URDUSKY || NETWORK

سفرِزندگی کے تنہا راہی

131

سفرِزندگی کے تنہا راہی

تحریر٭محمد سکندر حیدر (بو لتے لفظ)
راہ زندگی کی مسافت میں فطری اور طبعی تقاضوں کی تکمیل کے لیے انسان کا سماجی رشتوں سے منسلک ہونا اُسی قدر ضروری ہے جس قدر کسی تپتے صحرا میں پیاس کی شدت سے جھلستے ہوئے انسان کے لیے پانی کی دستیابی ضروری ہے اِس امر کی حقیقت و اہمیت سے آگاہی کے باوجود ہمارے ہاں پھربھی کئی افراد تجرد کی زندگی گزارناپسند کرتے ہیں یاپھر گزارنے پر مجبور ہیں حالانکہ ہر انسان بلاتفریق ، مذہب وملت، امارت غربت اور رنگ و بواِس سچائی سے بخوبی آگاہ ہے کہ جو مٹھاس اور خوشی گھر کے آنگن میں بچوں کے شور شربے، میاں بیوی کی محبت بھری چھوٹی چھوٹی باتوں پر تکرار، رشتہ داروں سے میل ملاپ اور گلے شکوﺅں کی نوک جھونک میں خدا نے جو پوشیدہ رکھی ہے وہ تجرد کی زندگی میںکہیں بھی نہیں ہے۔تجرد کی زندگی بسر کرنے والے مرد وزن کی زندگیوں کا مشاہدہ کریں تویہی معلوم ہوتا ہے کہ اِن کنواروں کی زندگیوں پر تنہائی، غمی، اُداسی اور ویرانی کی پرچھائیاں اکثر وپیشتر سایہ فگن رہتی ہیں۔وہ شریک حیات کی رفاقت سے محروم رہتے ہیں انھیں کوئی ابو، بابا جانی کہہ کر نہیں پکارتا۔ میرے سرتاج، میرے حضور ، منا کے ابو جیسے الفاظ سننے سے محروم رہتے ہیں۔میاں بیوی کے درمیان تنہائیوں میں ہونے والی سرگوشیوں کی چھنکار اور ناز وانداز کی باتیں اِن کے لیے بے معنی ہوتی ہیں ۔گھریلوبجٹ کے متاثر ہونے پر انھیں تنگ نہیں ہونا پڑتا۔بچوں کا شور اور شرارتیں انھیں تنگ نہیں کرتیں۔ہوٹلوں سے روٹی کھانی پڑتی ہے دفتروں اور دُکانوں سے گھر جانے کی کوئی جلدی نہیں۔بس تنہائی کا ایک حصارہوتا ہے جو ہمہ وقت انھیں اپنی قیدمیں رکھتاہے ماہرین نفسیات کے مطابق ہمارے معاشرے میں اگرچہ تجرد کی زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے لیکن یہ لوگ تعدادمیں جتنے بھی ہیں اور جہاں کہیںبھی ہیں وہ ہمارے معاشرے کے ایسے انڈی کیٹرہیں جو ہمیں بتاتے ہیں کہ اُونچ نیچ سے ہماری معاشرتی اقدار، ذات برادری کے چکر سے ہمارے سماجے رویے،غلط روایات اور بوسیدہ رسوم کی ضد سے کس قدر ہماری سماجی زندگی متاثرہے۔اخبار ی اطلاعات کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد لڑکیوں کی شادی غربت کی بناپر نہیں ہوسکی اور اِن میں 40لاکھ سے زائد ایسی لڑکیاں ہیں جن کی شادی کی عمر بھی گزرچکی ہے۔معاشی ناہمواریوں کی وجہ سے معاشرے میں دیر سے شادی کرنے کا رحجان بڑھ رہاہے 35سالہ پڑھی لکھی دوشیزہ کے لیے25سالہ دُولھا اور 40سالہ لڑکے کے لیے 16سالہ دُلہن کی تلاش کرنے کا رحجان بڑھ گیا ہے ۔تجرد کی زندگی گزارنے والے 70سالہ نورمحمد عرف نورو بابانے اپنے کنوارے پن کے بارے میں بتایاکہ ابھی اُس کی عمر10سال کی تھی کہ اُس کے والدین اللہ کو پیارے ہوگئے اُس کے چچا نے اُس دورِیتیمی میںاُس کے سرپر شفقت کا ہاتھ رکھا۔وہ زمانہ سادگی اور خلوص کاتھا۔