سفید جھوٹ
طارق حسین بٹ(چیر مین پاکستان پیپلز ادبی فورم)
پاکستان کی تخلیق کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔قائدِ اعظم محمد علی جناح کی پر امن جدو جہد انسانیت کے ماتھے کا خوبصورت جھو مر ہے۔ پاکستان اس لئے معر ضِ وجود میں لایا گیا تا کہ جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں کا مستقبل محفوظ ہو جائے اور وہ اپنے دین، روایات ، ثقافت اور تہذیب کے مطابق اپنی زندگی بسر کر سکیں۔آزادی کی اس جنگ میں لوگوں نے مال و جان کی قربانی دی لیکن تشدد کی راہ کبھی نہیں اپنائی۔ جن لوگوں نے تشدد کا راستہ اختیار کیا وہ وقت کی دھول میں کہیں گم ہو گئے کیونکہ مہذب دنیا میں تشدد اور اسلحے کی زبان عوامی پذیرائی کا کبھی معیار نہیں بن سکتے۔ سبھاش چندر بوس اور علامہ عنائت اللہ مشرقی کی جما عتوں نے آزادیِ ہند کے لئے تشدد کی راہ اپنائی تھی لیکن آج کے جمہوری جدو جہد میں ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ جمہوری جدو جہد میں بعض اوقات بڑے مشکل مقامات آتے ہیں لیکن ایک بڑے قائد کو بڑے تحمل اور بصیرت سے اس میں سے ایسی راہ نکالنی ہوتی ہے جس سے منزل نگاہوں سے اوجھل نہ ہوسکے اور پر امن جدو جہد کی قوت بھی برقرار رہے۔ تحریکِ پاکستان میں بڑے مسلح گروہ اورجما عتیں تھیں جو پر تشدد انداز سے برطانوی استعمار سے نپٹنا چاہتی تھیں۔ مذہبی جماعتیں بھی تو اسی پر تشدد مسلک کی حامی تھیں اور جنگ و دل کی راہ اپنا چاہتی تھیں لیکن قائدِ اعظم نے پر امن جدو جہد کی راہ سے سرِ مو بھی انحراف نہ کیا تبھی تو اتنی عظیم الشان کا میابی ان کا مقدر بنی اگر وہ بھی کم فہم لوگوں اور مذہبی قیادت کے اندازِ فکر کو قبول کر کے تشدد کی راہ اپناتے تو پھر دانش اور حکمت سے دنیا میں کامیابی کے تصور کو جلا کہاں سے ملتی۔
ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو پر تشد کی راہ اپنانے کا بڑا دباﺅ تھا۔بی بی اور ان کے بھائی میر مرتضے بھٹو کے درمیان اس حوالے سے کافی اختلافات تھے ۔ میر مرتضے بھٹو مارشل لا کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا حامی تھا لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو پر امن جمہوری جدو جہد سے مارشل لا کو شکست دینا چاہتی تھیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی سوچ جمہوری سوچ تھی جب کے میر مرتضے بھٹو کی سوچ مسلح جدو جہد کی سوچ تھی اور میر مرتضے بھٹو مسلح جدو جہد سے ہی جنرل ضیا لحق کے شب خون کے خاتمے کی راہ دیکھ رہا تھا۔ پی آئی اے کے طیارہ کا اغواہ بھی ا سی سوچ کی عکاسی کرتا تھا۔اگر چہ دونوں شخصیتوں کے مقاصد مارشل لا کی شکست اور جمہوریت کی بحالی تھی لیکن طریقہِ کار کے اختلاف نے دو نوں کی راہوں کو جدا کر دیا تھا۔ عجیب اتفاق ہے کہ میر مرتضے بھٹو کو بھی زندگی کے تجربات سے گزرنے کے بعد آخرِ کار انتخابی سیاست میں ہی پناہ لینی پڑی تھی کیونکہ جمہوری جدو جہد ہی آخری را ستہ ہو تا ہے جو صحیح منزل کی جانب راہنمائی کرتا ہے ۔ جب کبھی بھی جذبات عقل و شعور پرغالب آجاتے ہیں تو پھر تشدد کی راہ سے بچنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ جذبات میں ہوش و حواس کو قابو رکھنا اور بصیرت سے روشنی تلاش کرنا دیدہ وروں کا ہمیشہ مطمعِ نظر رہا ہے اور جو کوئی بھی اس فکر پر لبیک کہتا ہے اسے مٹانا اور شکست دینا کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ وقت نے ثابت کیا کہ آخری فتح محترمہ بے نظیر بھٹو کی فکر کا مقدر بنی اور مسلح جدو جہد وقت کی دھول میں کہیں گم ہو کر رہ گئی۔بیلٹ بلٹ سے زیادہ طاقتور ہے اور اسی اندازِ فکر نے پاکستان کی سالمیت کو یقینی بنایا ہوا ہے جس دن ہم نے بیلٹ سے اپنا اعتماد اور یقین توڑ کر بلٹ کا راستہ اپنا لینے کا فیصلہ کر لیا اس دن پاکستان کی بقا پر بھی سوالیہ نشان لگ جائے گا۔
