URDUSKY || NETWORK

قومی ابتری کا ذمہ دار کون۔۔۔؟

111

ہارون عدیم

اس دفعہ اگست اور رمضان اکٹھے آئے ہیں،اگست کا مہینہ اس لئے اہم ہے کہ چونسٹھ سال پہلے ہمیں اسی مہینے میں انگریزوں سے آزادی ملی تھی،ہر سال ہم 14اگست کو جشن آزادی مناتے ہیں، مگر آزادی کے مفہوم کو ہر سال مزید دھندلادیتے ہیں۔جبکہ ماہ رمضان کا مہینہ ہمارے لئے رب رحیم و کریم کی رحمتوں اور عنایات کے خزانے لے کر آتا ہے۔مگر حیران کن بات یہ ہے کہ ہم پاکستانی اور مسلمان ہوتے ہوئے بھی نہ تو احترام رمضان ہیکو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں اور نہ ہی اپنے آپ کو منافع خوری،ذخیرہ اندوزی،رشوت،ملاوٹ،قبائلی اور لسانی عصبیت سے آزاد کرتے ہیں۔دوسروں کا حق مارنا،ملک و قوم کو نت نئے امتحانوں میں ڈالنا،ایسے اقدامات کرنا جن سے قوم کا شیرازہ بکھرتا رہے ہمارا شیوہ بن چکا ہے۔یورپ میں بالعموم اور برطانیہ میں بالخصوص کرسمس کی آمد پر نئے مال(ہر قسم کی اشیاء، جیسے گھروں کا سامان،فرنیچر،کپڑے،اشیاء خورد و نوش وغیرہ وغیرہ) کی قیمتوں میں 60 فی صد تک کمی کر دی جاتی ہے،تا کہ ہر خاص و عام کرسمس کی خوشیوں کو سمیٹ سکے،26 دسمبر کو کرسمس کا بچا ہوا مال اونے پونے بیچ دیا جاتا ہے۔60پاؤنڈ کی چیز 10پاؤنڈ میں مل جاتی ہے۔اس دن لوگ صبح چھ بجے بڑے سٹوروں کے سامنے قطاریں لگا کر کھڑے ہو جاتے ہیں،گزشتہ کرسمس کے موقع پر خود ہم نے مانچسٹر میں اس لوٹ سیل کا بھر پور فائدہ اٹھایا۔مگر ہمارے ہاں جیسے ہی رمضان قریب آئے اشیاء خورد و نوش کی اشیاء مارکیٹ سے غائب ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔گزشتہ سال جو کھجور 90 روپے کلو تھی اس بار 240 روپے کلو بک رہی ہے۔پھل اور سبزیوں کی قیمتوں میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوا ہے۔واہ سبحان اللہ،ایک ایسی مملکت جس کے بارے میں یہ دعوہ کیا جاتا ہو کہ وہ ’’اسلام کے نام پر بنی تھی‘‘ اور جس کا مطلب ’’ لا الہ الاللہ‘‘ ہے اس میں یہ غیر اسلامی کام کیا جاتا ہے ،حب رسول کی باتیں کرنے والے رسول کریمﷺ کے احکامات کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے توہین رسالت کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں،صوبائی حکومتیں جن کا کام، ان باتوں پر کنٹرول کرنا ہوتا ہے، وہ خود اس لوٹ مار میں حصہ دار ہوتی ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمیں ایک آزاد اور مسلمان ریاست کہلانے کا حق حاصل ہے۔ یا یہ کہ ہم پاکستانی اور مسلمان ہیں بھی کہ نہیں۔۔۔۔؟کیا ہم ایک قوم بھی ہیں کہ نہیں۔۔۔۔؟
