سیالکوٹ میں بیہمانہ قتل
تحریر: عینی نیازی
تار یخ کی کتا بوں میں منگولوں اور تا تاریوں کے ظلم و ستم کی دا ستانیں پڑ ھ کر ا کثر خدا کا شکر ادا کر تی تھی کہ اس دور سے وا سطہ نہیں پڑ ا کہ ایسے مظالم سہنے کی تاب ہے نہ دیکھنے کی تا ب ۔مگر آ ج کے ز ما نے میں جو ظلم وستم اور لا قا نو نیت کا را ج دیکھنے میں آرہا ہے اسے دیکھ کر تو منگولوں اور تا تا ریوں کے مظا لم بھی ہیچ ہیں ۔ شہر سیالکو ٹ کو اقبال اور فیض کی نسبت سے ایک خا ص مقام حا صل ہے اس شہر نے ایسے یگا نہ شخصیا ت پیدا کی جنھوں نے پو ری قوم کا سر فخر سے بلند کیا لو گو ں کو انسا نیت اور جینے کا را ستہ دکھا یا ، آج اسی شہر فیض و اقبا ل کے لو گو ں کے بے حسی اور خو د غر ضی نے تما م ملک کے دردمند دل رکھنے وا لو ں کو ا ضطراب میں مبتلا کر دیا ہے منیب اور مغیث کی بیہمانہ قتل ایک ایسا نا سور ہے جو ہما رے دلو ں میں لہو بن بن کر رستا رہے گا ۔
سیا لکوٹ کے بد نصیب خا ندان کے دو بیٹے منیب اور مغیث کو جس در ند گی اور سفا کا نہ طر یقے سے قطرہ قطرہ موت سے نو ازاگیا اس فعل کی جتنی مذ مت کی جا ئے کم ہے منیب اور مغیث کے با رے پو را علا قہ اس با ت کی گو اہی دے رہا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے غیر قا نو نی کا م میں ملو ث نہ تھے ۔ وقوع والے روز سحری اور فجر کی نما زکے بعد کر کٹ کھیلنے نکلے تھے ان کے والد جنا ب سجا د بٹ کے تین بچے جن میں دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے ان کے گھر کا ما حول انتہا ئی مذ ہبی ہے چھو ٹے بھا ئی حا فظ قر آن ہے اوراکثر تر ا و یح پڑ ھایا کر تا تھا ایسے ما حو ل کے پر وردہ نو جو انو ں پر قتل کا الزام لگاکر انھیں عبرت کا نشان بنا نے کے لیے قا تلو ں کوپو لیس کی مکمل پشت پنا ہی حا صل تھی بھرے مجمعے میں جس بے دردی اور سفا کیت سے ڈنڈے ما رمار کر قتل کیا گیا اس پر کچھ لکھنے ہو ئے با ر بار دل لرز اٹھتا ہے لغت ساتھ دینے کو تیا ر نہیں دنیا میں کوئی ایسی زبا ن نہیں جو اس دکھ کو الفا ظ دے سکے کئی با ر رونے کے با و جود دل کو صبر نہیں آتا دکھ تو اس با ت کا ہے کہ درجنو ں لو گو ں کے ہجو م میں یہ ظلم ڈ ھا یا گیا لو گ کس مٹی کے بنے ہو ئے تھے گھیرا ڈا ل کر کیا بندر کا نا چ یا پتلی تما شہ دیکھ رہے تھے کیایہ بے جا ن پتلیا ں تھیں کہ ان کے دلو ں میں رحم نہیں آیا ان کے دل لرز نہ گئے کیا یہ بچو ں والے نہ تھے کیا انھیں اس با ت کابھی خوف نہ آیا کہ ہما را معا شرہ اند ھی تقلید کا معا شرہ ہے آج اگر ان در ند وں کے ہا تھ نہ روکے گئے اور یہ رسم چل نکلی تو کل ان کے بچے بھی کسے چورا ہے پر یا کسی نکڑ پر اسی در ندگی کا شکا ر ہو ں گیں وہ اس خو نی منظر کو آنکھو ں سے دیکھتے ہو ئے لطف اندوز ہو رہے تھے ان نو جو ا نوں کی سسکیا ں ، آہیں ، مد د کی پکا رآخرکا ر دم تو ڑ گیئں ان شقی القلبوں نے لاش کی بے حر متی کی اسے گھسیٹا گیا عبرت کا نشان بنا نے کے لیے ان کی لا شو ں کو کھمبوں سے لٹکا دیا گیا یہ سب کچھ قا نو ن نا فذ کر نے والے پو لیس کے سامنے کھلے طور پر کیا گیا با قا عدہ لو گوں کو اس کی و یڈ یو بنا نے کی دعوت دی گئی کہ آئیدہ کےلے عبرت رہے ، کڑو ڑوں لو گو ں نے پوری دنیا میں ٹی وی اور انٹر نیٹ پر اس کی فو ٹیج دیکھی ۔