حکیمِ اول سقراط اس سوچ کا سب سے بڑا نمائیندہ ہے۔حکومتِ وقت نے جب اسے زہر کا پیالہ پینے کا حکم دیا تو اس نے تشدد کی راہ اپنانے کی بجائے اسے قبول کر لیا۔ سقراط پر فردِ جرم عائد کرنے کے بعد اسے اپنی صفائی میں خطاب کا جب موقع فراہم کیا گیا تو اس نے کارپوریشن کے ہال میں جو خطاب کیا اس کی صدائے باز گشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔اس نے کہا کہ قوم کو میرا شکر گزارہو ناچائیے کہ میں حق و صداقت کی آواز بن کر پورے عالم میں سچائی کا نور پھیلا رہا ہوں لیکن ستم ظریفی تو دیکھئے کہ میرا ممنون و مشکور ہونے کی بجائے ان لوگوں نے مجھے ہی سزا ئے موت کا حق دار ٹھہرا دیا ہے جو خود ان کی اپنی بھی توہین ہے۔ انھیںسزائے موت کا فیصلہ سنانے کی بجائے میری شانداد خدمات پر مجھے اعزاز سے نوازنا چائیے تا کہ ا ن کی عزت اور وقار میں بھی اضافہ ہو جاتا۔ جیل میں اپنے شاگردوں سے اس کا آخری خطاب اس کی فہم و فراست کا نادر شاہکار ہے جس میں وہ انھیں دانش کی حکمرانی کا درس دیتا ہوا نظر آتا ہے ۔ سقراط سے آخری ملاقات میں اس کے شاگرد اس کی سزا پر مغموم تھے اور ان کی آنکھیں آنسووں سے لبریز تھیں تو اس وقت سقراط ان کی دلجوئی کرتا ہے اور انھیں اپنے آنسو پونچھ لینے اور غم کو جھٹک دینے کی تلقین کرتا ہے۔وہ انھیں کہتا ہے کہ مایوسی کو جھٹک دو کیونکہ میں ایک ایسی دنیا میں جا رہا ہوں جہاں پر کسی کے ساتھ جبر نہیں ہو گا کسی کے ساتھ ظلم اور نا انصافی نہیں ہو گی اور کسی کو نا حق پھا نسی پر نہیں چڑھایا جائے گا ۔ وہ عدل و انصاف کی ایک ایسی دنیا ہے جس میں فیصلے اعمال کی بنا پر رو بہ عمل آئیں گے لہذا تم لوگ اپنی آہوں اور سسکیوں کو روک لو کہ میں نا انصافی کی دنیا سے انصاف کی دنیا کی جانب محوِ سفر ہو رہا ہوں۔ سقراط کا ہونہار شاگرد افلاطون جو اس آخری ملاتات میں سقراط کی دانش سے مستفیض ہو رہا تھا سقراط کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنی شہرہ آفاق کتاب ریپبلک تصنیف کرتا ہے ور اسکی بنیادیں ا نصاف، قانون اور صداقت پر رکھتا ہے اور ایسی ریاست کا تصور پیش کرتا ہے جو ظلم و زیادتی سے ماورا ہو گی۔ ۔
پاکستان میں بہت سی ا یسی تنظیمیں ہیں جو پر تشدد جدو جہد پر یقین رکھتی ہیں ۔ان جماعتوں کی عوام میں مقبولیت نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ پاکستانی لوگ بنیادی طور پر پر امن ہیں۔۹۷۹۱ میں روسی جارحیت کے بعد افغانستان سے افغانیوں کی پاکستان میں آمد نے تشددآمیز رویوں سے پاکستانیوں کو متعارف کروایا۔ افغان مہاجرین کی موجودگی نے پاکستانی معاشرے میں تشدد کے رحجان میں اضافہ کیا اور امن کی سلطنت میں اسلحے اور بارود کے دھویں نے ماحول کو پر تشدد بنا دیا۔ کلاشنکوف کلچر اور ہیروین کلچر نے پاکستانی قوم کو ایک نئی ڈگر پر ڈال دیا۔ امن کی جگہ تشدد کا رنگ دھیرے دھیرے غالب آنے لگا اور وہ لوگ جو امن کے علمبردار تھے ان میں بھی تشدد کے رحجان میں اضافہ ہوتا چلا گیاپاکستانی معاشرہ دھیرے دھیرے بدلنے لگا اور پاکستان کے اندر افغانیوں کے قیام نے پاکستان میں نئے مسائل کو جنم دینا شروع کر دیا۔خود کش حملے اور پر تشدد کاروائیں معمول کا حصہ قرار پائیں۔ڈاکے اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار کے واقعات نے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی اور آج لوگوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ اس عذاب سے کیسے جان چھڑائیںزندگی اور موت ہر لمحہ آ نکھ مچولی کرتی ہو ئی نظر آتی ہے اور لوگ اس طرح کی غیر یقینی صورتِ حال میں زندگی کے دن گزار رہے ہیں ۔
نائن الیون کے واقعہ نے جس طرح سے موجودہ دنیا کی صورت گری کی ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ نائن الیون کے بعد اسامہ بن لادن اور امریکہ کے درمیان ایک غیر اعلانیہ جنگ شروع ہو گئی۔ امریکہ اسامہ بن لادن کو ہلاک یا گرفتار کرناچا ہتا تھا لیکن اسامہ بن لادن نے روپوشی اختیار کر لی اور امریکہ اسے تلاش کرنے میں ناکام ہو گیا۔ تارا بورا پر امریکی فضائی حملے میں خدشہ تھا کہ اسامہ بن لادن ہلاک ہو چکا ہے لیکن اس وقت سب کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب یہ بات منظرِ عام پر آئی کہ اسامہ بن لادن زندہ ہے اور پاکستان کے علاقے ایبٹ آباد میں روپوش ہے۔ امریکہ نے خفیہ کاروائی کر کے اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا پاکستانی عوام اس انکشاف پر حیران و پریشان تھے کہ آخر اسامہ بن لادن نے روپوش ہونے کے لئے پاکستانی سر زمین کا انتخاب کیوں کیا۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اسامہ بن لادن ایک مفرور ملزم ہے جس کی ہلاکت کو یقینی بنا نا ضروری ہے۔اسی قرار داد کے مطابق ۲ مئی کو امریکہ نے ایبت آباد میں کاروائی کر کے اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا۔ اس میں کسی شک و شبہ کی مطلق کوئی گنجائش نہیں ہے کہ مریکہ کے اس اقدام سے پا کستان کی خود مختاری پر حرف آیا ہے لیکن وہ کون ہے جو اس خودمختاری پر حرف کا سبب بنا ہے۔
پاکستان کی دھرتی صوفیا کی د ھر تی ہے ۔یہ محبت کے نغمے الاپنے والوں کی د ھر تی ہے یہ اقبال کے نغمہِ خودی کی اجلی تصویر ہے یہ قائدِ اعظم کی پر امن جدو جہد کا نادر شاہکار ہے ہے۔یہ جانبازوں کی د ھر تی ہے یہ ہماتے آباﺅ اجداد کی جراتوں کی امین دھرتی ہے ۔اس میں پیار کے رنگ ہیں الفت کی چاشنی رچی بسی ہے، اس میں انسان دوستی کی پر فشاں کرنوں کا راج ہے لہذا میری دھرتی پر دھشت گردوں اور شدت پسندوں کے لےئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسامہ بن لادن اور ان کے بہت سے رو پوش ساتھیوں کے لئے پاکستان میں کوئی جگہ نہیں ہو سکتی۔ پاکستان پاکستانیوں کا ہے لہذا اس میں انارکی اور بد امنی پھیلانے والوں کو پناہ نہیں دی جا سکتی۔اسامہ بن لادن سعودی شہری تھا ، اسکا فرض تھا کہ اگر اس نے امریکہ کے ساتھ جنگ کرنی تھی تو وہ اپنے وطن کی سر زمین استعمال کرتا اور امریکہ سے جس انداز سے چاہتا جنگ کرتا ہمیں اس پر اعتراض کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں تھا لیکن اس نے پاکستان میں رو پوشی اختیار کر کے پاکستان سے دشمنی کی ہے اور اسکے وقار کو خاک میں ملا نے کی کوشش کی ہے۔ اس نے اپنے اعمال سے پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کی ہیں، اس نے پاکستان کی سلامتی کو داﺅ پر لگایا ہے جس کا اسے کوئی حق حاصل نہیں تھا۔ پاکستان کسی کی ذاتی میراث نہیں ہے کہ اسے جو کوئی بھی چاہے اپنے مقاصد کےلئے استعمال کرتا پھرے۔۔