جواب بڑا سیدھا ہے کہ ہم آج تک ایک قوم نہیں بن پائے، ہر سال ہم خود اپنے لئے نئی مصیبتیں کھڑی کر لیتے ہیں۔ہم تو بکھرے ہوئے گروہ ہیں، جو ایک دوسرے سے متصادم اور بر سر پیکار ہیں۔یہ واقعہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں، جس کے راوی ملک معراج خالد تھے۔انہوں نے ہمیں یہ واقعہ تب سنایا تھا جب وہ نگران وزیر اعظم تھے،ملک معراج خالد کا کہنا ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو نے آئین بنا لیا اور پاکستان کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال لیا تو انہوں نے اپنے رفقاء اور کابینہ کے ساتھ پہلا دورہ چین کا کیا۔ان کے تمام چیدہ چیدہ ساتھی جن میں جے اے رحیم،خورشید حسن میر ،ڈاکٹر مبشرحسن،غلام مصطفٰے جتوئی وغیرہ شامل تھے، بیجنگ کے گریٹ پیپلز ہال میں چو این لائی سے ملاقات تھی اور جس دن ملاقات تھی اس دن چو این لائی کی طبیعت نا ساز تھی۔وہ گفتگو کرنے میں دقعت محسوس کر رہے تھے،مترجم نے ذوالفقار علی بھٹو سے کہا کہ مسٹر پرائم منسٹر! جناب وزیر اعظم(چواین لائی) کی طبیعت ناساز ہے لہٰذا آپ گفتگو کا آغاز کریں وزیر اعظم جہاں جہاں مناسب سمجھیں گے لقمہ دے لیں گے، ملک معراج خالد کا کہنا ہے کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’’مسٹر پرائم منسٹر! آپ ایک جہاندیدہ،چشم چشیدہ،روشن دماغ اور مدبر لیڈر ہیں،پاکستان سے آپ کے دوستانہ جذبات قدیمی اور کسی سے ڈھکے چھپے نہیں،آپ کو یاد ہو گاکہ جب میں نے پاکستان کے پہلے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر کی حثیت سے چارج سنبھالا تھا تو راہنمائی کے لئے سب سے پہلے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا،میں نے آپ کو بتایا تھا کہ ہم پاکستان میں سوشلزم کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں،جس پر آپ نے فرمایا تھا کہ ہمیں علم ہے کہ شوشلزم آپ کی پارٹی کے منشور کا حصہ ہے، اور ہمارا ایمان ہے کہ اگر آپ نے غربت،جہالت اور پسماندگی کا خاتمہ کرنا ہے تو وہ سوشلزم کے ذریعے ہی ممکن ہے،مگر چین تو اس کا متحمل ہو سکتا ہے،ابھی پاکستان نہیں ۔وہ اس لئے کہ چینی ایک قوم ہیں،اور پاکستانی ایک قوم نہیں۔۔۔۔اور اگر ایک قوم ہونے کا کوئی زعم تھا تو وہ مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہونے سے جا تا رہا۔آپ پہلے جا کر ایک قوم بننے کی کوشش کریں‘‘ ملک معراج خالد کا کہنا ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو گفتگو کے اس مقام پر پہنچے تو چو این لائی نے مترجم کے کان میں کچھ کہا،مترجم نے ذوالفقار علی بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’مسٹر پرائم منسٹر کہہ رہے ہیں کہ آپ ابھی بھی ایک قوم نہیں بن پائے‘‘۔
اس وقت اندرونی طور پر ہم انتشار کا شکار ہیں،کسی بھی قومی مسئلے پر ہم ہم آواز نہیں،سیاسی جماعتیں فلاحی اور قومی سیاست کرنے کی بجائے انتخابی سیاست کر رہی ہیں۔وہ چاہے، پی پی پی ہو،اے این پی،ن لیگ،ق لیگ یا ایم کیو ایم۔ سب اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہیں۔اپنی بلیک میلنگ پاور بڑھا رہی ہیں۔وہ چاہے دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو، کشمیر کا مسئلہ ہو،بھارت سے مذاکرات کی بات ہو،افغانستان،ایران سے تعلقات کار کی بات ہو،امریکا سے امداد لینے کی بات ہو،ہر کوئی ’’قومی مفاد‘‘ میں اپنی ڈیڑھ اینٹ کی علیحدہ مسجد بنائے بیٹھا ہے۔ہم امریکا کا کھاتے بھی ہیں اور اسے آنکھیں بھی دکھاتے ہیں،اور یہ آنکھیں بھی اس وقت دکھاتے ہیں جب ہم اقتدار میں نہیں ہوتے،اور جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو اپنا اقتدار بچانے کے لئے بل کلنٹن کے حضور بن بلائے چلے جاتے ہیں۔
