تکمیل کے لیے ہر جا ئز ونا جائز سطحی رویے تک جاسکتا ہے وہ کسی کی بھی جا ن لے سکتا ہے کہ اسے” لا ئنسس ٹو کل “ کا اختیار حا صل ہوتاہے یہ اختیار اس کے ملک کا قانون اسے عطا کرتا ہے جو پو ری دنیا میں سپر پا ور ما نا جا تا ہے ۔ اگر ہم آج کے تنا ظر میں اس فلم کو دیکھیں تو یہ پوری فلم امر یکی ذہنیت کی مکمل عکا س معلو م ہوتی ہے۔
ما ضی میںامریکی مظالم کی تا ریخ کا فی طویل ہے اپنے مفا دات کی تکمیل کے لیے امر یکہ نے پوری دنیا میں تبا ہ کا ریاں کی انسانیت کا قتل عام کیا ہے اس نے ماضی میں جا پان ، ویت نام اور لا طینی امر یکہ میں انسانی حقوق کو پا مال کیا ہیرو شیما نا گاسا کی پر ایٹم بم گرا کر لاکھوں انسا نوں کو منٹوں میں لقمہ اجل بنا دیا جس طرح آج افغا نستا ن اور عراق میں تبا ہ بر با دی قتل وغارت گری کا با زار گرم کیا ہوا ہے وہ پو ری دنیا پر عیا ں ہے اب بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اس کے شہری بھی اپنی برتری کے گھمنڈ میں ہماری شاہراوں پر آزادنہ ہما رے لوگوں کاقتل عام کر تے پھرتے ہیں کہ انھیں کو ئی روکنے اور سزا دینے والا نہیں ۔
اسی قسم ایک افسوس نا ک واقعہ ۷۲ جنوری کو لا ہور کے شاہراہ پر پیش آیا جب ایک امریکی گورے نے سرعام دو پا کستانی نوجوانوں کو گو لی مار کر اور ایک کوگا ڑی سے کچل کر ہلاک کر دیا اور فرار ہو گیا اس واقعہ سے ایسا محسوس ہو تا ہے کہ ہم آج بھی قیا م پا کستا ن سے قبل کے غلا می دور میں زندہ ہیں جب ہما را فر نگی آقا پورے بر صغیر کو اپنی ذاتی جا ئیداد سمجھتا تھا اس کا جب جی چا ہتا شاہی بگھی سے اتر کر عوام الناس پر چابک برساتایا جوتے چانٹے کا حکم صادر فر ما تا اس کی نظر میں بر صغیر کے لو گوں کی ایک اچھوت حقیر شئے سے زیا دہ کو ئی اہمیت نہ تھی اسی طر ح ریمنڈ ڈیوس نے گا ڑی سے اتر کر گو لیا ں چلائی مرتے ہو ئے انسانوں کی سفاکی سے مووی بنا ئی اور گا ڑی میں بھیٹھ کر چلا گیاکیا ؟ ان مقتولو ں کے فیملی ممبر اپنے پیاروں کے مر نے کی اس اذیت کو کبھی بھول پا ئیں گے اگراس ملک کو اسی طرح کی غلامی میں رہنا تھا تو پھرتاریخ کوان لاکھوںانسانوں کی ہجر توں ، جا نوں کی قربا نی اور بے عصمت ہوتی ماﺅں بہنوں کی سچی داستا نوں کو رقم کرنے کی کیا ضرورت تھی آج کسی پا کستا نی کی جان محفو ظ نہیں دہشت گر دی کیا یہ کھیل جس کی افتتاح افغان ،روس جنگ سے شروع ہوئی اب ہمارے سر حد سے اندر ہما ری شا ہراوں تک پہنچ چکی ہے امر یکہ اپنے مفا دات پورے کر نے کے لیے ہمارے سرعام شہریوں کو قربا نی کا بکرا بنا ئے ہو ئے ہے پا کستا ن اس کے لیے ایک چراگا ہ سے کم نہیں۔
امر یکہ پا کستا ن میں جو خطر نا ک کھیل کھیل رہا ہے اس کے امریکی گورے دا ڑھی، شلوار قمیض میں ملبوس اردو ،پشتو ودیگر علا قا ئی زبان میں ماہر ہو نے کے بعد پورے ملک میں دند نا تے پھر تے ہیں درجنوں مر تبہ جعلی نمبر پلیٹس کے ساتھ پکڑے گئے یہ بلا لا ئنسس اسلحہ لیے آزادانہ ہماری سڑکوں پر گھومتے پھرتے ہیں اسلا م آباد سمیت کئی علا قوں میں درجنوں مکا نات انکی تحویل میں ہیںیہ کبھی بھی کچھ بھی کر گزرنے کی صلا حیت لیے ہو ئے ہیںاگر کو ئی قسمت کا ما را سرپھرا ایما ندار افسر انھیں گر فتا کر نے کا جر م کر بھی لیتا ہے تو او پر کے دبا ﺅ میں آکر ان با عزت مہما نوں کو رہا کر دیا جا تا ہے جس سے ان گوروں کی مز ید حو صلہ افزائی ہو تی ہے کئی سالوں سے بلیک وا ٹر پا کستا ن میں دند نا تے پھر رہے ہیں اس کے شواہد بھی ملے میڈیا نے کا فی شور بھی مچا یا لیکن! ہمارے وزیر دا خلہ صا حب ہمیشہ سختی سے اس کی تر دید کر تے آئے ہیں پا کستا ن میں ڈرون حملوں سے بے گنا ہ شہریوں کی ہلاکتوں پرپوری قوم کا احتجا ج بھینس کے آگے بین بجا نے کے مترادف ہے امریکی اسلحے کے زور پر ملکی قوا نین کو پا مال کر رہے ہیں وہ جو مطا لبہ چاہتے ہیںامریکی ایڈ کا لا لچ دے کر ہمارے حکام سے منوا تے ہیں پا کستا ن کے کسی قانون کا کوئی احترام ان پر لا گو نہیں، ریمنڈ ڈیو ڈ کیس میںبھی وہ اہل خانہ کو خون بہا دینے کو تیار ہیںکیا ؟ کوئی دولت ان مقتولوںکا نعم لبدل ہو سکتی ہے امریکی کو نسل خانے کی ڈھٹائی دیکھیے کہ ریمنڈڈیوس کی مدد کو آنے والے قونصلیٹ خانے کی گاڑی نے جس نو جوان جو کچل کرہلا ک اور دو کو زخمی کیا اسے اب تک قو نصل خانے نے پو لیس کے حوالے نہیں کیا جب کہ اسکے خلا ف قتل اور ایک شخص کو زخمی کر نے کا مقدمہ بھی درج ہو چکا ہے امریکی کو نسل خانے کے اہل کارریمنڈ ڈیوس کو بچانے کے لیے پوری کو ششوں میں مصروف نظر آتے ہیں کہ کسی طرح کسی قانونی منطق کے ذریعے ریمنڈڈیو س کو سفارت کار ثابت کر کے اسے ویا نا کنو نشن کے تحت امر یکہ لے جا نے کا جواز مہیا ہو جائے۔
امریکی سفارت خانے کا بیا ن ہے کہ ا مریکی سفارت کا رکو گرفتار کر نا ویا نا کنو نشن کی خلاف ورزی ہے کیو نکہ خود پا کستان بھی اس کا پابند ہے امر یکہ نے خود کبھی ویا نا کنو نشن پر عمل در آمد کیا اسے بین الاقوامی قوانین کے احترام کی کیا پروا کہ اس نے یہ کنو نش پڑھا بھی نہیں ہو گا ویانا کنو نشن ۳۶۹۱ءکے آر ٹیکل ۱۴ کے تحت کسی بھی سرکا ری اہلکا ر کو یہ استثنیٰ حاصل نہیں کہ دوسرے ملک میں جا کر قتل وغارت گری کر ے ۔ اب جب کہ یہ مقدمہ پا کستا نی عدالت میںزیر سماعت ہے امریکیوں کا مطا لبہ کہ وہ امریکی شہری ہے اس لیے یہ مقدمہ امر یکی عدالت میں پیش ہو نا چاہیے یہ ایک مضحکہ خیز اور بے معنیٰ مطالبہ ہے پا کستا نی قوم یہ سوال کر نے میں حق بجا نب ہے کہ یہ قانون ایمل کا نسی اور رمزی کے کیس پر کیو ں لاگو نہیں کیا گیا عا فیہ صدیقی کیس حوالگی کا جب مطا لبہ کیا گیا تو جواب دیا گیا یہ معا ملہ امریکی عدا لت میں ہے اس بارے میں کو ئی فیصلہ امر یکی عدالت کے اختیار میں ہے یہ با ت درست ہے کہ عام شہری کی نسبت ایک سفارت کا رکو دوسرے ملک میں کئی قانونی استثناءحا صل ہو تی ہے اقوام متحدہ کے تمام رکن ویا نا کنو نشن کے پا بند بھی ہیں مگر اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ سفارت کا ر کو’ لا نئسس ٹو کل ‘کا اختیار دے دیا جا ئے ایساکو ئی قانون کسی ملک کے قوانین میں شامل نہیں ۔
میرے خیال میں اس قسم کے مقدمات کا فیصلہ کر نے کے لیے پڑوسی ملک ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے چند دن قبل ایک یو رپی ملک کی خاتون کو منشیات کی اسگلنگ میں سزائے موت دی گئی وہا ں فیصلے نمٹانے اور انصا ف کی فرا ہمی کا عمل تیز تر ہے جو کئی مسا ئل کا حل ہے ۔