چچانے نہ صرف اُس کی پرورش کی بلکہ جوان ہونے پر اُس کی منگنی اپنی بیٹی سے بھی طے کردی۔ابھی شادی ہونا باقی تھی کی چچا بھی اللہ کوپیارا ہوگیا۔ چچا کے بعد چچی نے اُس کی منگیتر کا رشتہ دینے سے انکار کردیا اور اُس کی شادی زبردستی اپنے بھانجے سے کردی۔ میں دل برداشتہ ہوکر چچی کا گھر ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر گاﺅں سے شہر آیا گیا۔اُس کے بعد دل میں دُکھوں نے ایسا اپنا گھر آباد کیا کہ آج تک میں اِسے ویران نہیں کرسکا اور اب تو گزری ہوئی زندگی اُدھوری خوشیوں کا ایک سپنا لگتی ہے۔50 سا لہ ایک سرکاری ملازم نے اپنی تجرد کی زندگی کے بارے میں بتایا کہ وہ ابھی زمانہ طالب علمی کی بھول بھولیوں میں مدہوش تھا کہ اُس کے والد روڈ ایکسیڈنٹ میں وفات پاگئے تو چارجوان بہنوں کی ذمہ داری دبے پاﺅں اُس کے کندھے پر آن پڑی تو پڑھائی چھوڑ کر مجبور اً اُسے سرکاری محکمہ میں کلرک کی نوکری کرنی پڑی ۔کمیٹیاں ڈال کر چار بہنوں کو عزت سے رخصت کرناپڑا سال ہاسال تک روزی روٹی کے چکراور بہنوں کی شادی کے اُدھاروں نے وقت گزرنے ک کا احساس ہیں نہیں ہونے دیا۔ اپنی شادی کے متعلق سوچا تھا کہ بہنوں کے ہاتھ پیلے کرنے کے بعد اپنے بارے میں پھر کچھ سوچوں گا لیکن اب تو دبیز شیشوں کی عینک چہرے سے چمٹ گئی ہے جسم اپنابوجھ اُٹھانے سے قاصر ہے رفیق حیات کابوجھ کہاں سہہ سکے گا۔والدہ اللہ کو پیاری ہوگئی ہیں بہنیں اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں ۔ فون پر اُن کی خیریت دریافت کرلیتاہوں۔زندگی دفتری فائلوں کی رفاقت میں گزر رہی ہے تاہم پھربھی کبھی کبھار دوسروں کے بچوں اور میاں بیوی کی ازدواجی زندگی کو دیکھ کر دل میں تنہائی کا احساس دُکھ ضرور دیتا ہے بیماری اور دکھ میں تو بالخصوص شریک حیات کی کمی بہت محسوس ہوتی ہے دل کی بہت سی باتیں اَن کہی سی محسوس ہوتی ہیں لیکن حالات و وقت کی ستم ظریفی سے یہ سب گلے شکوے اب بے معنی سے لگتے ہیں۔ علم نفسیات کے مطابق مجرد افرادکی چار اقسام ہیں پہلی قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جو سربراہ خانہ کے انتقال اور غربت کے باعث اپنی زندگی کو اپنے دیگر رشتہ داروں کے لیے وقف کردیتے ہیں اور اِس فرض شناسی کی جد وجہد میں ان کی اپنی شادی کی عمر دبے پاﺅں نکل جاتی ہے۔ دوسری قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جوسماجی اور معاشی ناہمواریوں کی ستم ظریفی کاشکار ہوجاتے ہیں مثلاً جہیز کی لعنت کی بھینٹ چڑھنے والی غریب لڑکیاں، والدین کی ضد کی بنا پر امیر لڑکوں کے تلاش میں سدا کے لیے کنواری بیٹھ جانے والی لڑکیاں، ذات برادری سے باہر لڑکیوں کی شادی نہ کرنے کی رسم کی بھینٹ چڑھنے والی لڑکیاں،بے روز گاری کی سولی پر چڑھنے والے نوجوان، معاشی طور مستحکم نوجوانوں کے نخروں کی بھینٹ چڑھنے والی غریب لڑکیاں، اور نام نہاد آئیڈیل ازم کی بناپر کسی کو پسند نہ کرنے والے لڑکے اور لڑکیاں۔تیسری قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جو ذاتی اغراض و مقاصد کی تکمیل کی خاطر شادی نہیں کرتے مثلاًمحبت میں بے وفائی کا دُکھ اُٹھانے والے ، کسی مشن کی خاطر شادی نہ کرنے والے،شادی اور بچوں کو جنجال سمجھنے والے، عیاش مزاج طبیعت کے مالک مرد وغیرہ جبکہ چھوتی قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جوجسمانی اور نفسیاتی امراض کی بناپر شادی نہیں کرتے ہیں مثلاً Obsessive Disorder نامی بیماری میں مبتلا افراد اپنی روٹین کی زندگی میں کسی کی مداخلت پسند نہیں کرتے۔ شیزو فریینا Schzofrenia نامی بیماری میں مبتلا افراد میں دوسروں سے الگ تھلگ رہنے کا جنون ہوتا ہے ۔ عورتوںمیں سیکس فوبیا Sex Phobia نامی بیماری خواتین کو شادی کے نام سے خوف دلاتی ہے ۔نیم حکیم اور جاہل قسم کے دوستانہ مشوروں سے بعض نوجوان اپنے دل میں یہ خوف بیٹھا لیتے ہیں کہ وہ شادی کے قابل نہیں لہذا ا ُ ن کی شادی ناکام ہوجائے گی۔ فطرت کے خلاف چلنے والے یہ لوگ ساری زندگی چڑ چڑا پن، جھنجلاہٹ، غصہ ،نفرت ، عدم توازن اور ڈپیریشن کا شکار رہ کر نہ صرف خود تنگ ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی تنگ کرتے رہتے ہیں بہرحال تجرد کی زندگی کوئی اپنی مرضی سے گزارے یا اُسے حالات نے گزارنے پر مجبور کردیا ہو اِس بحث سے ہٹ کر غور کیا جائے تو یہی آگاہی ہوتی ہے کہ تجرد کی زندگی ہماری اسلامی معاشرتی و ازدواجی زندگی کے فراہم کردہ حسین تصور سے برعکس ایک زندگی ہے۔

سفرِزندگی کے تنہا راہیتحریر٭محمد سکندر حیدر (بو لتے لفظ) راہ زندگی کی مسافت میں فطری اور طبعی تقاضوں کی تکمیل کے لیے انسان کا سماجی رشتوں سے منسلک ہونا اُسی قدر ضروری ہے جس قدر کسی تپتے صحرا میں پیاس کی شدت سے جھلستے ہوئے انسان کے لیے پانی کی دستیابی ضروری ہے اِس امر کی حقیقت و اہمیت سے آگاہی کے باوجود ہمارے ہاں پھربھی کئی افراد تجرد کی زندگی گزارناپسند کرتے ہیں یاپھر گزارنے پر مجبور ہیں حالانکہ ہر انسان بلاتفریق ، مذہب وملت، امارت غربت اور رنگ و بواِس سچائی سے بخوبی آگاہ ہے کہ جو مٹھاس اور خوشی گھر کے آنگن میں بچوں کے شور شربے، میاں بیوی کی محبت بھری چھوٹی چھوٹی باتوں پر تکرار، رشتہ داروں سے میل ملاپ اور گلے شکوﺅں کی نوک جھونک میں خدا نے جو پوشیدہ رکھی ہے وہ تجرد کی زندگی میںکہیں بھی نہیں ہے۔تجرد کی زندگی بسر کرنے والے مرد وزن کی زندگیوں کا مشاہدہ کریں تویہی معلوم ہوتا ہے کہ اِن کنواروں کی زندگیوں پر تنہائی، غمی، اُداسی اور ویرانی کی پرچھائیاں اکثر وپیشتر سایہ فگن رہتی ہیں۔وہ شریک حیات کی رفاقت سے محروم رہتے ہیں انھیں کوئی ابو، بابا جانی کہہ کر نہیں پکارتا۔ میرے سرتاج، میرے حضور ، منا کے ابو جیسے الفاظ سننے سے محروم رہتے ہیں۔میاں بیوی کے درمیان تنہائیوں میں ہونے والی سرگوشیوں کی چھنکار اور ناز وانداز کی باتیں اِن کے لیے بے معنی ہوتی ہیں ۔گھریلوبجٹ کے متاثر ہونے پر انھیں تنگ نہیں ہونا پڑتا۔بچوں کا شور اور شرارتیں انھیں تنگ نہیں کرتیں۔ہوٹلوں سے روٹی کھانی پڑتی ہے دفتروں اور دُکانوں سے گھر جانے کی کوئی جلدی نہیں۔بس تنہائی کا ایک حصارہوتا ہے جو ہمہ وقت انھیں اپنی قیدمیں رکھتاہے ماہرین نفسیات کے مطابق ہمارے معاشرے میں اگرچہ تجرد کی زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے لیکن یہ لوگ تعدادمیں جتنے بھی ہیں اور جہاں کہیںبھی ہیں وہ ہمارے معاشرے کے ایسے انڈی کیٹرہیں جو ہمیں بتاتے ہیں کہ اُونچ نیچ سے ہماری معاشرتی اقدار، ذات برادری کے چکر سے ہمارے سماجے رویے،غلط روایات اور بوسیدہ رسوم کی ضد سے کس قدر ہماری سماجی زندگی متاثرہے۔اخبار ی اطلاعات کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد لڑکیوں کی شادی غربت کی بناپر نہیں ہوسکی اور اِن میں 40لاکھ سے زائد ایسی لڑکیاں ہیں جن کی شادی کی عمر بھی گزرچکی ہے۔معاشی ناہمواریوں کی وجہ سے معاشرے میں دیر سے شادی کرنے کا رحجان بڑھ رہاہے 35سالہ پڑھی لکھی دوشیزہ کے لیے25سالہ دُولھا اور 40سالہ لڑکے کے لیے 16سالہ دُلہن کی تلاش کرنے کا رحجان بڑھ گیا ہے ۔تجرد کی زندگی گزارنے والے 70سالہ نورمحمد عرف نورو بابانے اپنے کنوارے پن کے بارے میں بتایاکہ ابھی اُس کی عمر10سال کی تھی کہ اُس کے والدین اللہ کو پیارے ہوگئے اُس کے چچا نے اُس دورِیتیمی میںاُس کے سرپر شفقت کا ہاتھ رکھا۔وہ زمانہ سادگی اور خلوص کاتھا۔چچانے نہ صرف اُس کی پرورش کی بلکہ جوان ہونے پر اُس کی منگنی اپنی بیٹی سے بھی طے کردی۔ابھی شادی ہونا باقی تھی کی چچا بھی اللہ کوپیارا ہوگیا۔ چچا کے بعد چچی نے اُس کی منگیتر کا رشتہ دینے سے انکار کردیا اور اُس کی شادی زبردستی اپنے بھانجے سے کردی۔ میں دل برداشتہ ہوکر چچی کا گھر ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر گاﺅں سے شہر آیا گیا۔اُس کے بعد دل میں دُکھوں نے ایسا اپنا گھر آباد کیا کہ آج تک میں اِسے ویران نہیں کرسکا اور اب تو گزری ہوئی زندگی اُدھوری خوشیوں کا ایک سپنا لگتی ہے۔50 سا لہ ایک سرکاری ملازم نے اپنی تجرد کی زندگی کے بارے میں بتایا کہ وہ ابھی زمانہ طالب علمی کی بھول بھولیوں میں مدہوش تھا کہ اُس کے والد روڈ ایکسیڈنٹ میں وفات پاگئے تو چارجوان بہنوں کی ذمہ داری دبے پاﺅں اُس کے کندھے پر آن پڑی تو پڑھائی چھوڑ کر مجبور اً اُسے سرکاری محکمہ میں کلرک کی نوکری کرنی پڑی ۔کمیٹیاں ڈال کر چار بہنوں کو عزت سے رخصت کرناپڑا سال ہاسال تک روزی روٹی کے چکراور بہنوں کی شادی کے اُدھاروں نے وقت گزرنے ک کا احساس ہیں نہیں ہونے دیا۔ اپنی شادی کے متعلق سوچا تھا کہ بہنوں کے ہاتھ پیلے کرنے کے بعد اپنے بارے میں پھر کچھ سوچوں گا لیکن اب تو دبیز شیشوں کی عینک چہرے سے چمٹ گئی ہے جسم اپنابوجھ اُٹھانے سے قاصر ہے رفیق حیات کابوجھ کہاں سہہ سکے گا۔والدہ اللہ کو پیاری ہوگئی ہیں بہنیں اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں ۔ فون پر اُن کی خیریت دریافت کرلیتاہوں۔زندگی دفتری فائلوں کی رفاقت میں گزر رہی ہے تاہم پھربھی کبھی کبھار دوسروں کے بچوں اور میاں بیوی کی ازدواجی زندگی کو دیکھ کر دل میں تنہائی کا احساس دُکھ ضرور دیتا ہے بیماری اور دکھ میں تو بالخصوص شریک حیات کی کمی بہت محسوس ہوتی ہے دل کی بہت سی باتیں اَن کہی سی محسوس ہوتی ہیں لیکن حالات و وقت کی ستم ظریفی سے یہ سب گلے شکوے اب بے معنی سے لگتے ہیں۔ علم نفسیات کے مطابق مجرد افرادکی چار اقسام ہیں پہلی قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جو سربراہ خانہ کے انتقال اور غربت کے باعث اپنی زندگی کو اپنے دیگر رشتہ داروں کے لیے وقف کردیتے ہیں اور اِس فرض شناسی کی جد وجہد میں ان کی اپنی شادی کی عمر دبے پاﺅں نکل جاتی ہے۔ دوسری قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جوسماجی اور معاشی ناہمواریوں کی ستم ظریفی کاشکار ہوجاتے ہیں مثلاً جہیز کی لعنت کی بھینٹ چڑھنے والی غریب لڑکیاں، والدین کی ضد کی بنا پر امیر لڑکوں کے تلاش میں سدا کے لیے کنواری بیٹھ جانے والی لڑکیاں، ذات برادری سے باہر لڑکیوں کی شادی نہ کرنے کی رسم کی بھینٹ چڑھنے والی لڑکیاں،بے روز گاری کی سولی پر چڑھنے والے نوجوان، معاشی طور مستحکم نوجوانوں کے نخروں کی بھینٹ چڑھنے والی غریب لڑکیاں، اور نام نہاد آئیڈیل ازم کی بناپر کسی کو پسند نہ کرنے والے لڑکے اور لڑکیاں۔تیسری قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جو ذاتی اغراض و مقاصد کی تکمیل کی خاطر شادی نہیں کرتے مثلاًمحبت میں بے وفائی کا دُکھ اُٹھانے والے ، کسی مشن کی خاطر شادی نہ کرنے والے،شادی اور بچوں کو جنجال سمجھنے والے، عیاش مزاج طبیعت کے مالک مرد وغیرہ جبکہ چھوتی قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جوجسمانی اور نفسیاتی امراض کی بناپر شادی نہیں کرتے ہیں مثلاً Obsessive Disorder نامی بیماری میں مبتلا افراد اپنی روٹین کی زندگی میں کسی کی مداخلت پسند نہیں کرتے۔ شیزو فریینا Schzofrenia نامی بیماری میں مبتلا افراد میں دوسروں سے الگ تھلگ رہنے کا جنون ہوتا ہے ۔ عورتوںمیں سیکس فوبیا Sex Phobia نامی بیماری خواتین کو شادی کے نام سے خوف دلاتی ہے ۔نیم حکیم اور جاہل قسم کے دوستانہ مشوروں سے بعض نوجوان اپنے دل میں یہ خوف بیٹھا لیتے ہیں کہ وہ شادی کے قابل نہیں لہذا ا ُ ن کی شادی ناکام ہوجائے گی۔ فطرت کے خلاف چلنے والے یہ لوگ ساری زندگی چڑ چڑا پن، جھنجلاہٹ، غصہ ،نفرت ، عدم توازن اور ڈپیریشن کا شکار رہ کر نہ صرف خود تنگ ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی تنگ کرتے رہتے ہیں بہرحال تجرد کی زندگی کوئی اپنی مرضی سے گزارے یا اُسے حالات نے گزارنے پر مجبور کردیا ہو اِس بحث سے ہٹ کر غور کیا جائے تو یہی آگاہی ہوتی ہے کہ تجرد کی زندگی ہماری اسلامی معاشرتی و ازدواجی زندگی کے فراہم کردہ حسین تصور سے برعکس ایک زندگی ہے۔