ایک طرف ہم اجتمعا ئی دعا وئں اور استغفار کی با ت کر تے ہیں کہ وطن عز یز کو عذابو ں نے گھیرا ہو اہے ہم پر یشان ہیں ہم پر عذاب کیو ںآتے ہیں زلزلہ ،سیلا ب ا ور پلین کریش کیوں ہو تے ہیں ،جب ملک میں قا نو ن کے رکھوا لے قا نون کے دشمن بن جا ئیں جب عوام ظلم ہوتا دیکھ کر روکنے کے بجا ئے تما شہ دیکھیں ، انسان کے دل سے انسان کا احترام اٹھ جا ئے ، ہر طر ف قیل و قال ہو ، ہر طرف مسیحاوں کا ہجو م ہو اورمر یض دم تو ڑ رہا ہو، خدا خو فی نہ رہے ،جب مد د کی آواز بے حس انسانوں کی گو یا ئی آواز کے سمندر میں ڈوب جا ئے جب آنکھو ںمیں آنسو بے بسی اور لا چا ری ہو اور چا روں طرف و حشت و ظلم کا رقص کرتے جشن منا نے والے در ندے ہو ں پھر عذاب تو اترنے ہیں کیا ہم ظالم اور بے حس قوم بن چکے ہیں ہما ری آنکھو ں پر غلفت کی پٹی بند ھی ہے کہ یو م ھساب نہ آئے گا ۔
کیا یہ ضروری ہو گیا ہے کہ جس واقعہ کو میڈیاپیش کرئے اسی پراربا ب اختیا ر کی نظر کرم ہو، کیا اس سے پہلے کسی عوامی حکو مت کے نما ئندے کو یہ زحمت نہ ہو ئی کہ اس پر ایکشن لیتا ان کے علا قے سے تعلق رکھنے والے خو ا جہ آصف ، خو ا جہ مر تضی احسن یا زا ہد حامد کسی ایک نے اس بے بس خا ندان سے اظہا ر ہمد ردی کی۔ ،محتر مہ ڈا کٹر فر دوس عا شق اعوان اسی حلقے سے تعلق رکھتی ہیں کا ش کہ جتنی بھا گ دوڑ انھو ں نے شعیب ملک کو انصاف اورثانیہ مرزا دلا نے میں کی تھی اس کا دس فی صد بھی ادھر تو جہ دے سکتیں ۔
اس واقعہ کے قانو نی پہلو کے با رے میں ایک بات میڈ یا کے ذریعے منظر عام پر آئی ہے کہ اس واقعہ سے ذرا پہلے ایک واردات ہو ئی تھی جس میں بلا ل نا می شخص پستول کی گو لی لگنے سے ہلا ک اور دو افرد ذخمی ہو ئے تھے چنا چہ منیب اور مغیث کا تعلق ان واردات سے جو ڑ دیا گیا اور دو نوں بھا ئی مقتول پا رٹی کے بدلہ کا نشانہ بن گئے اگر فر ض کر بھی لیاجا ئے کہ کہ وہ اس واقعہ میں ملو ث تھے تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہپں کہ جنگل کا قانو ن نا فذ کر کے پو لیس کی نگر انی میں در ندگی کا سلو ک کیا جا ئے عوام کھڑے تما شہ دیکھیں تو پھر قا نو ن نا فذ کر نے وا لے اداروںکی کیا بضرورت باقی رہ جا تی ہے ایک بڑا جر م تو پو لیس نے اپنے فر ائض کی غفلت میں کھلی شا ہرا ہ پر درندگی کا مظا ہرہ اپنی نگرانی میں کرا یا دوسرا بڑا جرم تما شائی عوام کا بھی ہے ۔
چیف جسٹس افتخار چو ہدری نے اس واقعہ کا سو مو ٹو نو ٹس لیتے ہو ئے اس کی مکمل تحقیق کرنے کا حکم دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ ” غضب خدا کا کسی نے بھی ظالمو ں کا ہا تھ رو کنے کی کو شش نہ کی لو گ بھو کے ننگے تو مر رہے تھے اب سڑک پر پو لیس کی مو جو دگی میں غنڈو ں کے ڈ نڈے ما ر مار کر ہلا ک بھی کئے جا ئیں گیں اور کو ئی کہنے والا نہ ہو گا کیا کسی مہذب معا شرے میں اسکا تصور کیا جا سکتا ہے “ ا نھو ں نے مزید انتظامیہ سے سوال کیا کہ اس قسم کے واقعات سے پو ری دنیا میں پاکستا ن کے با رے میں کیا پیغام جا ئے گا کہ اتنے بڑے واقعہ کے با وجو د کو ئی ایکشن نہیں لیا گیا “ ۔ چیف جسٹس کے حکم پر تحقیقا تی کمیشن شواہد جمع کر نے میں مصروف ہے جلد اپنا کا م مکمل کر لے گی ویسے تو ان درندوں نے تما م مظالم کی ویڈ یو بنا کر خود اپنے جر ائم کے خلا ف ثبوت فر اہم کر دیے ہیں اس لیے زیا دہ لمبے تفشیش کی ضرورت نہیں پڑے گی ا ہمیت صرف اس با ت کی ہے کہ مجرم کیفر کردار تک ضرور پہنچنا چا ہیے دیکھا یہ گیا ہے کہ جتنا مقدمہ طو ل پکڑ تا ہے اتنا ہی مجرم پر قانو ن کی گر فت ڈھیلی پڑ ناشروع ہو جا تی ہے نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ مجرم پھر ٓزاد ہوکر ظلم وستم کی دا ستا نیں رقم کر تے ہیں۔