سیلاب زدگان حکومتی امداد کے منتظر
سیلاب زدگان حکومتی امداد کے منتظر
تحریر: عمرخان جوزوی
ملک کے دیگر حصوں کی طرح ہزارہ ڈویژن میں برسات کی بارشوں نے طوفان کی روش اپناتے ہوئے ہزارہ کے سنگلاخ پہاڑوں کو ہلاکر رکھ دیا حالیہ بارشوں سے تاریخ کی بدترین تباہی سیلابی ریلہ ڈیڑھ سو افراد کو نگل گیا تین لاکھ بے گھر 50 ہزار زندگی کی بھیک مانگنے کیلئے بے یارو مدد گار ٹیلوں پر آ ہ زاری کرتے ہوئے بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں بے رحم سیلابی ریلہ کوہستان بٹگرام الائی تھاکوٹ بشام بالاکوٹ مانسہرہ ، ایبٹ آباد اور ہریپور سے خوشیاں سمیٹ کر لے گیا آہوں ، سسکیوں زار وقطار روتی مائیں بہنیں بھائیوں کی زندگی کیلئے آہ زاری کرتی پانی میں بہتے بچوں کی بوڑھوں کی چیخ وپکار نے ہزارہ کی فضا سوگوار بنا دی ۔
برس ہا برس کا سامان ِ خوشی آشیانے بل دوبھر ڈوبتے اور انکے مکین جان بچاتے بستی کی بستیاں بستی دیکھ کر بچنے والے کیا سوچ رہے ہوں گے روٹی کی طرح اڑتے بڑے بڑے درخت پہاڑ مکانات ، تباہی کی ایک ایسی منظر کشی ہورہی تھی جو کبھی ہر لمحہ زندہ بچ جانے والوں کو رلا تی ا ور جھنجھوڑتی رہے گی کوہستان ہزارہ کا بلند ترین ضلع ہے جہاں حالیہ طوفانی بارشوں کے باعث سب سے زیادہ تباہی ہوئی کوہستان کے سماجی کارکن تاج اور دیگر ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق کوہستان کے نصف سے زائد مکانات دریا برد ہو چکے ہیں دریاکے دونوں کناروں پر واقع دیہات دوبیڑ کھندیاں تحصیل پالسب جگلوٹ ، داسو ، پٹن میں وسیع پیمانے پر تباہی سے یہ علاقے مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں اس وقت کوہستان میں تین سو سیاحوں سمیت چالیس ہزار افراد پھنسے ہوئے ہیں چونکہ زمین راستے مکمل طور پر ختم ہونے کی وجہ سے دوسرے اضلاع اور علاقوں تک رسائی ممکن نہیں ہے جبکہ کچھ افراد سیلابی ریلے جان بچانے کیلئے بڑے پہاڑوں اور ٹیلوں پر چڑھ گئے تھے اور بعدا زاں نیچے تمام راستے ختم ہونے سے وہاں بھی بعض زمینی کٹاؤ کی بدولت وہاں پھنس چکے ہیں ایک اندازے کے مطابق اس وقت ایک سو سے زائد افراد ضلع کوہستان میں لاپتہ ہیں جبکہ مرنے والوں کی تعدا د کا تعین بھی نہیں کیا جا سکتا ہائیڈرل پاور پر کام کرنے والے غیر ملکی ریلے کی زد میں آخر لاپتہ ہوگئے ہیں کوہستان میں انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ کروڑوں روپے کی املاک بھی تباہ ہوئیں جبکہ سرکاری عمارات کا نشان تک مٹ گئے ہیں شاہرات کا نام ونشان موجود نہیں ہے اسی طرح بجلی کے بڑے بڑے پول بہہ جانے سے پورا علاقہ تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے لاکھوں مالیت کے لوگوں کے مویشی پالتو جانور اور گلہ بانوں کی بھیڑ بکریاں ان بے رحم موجوں کی تہہ میں چلی گئی ہیں جبکہ جنگلات سے اکٹھی کی گئی کروڑوں روپے کی لکڑی اور قیمتی زرعی اراضی اور فصلیں بھی محفوظ نہ رہ سکیں لاپتہ افراد کی تلاش کیلئے لواحقین در بدر بھٹک رہے ہیں اب تک رابطے نہ ہونے کی وجہ سے امدادی سرگرمیاں شروع نہیں کی جاسکی ہیںتاکہ ان پھنسے افراد کو موت کی آغوش میں سے نکالا جا سکے کوہستان کے بعد بٹگرام میں بارشوں اور سیلاب سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تیس افراد لقمہ اجل بنے جبکہ50 افراد اس وقت لاپتہ ہیں جبکہ زرعی اجناس مکمل طورپر تباہ اور انسانی زندگی مفلوج ہوکررہ گئی ہے سکول ہسپتال رفاعی عامہ سنٹر سرکاری عمارات کے نشان تک مٹ گئے اسی طرح راشنگ الائی سمیت نشیبی علاقے زیر آب آنے سے مکانات پانی کی نذر ہو گئے ہیں جبکہ آسمانی بجلی گرنے سے بھی ہلاکتیں ہوئی ہیں سیلاب سے جہاں تک انفرا سٹریکچر تباہ ہوا دوسری جانب بٹگرام میں پینے کے صاف پانی کامسئلہ پیدا ہوا گیا ہے بٹہ موڑی ڈھیری ، فقیر گل ، شملائی راج داری ، اجمیرہ میں زندگی کو معمول پر لانے کیلئے مقامی افراد دن رات کو شاں ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے امداد نہ ملنے اور پوری توجہ صوبائی دارلخلافہ سے ملحقہ علاقوں کو دینے پر لوگوں میں ایک افسوس کی کیفیت پائی جارہی ہے اب بھی سینکڑوں افراد رات کو کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ضلع مانسہرہ کی تحصیل اوگی اور بٹگرام میں بھی سیلاب نے تباہی مچا دی کالا ڈھاکہ میں 15 سے زائد رہائشی مکانات مکمل طورپر جبکہ درجنوں کو جزوی نقصان پہنچا جبکہ اوگی میں مرنے والوں کی تعداد 8 ہے کئی عمارتیں مہندم ہو گئیں اور سرکاری املاک کو شدید نقصان پہنچا ہے رابطہ سڑکیں بھی سیلابی ریلے کونہ سہ سکے جبکہ بالاکوٹ اور وادی کاغان ناران میں وسیع پیمانے پر زلزلہ 2005 کے بعد ایک بار پھر تباہی ہوئی ہے وادی کاغان میں ملک بھر سے آئے ہوئے سیاح رابطہ سڑکیں درجنوں پل ٹوٹنے سے پھنس کررہ گئے جن میں ایک وفاقی وزیر کا بیٹا بھی شامل ہے اسی طرح ناران میں پل ٹوٹنے کے باعث سینکڑوں لوگ پھنسے ہوئے امداد کے منتظر ہیں بالاکوٹ میں ایک سو سے زائد مکانات اس سیلاب میں بہہ گئے ہیں جن میں کروڑں مالیت کا سامان موجود تھا جبکہ 15 سے زائد لوگ ہلاک اور درجنوں اسوقت لاپتہ ہیں سیاحتی علاقہ میں ایک عجیب سماں ہے لوگ پریشان حال اپنے پیاروں کو تلاش کررہے ہیں بے گھر افراد حکومتی امداد کے منتظر ہیں ایک محتاط اندزہ کے مطابق پن چکیوں پلوں شاہرات سرکاری عمارات کے نقصانات کا تخمینہ ایک ارب روپے سے زیادہ ہو سکتا ہے ۔ ایبٹ آباد میں بھی بارشوں سے نقصان ہوا جس میں 7افراد جابحق تین زخمی ہوئے جبکہ دیہی علاقوں میں بارشوں ندی نالوں کی طغیانی سے تباہی ہوئی اپنی مدد آپ تیار کیا گیا پٹن کلان میں واحد گراونڈ بھی پانی کی نذر ہوگیا جوکہ سماجی تنظیم آواز ویلفیئرایسوسی ایشن نے تعمیر کیا تھا اس طرح متعدد کچے پل بھی تباہ ہوگئے ہیں نقصانات کے تخمینہ اور ہزارہ کو آفت زدہ قرار دینے کے لیے صوبہ ہزارہ تحریک کے قائدسردار حیدر زمان نے اس انسانی المیہ پر قابو پانے کے لیے حکومت سے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کا مطالبہ کیا ہے ایبٹ آباد پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران اسے بدترین سیلاب قرار دیتے ہوئے چندہ شروع کرنے کا بھی اعلان کر رکھا تاہم کمشنرہزارہ صاحبزادہ انیس نے ہزارہ بھر میں 80ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے جبکہ پانچوں اضلاع میں ڈ ی سی او کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ تمام علاقوں کا سروے کرکے اسکا تخمینہ لگائیں مگر پہلی ذمہ داری کمشنرہزارہ سمیت حکومت کی رابطے بحال اور لوگوں کو نکالانا اور محفوظ مقامات تک پہنچانا ہے تاکہ تخمینہ لگانے میں آسانی ہو اور ایک مکمل دستاویز ہوٹلوں اور موبائل فون نمبر پر حاصل اعدادوشمار میں یقیناً تضاد ہوس
کتا ہے اوران کی روشنی میں بننے والی پالیسی یا امداد متاثرین کو متاثر کرے گی ضرورت اس امر کی ہے کہ اب اگر محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کے مطابق بارشیں ہوتی ہیں تو پھر ان متاثرین کا کیا بنے گا اگر نہ ہوں تو گندگی طغیانی کے باعث متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض پھوٹنے کا خطرہ ہے انسانی جانیں امداد سے زیادہ اہم ہے اس لیے پالیسی اور سوچ اپنائی جائے کہ انسانی جانوں کو محفوظ بنایا جائے اوران کے لیے رہائش خوراک قیام بحال کیا جائے وگرنہ پانچ سال قبل ہونے والے زلزلہ کے سکول آج بھی نہیں بنے لوگ کمرپسی کی زندگی گزار رہے ہیں معاوضوں کے لیے دربدر ہیں ان تلخ تجربات سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے