URDUSKY || NETWORK

عیا شوں میں کٹوتی کریں

68
تحریر٭محمد سکندر حیدر(بولتے لفظ)
قیامت خیز سیلاب کی تباہی سے بھلا کون منکر ہو سکتا ہے۔ پاکستا ن کی تاریخ کا یہ سیلاب پوری قوم کے لیے ایک اعصاب شکن امتحان ہے۔ جس کی تباہ کاریوں کو چند الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔ اِس قدرتی آفت نے جہاں افراد کی معمول کی گزرتی زندگیوں کے مفہوم کو بدل کر رکھ دیا ہے وہاں پر ملک کی معاشی حالت کو بھی تباہ کر دیاہے۔پاکستان کا اب اگلا معاشی سفر نہ صرف کھٹن ہے بلکہ ترقی کی منازل کے وہ نقوش جن کے بارے میں ہم خواب دیکھتے تھے موجودہ حکمرانوں کی حالیہ گڈگورننس اور جاری پالسیوں کی بنا پر اُمید کے منظر سے مٹتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔نااہل حکمرانوں نے اپنی نااہلیوں کے تمام کھاتوںکو سیلابی تباہی میں ڈال دیا ہے۔ جس طر ح ہر دہشت گردی کے پیچھے طالبان اور بھارت کے ہاتھ کا ذکر بے دھڑک کیا جاتا ہے اُسی طرح آج کل ہر معاشی منصوبہ بندی کو سیلاب سے منسلک کرکے اِس کی ہیت تبدیل کی جارہی ہے۔ سیلاب سے کس قدر حکومتی نقصان ہواہے؟ اور حکومت کو کس قدر سیلاب کے نام پر امداد حاصل ہوئی ہے؟ اِس امر کا ایماندارانہ طور پر تاحال قوم کے سامنے کوئی پہلو ظاہر نہیں کیا گیا۔ شاید حساب کتاب کا یہ پہلو گذشتہ زلزلہ مظفر آباد کی طرح اِ س بار بھی کبھی عوام کے سامنے نہیں آئے گاکیونکہ ہمارے حکمران روپے پیسوں کی جمع تفریق والے مضمون میں شروع سے ہی کمزرو چلے آرہے ہیں۔ انہیں تو بس ریاضی میں اِس قدر پڑھایا گیا ہے کہ حکومت میں جا کر اگلی سات نسلوں کے لیے کتنی دولت اکٹھی کرنی ہے اور یہ سیاست دان اپنے ارادوں میں اِس قدر پختہ عزم برائے حصول دولت رکھتے ہیں کہ سیلاب کی حالیہ سنگینی کے باوجود اِن لوگوںنے اپنا طرز عمل نہیں بدلا۔ سیلابی امداد کے نام پر کرپشن اور سیلابی ساز وسامان کی ترسیل میں بے ایمانی اور لوٹ کھسوٹ کے قصے زدِعام ہیں لیکن ظالموں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ نہ شرمندگی ، نہ احساس ِندامت، بس ہٹ دھرمی ہی ہٹ دھرمی ہے۔ حالیہ سیلاب نے پنجاب میں سب سے زیادہ تباہی جنوبی پنجاب کے سات اضلاع میانوانی،بھکر، لیہ، ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ، راجن پور اور رحیم یار خان میں پھیلائی ہے۔یہ وہ پسماندہ اضلاع ہیں جو سیلاب سے قبل بھی وفاق اور تخت پنجاب کی ستم گری کا شکار ہیں۔جنوبی پنجاب میں ترقیاتی پراجیکٹس پہلے ہی دیگر علاقوں کی نسبت نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مالی سال 2010-11ءکے بجٹ میں جو رقم جنوبی پنجاب کے حصہ میں آئی ہے وہ اُونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترداف ہے۔ اِس لیے اِن علاقوں کے جاری ترقیاتی کاموںکو سیلاب کی آڑ میں روکنا پہلے کی نسبت اور بھی زیادہ ظلم بن رہا ہے کیونکہ یہی جنوبی پنجاب تو سب سے زیادہ سیلاب متاثرہ علاقہ ہے۔ اِس لیے اِ س امر کی ضرورت ہے کہ جنوبی پنجاب میں اول تو سیلابی تباہی کی بنا پر تباہ شدہ انفراسڑکچر کو بحال کیا جائے ، دوم اِن علاقوں میں جاری تمام بنیادی اور اہم ترقیاتی کاموں کو بروقت مکمل کرنے کے لیے فنڈز جاری کیے جائیں۔ ایک خبر کے مطابق وفاقی حکومت نے ملتان میں خواتین یونیورسٹی ، انجینرنگ و ٹیکنالوجی یونیورسٹی اور ڈیرہ غازی خان میں یونیورسٹی کے قیام کا منصوبہ حتمی طور پر ختم کردیا ہے۔ پلاننگ کمیشن آف پاکستان نے اِن منصوبوں کو پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام 2010-11ءسے نکال دیا ہے۔ یونیورسٹیوں اور حکومت کے درمیان جاری مالی بحران کا تنازعہ سیاسی بیمار ذہنوں کا پیدا کردہ ہے۔ جعلی ڈگریوں پر پارلیمنٹ میں پہنچنے والے سیاستدانوں کو کیا خبر کہ تعلیمی ترقی ملکی ترقی کا باعث ہوتی بھی ہے یا نہیں۔؟اِسی لیے تو یہ جاہل حکمران یونیورسٹیوں کو املاک و اثاثہ جات فروخت اور فیسوں میں اضافہ کرکے درس گاہوںکو تجارت بنانا چاہتے ہیں۔ وزیر خزانہ کے بقول گذشتہ دو سالوں میں حکومت نے 30کھرب روپے کے قرضے لیے ہیں۔یہ قرضے کیوں لیے گئے اور کہاں خر چ ہوئے ، اِن سے کس قدر اُمورِسلطنت چلائے گئے ہیں کسی کو خبر نہیں ۔ کیونکہ حقیقت تو یہی ہے کہ ملکی دولت حکمرانوں کی عیاشی اور اللے تللوں پر خرچ ہو رہی ہے۔ اِسی کرپشن کا انکشاف گذشتہ دنوں امریکن سینٹ میں امریکی سفیر برائے پاکستان کیمرون منٹر کی توثیقی کمیٹی کے روبرو کیری لوگر بل کے محرک ،انڈیانا سینیٹررچرڈ لوگر نے کیا کہ پاکستان کو گذشتہ سال 44ملین ڈالر نقد امداد جو مالا گنڈ کے بے گھر افراد کی آباد کار ی کے لیے دی گئی تھی وہ خرد بُرد کرلی گئی ہے اور رواں برس جاری ہونے والی 89ملین ڈالر کی نقد امداد بھی خرد برد ہونے کا امکان ہے۔ پس اگرحکمران اپنی عیاشیوں کے بجٹ میں کٹوتی کرلیں تو سیلاب سے تباہ شدہ علاقے بھی دوبارہ بن سکتے ہیں اور ملک کی 72یونیورسٹیاں بھی احسن طریقے سے اپنے فرائض انجام دے سکتی ہیں۔ پھر ملتان اور ڈیرہ غازیخان میں یونیورسٹیوں کے منصوبوں کو حتمی طور پر ختم بھی نہ کرنا پڑے گا۔

عیا شوں میں کٹوتی کریں  تحریر٭محمد سکندر حیدر(بولتے لفظ) قیامت خیز سیلاب کی تباہی سے بھلا کون منکر ہو سکتا ہے۔ پاکستا ن کی تاریخ کا یہ سیلاب پوری قوم کے لیے ایک اعصاب شکن امتحان ہے۔ جس کی تباہ کاریوں کو چند الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔ اِس قدرتی آفت نے جہاں افراد کی معمول کی گزرتی زندگیوں کے مفہوم کو بدل کر رکھ دیا ہے وہاں پر ملک کی معاشی حالت کو بھی تباہ کر دیاہے۔پاکستان کا اب اگلا معاشی سفر نہ صرف کھٹن ہے بلکہ ترقی کی منازل کے وہ نقوش جن کے بارے میں ہم خواب دیکھتے تھے موجودہ حکمرانوں کی حالیہ گڈگورننس اور جاری پالسیوں کی بنا پر اُمید کے منظر سے مٹتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔نااہل حکمرانوں نے اپنی نااہلیوں کے تمام کھاتوںکو سیلابی تباہی میں ڈال دیا ہے۔ جس طر ح ہر دہشت گردی کے پیچھے طالبان اور بھارت کے ہاتھ کا ذکر بے دھڑک کیا جاتا ہے اُسی طرح آج کل ہر معاشی منصوبہ بندی کو سیلاب سے منسلک کرکے اِس کی ہیت تبدیل کی جارہی ہے۔ سیلاب سے کس قدر حکومتی نقصان ہواہے؟ اور حکومت کو کس قدر سیلاب کے نام پر امداد حاصل ہوئی ہے؟ اِس امر کا ایماندارانہ طور پر تاحال قوم کے سامنے کوئی پہلو ظاہر نہیں کیا گیا۔ شاید حساب کتاب کا یہ پہلو گذشتہ زلزلہ مظفر آباد کی طرح اِ س بار بھی کبھی عوام کے سامنے نہیں آئے گاکیونکہ ہمارے حکمران روپے پیسوں کی جمع تفریق والے مضمون میں شروع سے ہی کمزرو چلے آرہے ہیں۔ انہیں تو بس ریاضی میں اِس قدر پڑھایا گیا ہے کہ حکومت میں جا کر اگلی سات نسلوں کے لیے کتنی دولت اکٹھی کرنی ہے اور یہ سیاست دان اپنے ارادوں میں اِس قدر پختہ عزم برائے حصول دولت رکھتے ہیں کہ سیلاب کی حالیہ سنگینی کے باوجود اِن لوگوںنے اپنا طرز عمل نہیں بدلا۔ سیلابی امداد کے نام پر کرپشن اور سیلابی ساز وسامان کی ترسیل میں بے ایمانی اور لوٹ کھسوٹ کے قصے زدِعام ہیں لیکن ظالموں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ نہ شرمندگی ، نہ احساس ِندامت، بس ہٹ دھرمی ہی ہٹ دھرمی ہے۔ حالیہ سیلاب نے پنجاب میں سب سے زیادہ تباہی جنوبی پنجاب کے سات اضلاع میانوانی،بھکر، لیہ، ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ، راجن پور اور رحیم یار خان میں پھیلائی ہے۔یہ وہ پسماندہ اضلاع ہیں جو سیلاب سے قبل بھی وفاق اور تخت پنجاب کی ستم گری کا شکار ہیں۔جنوبی پنجاب میں ترقیاتی پراجیکٹس پہلے ہی دیگر علاقوں کی نسبت نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مالی سال 2010-11ءکے بجٹ میں جو رقم جنوبی پنجاب کے حصہ میں آئی ہے وہ اُونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترداف ہے۔ اِس لیے اِن علاقوں کے جاری ترقیاتی کاموںکو سیلاب کی آڑ میں روکنا پہلے کی نسبت اور بھی زیادہ ظلم بن رہا ہے کیونکہ یہی جنوبی پنجاب تو سب سے زیادہ سیلاب متاثرہ علاقہ ہے۔ اِس لیے اِ س امر کی ضرورت ہے کہ جنوبی پنجاب میں اول تو سیلابی تباہی کی بنا پر تباہ شدہ انفراسڑکچر کو بحال کیا جائے ، دوم اِن علاقوں میں جاری تمام بنیادی اور اہم ترقیاتی کاموں کو بروقت مکمل کرنے کے لیے فنڈز جاری کیے جائیں۔ ایک خبر کے مطابق وفاقی حکومت نے ملتان میں خواتین یونیورسٹی ، انجینرنگ و ٹیکنالوجی یونیورسٹی اور ڈیرہ غازی خان میں یونیورسٹی کے قیام کا منصوبہ حتمی طور پر ختم کردیا ہے۔ پلاننگ کمیشن آف پاکستان نے اِن منصوبوں کو پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام 2010-11ءسے نکال دیا ہے۔ یونیورسٹیوں اور حکومت کے درمیان جاری مالی بحران کا تنازعہ سیاسی بیمار ذہنوں کا پیدا کردہ ہے۔ جعلی ڈگریوں پر پارلیمنٹ میں پہنچنے والے سیاستدانوں کو کیا خبر کہ تعلیمی ترقی ملکی ترقی کا باعث ہوتی بھی ہے یا نہیں۔؟اِسی لیے تو یہ جاہل حکمران یونیورسٹیوں کو املاک و اثاثہ جات فروخت اور فیسوں میں اضافہ کرکے درس گاہوںکو تجارت بنانا چاہتے ہیں۔ وزیر خزانہ کے بقول گذشتہ دو سالوں میں حکومت نے 30کھرب روپے کے قرضے لیے ہیں۔یہ قرضے کیوں لیے گئے اور کہاں خر چ ہوئے ، اِن سے کس قدر اُمورِسلطنت چلائے گئے ہیں کسی کو خبر نہیں ۔ کیونکہ حقیقت تو یہی ہے کہ ملکی دولت حکمرانوں کی عیاشی اور اللے تللوں پر خرچ ہو رہی ہے۔ اِسی کرپشن کا انکشاف گذشتہ دنوں امریکن سینٹ میں امریکی سفیر برائے پاکستان کیمرون منٹر کی توثیقی کمیٹی کے روبرو کیری لوگر بل کے محرک ،انڈیانا سینیٹررچرڈ لوگر نے کیا کہ پاکستان کو گذشتہ سال 44ملین ڈالر نقد امداد جو مالا گنڈ کے بے گھر افراد کی آباد کار ی کے لیے دی گئی تھی وہ خرد بُرد کرلی گئی ہے اور رواں برس جاری ہونے والی 89ملین ڈالر کی نقد امداد بھی خرد برد ہونے کا امکان ہے۔ پس اگرحکمران اپنی عیاشیوں کے بجٹ میں کٹوتی کرلیں تو سیلاب سے تباہ شدہ علاقے بھی دوبارہ بن سکتے ہیں اور ملک کی 72یونیورسٹیاں بھی احسن طریقے سے اپنے فرائض انجام دے سکتی ہیں۔ پھر ملتان اور ڈیرہ غازیخان میں یونیورسٹیوں کے منصوبوں کو حتمی طور پر ختم بھی نہ کرنا پڑے گا۔