بین الاقوامی تعلقات کی بات کریں تو ہم تنہا ہوتے جا رہے ہیں،کیونکہ اگر حکومت غلطی سے اس جانب کوئی راست اقدام اٹھا لے تو اپوزیشن اسے چار قدم پیچھے لانے کی کوشش کرتی ہے۔بھارت سے جامع مذاکرات کی بات ہی کو لے لیں ،پہلی بار بھارت نے یہ اعلان کیا ہے کہ ممبئی حملوں کے فوراً بعد پاکستان سے مذاکرات منقطع کرنا درست نہیں تھا،اور یہ کہ ہمیں کشمیر سمیت تمام اشوز پر بات کرنا ہو گی،مگر ہمارے ہاں کے مذہبی اور سیاسی عقاب اس پیش رفت کو آگے بڑھتا نہیں دیکھ پا رہے،ان کی کوشش ہے کہ بھارت اور پاکستان کے مابین ’’حالت جنگ‘‘ ختم نہ ہو پائے۔دوسری جانب اگر حکومت نے امریکی سی آئی اے کے اہلکاروں کو ویزے دینا بند کر دیئے ہیں،ان کے ٹرینرز کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا ہے،امریکی احکامات کے طابع ہو کر وزیرستان میں آپریشن کرنے سے انکار کیا ہے تو چاہئے تو یہ تھا کہ حکومت کا اس ضمن میں ساتھ دیا جاتا،اور اس کو قومی تائید و حمائیت دی جاتی مگر ہم مل جل کے حکومت گرانے کے چکر میں رہتے ہیں،
اگر دیکھا جائے تو پاکستان جن مسائل سے دوچار ہے جیسے بجلی اور گیس کی طلب کے مقابلے میں رسد میں کمی کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ،لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ،دہشت گردی کا عفریت،مہنگائی ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری،تو اس کی ذمہ دار تمام سیاسی جماعتیں ہیں۔بالخصوس صوبائی حکومتیں۔ہر جماعت ان اشوز پر قومی اسمبلی میں واویلا بھی کرتی ہے ،اسمبلی کی کاروائی کا بائیکاٹ بھی کرتی ہے، مگر ۔۔۔۔۔۔ جن جن صوبوں میں ان کی حکومت ہے یا وہ حکومت کا حصہ ہیں وہاں ان تمام مسائل کا تدارک نہیں کرتی۔آج تک کسی جماعت نے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے،وافر بجلی کی پیداوار، گیس کے ذخائر میں اضافے،مہنگائی کو کنٹرول کرنے،غربت کے خاتمے اور بیروز گاری کم کرنے کا نہ تو کوئی جامع پروگرام ہی قوم کے سامنے رکھا ہے اور نہ ہی اس کا روڈ میپ ہی دیا ہے۔بات بڑی سیدھی سی ہے کہ اگر گیس کے ذخائر ہی نہیں ہونگے تو گیس کی طلب کیسے پوری کی جائے گی۔۔۔؟قومی آمدنی نہیں بڑھے گی تو بجٹ کا خسارہ کیسے کم کیا جائے گا،افراط زر پر قابو کیسے پایا جائے گا۔۔۔۔؟ اس کی نشاندہی بڑی لازمی ہے ،مگر کون ہے جو ان سوالوں کا حل ہم بکھرے ہوئے گروہوں کے سامنے رکھے؟ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم چند معاملات پر اجتماعیت پیدا کریں،اور یک آواز ہو جائیں،ورنہ سبھی کہہ رہے ہیں کہ ’’ہماری داستاں بھی نہ ہو گی داستانوں میں‘‘