اسامہ بن لادن اور ان کے ہمنواﺅں نے پاکستان میں روپوشی کا فیصلہ کر کے پاکستانی قانون کی خلاف ورزی کی ہے، پاکستانی عوام کے اعتماد کو دھوکہ دیا ہے اور عالمی برادری میں اسے ندامت اے ہمکنار کیا ہے۔ جس پر اسامہ بن لادن کے روپوش ساتھیوں کے خلاف قانون کو حرکت میں لایا جانا چا ئیے اور ان کو قانون نافذ کرنے والے متعلقہ اداروں کے حوالے کیا جانا چائیے ۔ ۲ مئی ۱۱۰۲ پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا دن ہے جس نے پاکستانی قوم کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ۔ امریکی حکومت نے پاکستانی حکومت کو اعتماد میں لئے بغیر اس کے علاقے میں اپریشن کر کے اسامہ بن لادن کو موت کے گھاٹ اتار دیا لیکن اس سے پاکستان کی خودمختاری کو جو نقصان پہنچا ہے اس کا ازالہ کون کرے گا۔ پیشتر اسکے کہ صورتِ حال مزید ابتر ہو جائے پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اور اسامہ بن لادن کے تمام ساتھیوں کو گرفتار کر کے متعلقہ اداروں کے حوالے کرنا ہو گا وگرنہ ہماری لا پرواہی ایک دفعہ پھر امریکہ کو ایسا قدم اٹھانے پر مجبور کر سکتی ہے جو ہماری خود مختاری کو روندنے کے مترادف ہو گا ۔دھشت گرد گروہوں سے ہمدردی اور چشم پوشی ملک سے دشمنی کے مترادف ہو گی اور ہمیں اس راہ سے ہر حال میں بچنا ہو گا کیونکہ یہ راہ ہمیں ایبٹ آباد جیسے سا نحے سے دوبارہ دوچار کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔۔۔ ۔
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اسامہ بن لادن اور اسکے بہت سے ساتھی پاکستان میں روپوش ہیں ؟ کیا اسامہ بن لادن کی روپوشی ملکی اور بین الا قوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی نہیں تھی؟ یقینا ایسا ہی ہے تو پھر ہم اتنا شور و غوغا کیوں کر رہے ہیں۔یا تو اس بات کا فیصلہ کرلیا جائے کہ ہم اقوامِ متحدہ ، اس کے عالمی اداروں اور ان کے قوانین کو تسلیم نہیں کرتے لیکن اگر ہم ایسا بڑا فیصلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تو پھر ہمیں عالمی اداروں کے قوانین کی پیروی کرنی ہو گی۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اسامہ بن لادن ایک ملزم ہے اور ہم نے اسی کو پچھلے کئی سالوں سے اپنے گھر میں چھپا یا ہو اتھا کیا ہمارا کردار اورر ویہ عالمی اداروں سے بغاوت نہیں ہے ؟جھوٹ کے پاﺅں نہیں ہوتے اور ہم دنیا کی نظروں میں جھوٹے ثابت ہو چکے ہیں کیونکہ ۲ مئی کو اسامہ بن لادن ہماری ہی سرزمین پر امریکی اپریشن میں ہلاک ہوا ہے حالانکہ ہم اسی بات کی دہائی دے رہے تھے کہ اسامہ کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے لہذا وہ پاکستان میں کیسے ہو سکتا ہے لیکن اسامہ بن لادن پاکستان میں تھا اور یہ بات ہمیں جھو ٹا ثابت کرنے کےلئے کافی ہے۔اپنے اس سفید جھوٹ کی وجہ سے ہم عالمی برادری میں مجرموں کی طرح سر جھکائے کھڑے ہیں اور اپنے دفاع کےلئے ہمیں الفاظ نہیں مل رہے کیونکہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی نے ہم سے الفاظ کی طاقت چھین لی ہے۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،