سازشوں کے جال
فرض کریں آپ کچھ لوگوں کے ساتھ ایک راستے پر چل رہے ہیں، آپ کے دائیں بائیں دو تین منچلے بھی محو سفر ہیں،ابھی سفر کی ابتدا ہی ہوتی ہےکہ کچھ دیر بعد ایک منچلا اچانک آپ کے پیچھے آ کر آپ کی ٹانگ پر ٹھوکر مارتا ہے، آپ لڑکھڑاتے ہیں، گرنے لگتے ہیں پھر سنبھل جاتے ہیں، مگر جب اپنے پیچھےمڑکر دیکھتے ہیں تو اتنی دیر میں وہ منچلا اپنی سابقہ جگہ پر پہنچ چکا ہوتا ہے اور ویسے ہی چلنا جاری رکھتا ہے ، وہ یوں ظاہر کرتا ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، آپ حیرانی سے دوسرے منچلوں کی طرف دیکھتے ہیں تو ان کے تاثرات بھی ایسے ہی پاتے ہیں، آپ ان کی آنکھوں میں اپنے لیے حمایت تلاش کرتے ہیں تو آپ کو ان کی آنکھیں بنا تاثر نظرآتی ہیں، آپ تکلیف کے باوجود پھر چلنا شروع کر دیتے ہیں، تھوڑی ہی دیر اور گزرتی ہے تو دوسرا منچلا آپ کی دوسری طرف آ کرآپ کی دوسری ٹانگ پرپیچھے سے ٹھوکر مارتا ہے، آپ درد کی شدت سے دوہرے ہوتے ہیں ،توازن کھودیتے ہیں، گر پڑتے ہیں، پھر اٹھ کر پیچھے دیکھتے ہیں تو اتنی دیر میں دوسرا منچلا بھی اپنی پہلی حالت میں واپس پہنچ کرچل رہا ہوتا ہے، آپ ایک بار پھر مدد کے لیے دوسرے منچلوں کی طرف دیکھتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتے ہیں۔ آپ کے اندر شدید غصہ اٹھتا ہے لیکن ایک بار پھرآپ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔تھوڑی ہی سفر اور کٹتا ہے کہ تیسرا منچلا وہی حرکت کرتا ہے، تو رد عمل میں آپ خاموش نہیں رہ پاتے اور غصے سے پکارتے ہیں ،اوئے یہ تم کیا کر رہے ہو۔ اس پر تینوں منچلے ایک ساتھ ہو کر سختی سے آپ سے مخاطب ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ نے اوئے کا لفظ کیوں استعمال کیا، آپ بدتمیز ہیں، ہم آپ کے ساتھ یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے، آپ اپنا ردعمل فورا درست کریں ورنہ ہم آپ کا بائیکاٹ کر دیں گے اور دوسرے ہجوم کو بھی آپ سے تعلق توڑنے پر مجبور کر دیں گے، جب آپ کچھ دور گزرنے والے بقیہ ہجوم کی طرف دیکھتے ہیں تو اسکا ردعمل بھی منچلوں سے مختلف نہیں ہوتا۔ آپ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں اور آپ سوچتے ہیں کہ یہ سب میرے ساتھ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے منچلوں والی یہ کہانی کیوں بیان کی، لیکن اس سے پہلے میرا ایک سوال ہے آپ سب سے۔۔۔
کیاآپ ان منچلوں کےساتھ باآسانی سفر طے کر سکتے ہیں ؟
آپ کی جگہ کوئی اور بھی ہو تو وہ ان منچلوں کے بیچ سنبھل کر قدم رکھتے ہوے کتنا سفر طے کر سکتا ہے، جب ہر چند قدم کے بعد آپ کو ایک تکلیف دی جائے جبکہ آپ جانتے ہیں کہ اگر آپ سخت رد عمل میں کسی ایک منچلے کو کچھ کہہ دیں گے تو دوسرے سارے آپ کے پیچھے پڑ جائیں گے۔تو کیا ایسی صورت حال میں آپ اپنے قدموں پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہ سکیں گے؟
میرا جواب ہے نہیں،
یقینا آپ کا جواب بھی کچھ مختلف نہیں ہو گا۔
افسوس کہ کچھ ایسی ہی حالت میرے وطن عزیز کی بھی ہے، میرا وطن اپنے قیام سے لے کراب تک شدید بیرونی سازشوں کا شکار ہے، میرے وطن کے دشمن ہر پل ہر لمحہ میرے وطن کے خلاف سازشوں کا جال بننے میں مصروف ہیں۔ ابھی ہم ایک سازش کی تکلیف سے نکل نہیں پاتے کہ دوسری کوئی سازش ہمارے خلاف تیار ہو چکی ہوتی ہے۔ یہ منچلے وہی ہیں ، جن میں سے ایک اپنے آپکو دنیا کا چودھری سمجھتا ہے، دوسرا وہ جو اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے اور تیسرا وہ جو دنیا کے چودھری کے گود میں بیٹھ کر قبلہ اول پر قابض ہو چکا ہے۔
میرے بہت سے ہم وطن یہ سوچیں گے، کہ میرے وطن کی بری حالت کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے، ہماری بد دیانتی، خود غرضی، جھوٹ فریب دھوکہ ہماری بری حالت کا سبب ہے، ہم دوسروں کی عزتوں پر نظر رکھتے ہیں، ہم دوسروں کے مال پر نظر رکھتے ہیں، ہم جعل سازی کرتے ہیں۔ہم حسد کینہ اوربغض رکھتے ہیں،
لیکن نہیں، میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا، کبھی میں بھی یہی سوچا کرتا تھا، مگر میں آپ کی توجہ اس بات کی طرف ضرور دلانا چاہوں گا کہ دنیا کا کوئی معاشرہ جرائم سے پاک نہیں ہے، کوئی ملک یا اس کے عوام فرشتہ نہیں ہیں۔ جنسی بے راہ روی تو یورپ میں عروج پر ہے، زنا کی سب سے زیادہ وارداتیں تو امریکہ میں ہوتی ہیں۔ چوری ، فراڈ، دھوکہ بازی تو مغربی ملکوں میں زیادہ ہے، مگر ان سب باتوں پر قابو کیسے پایا جاتا ہے، قانون سب کے لیے برابر کر کے، اور قانون سب کے لیے برابر کب ہوتا ہے جب ملک کا سربراہ بھی کوئی جرم کرے تو اسے سزا ہو۔ مگر میرے ملک میں کچھ مختلف ہے، ہماری حکومت امریکی سر پرستی سے چلتی ہے، اگر کوئی حکومت امریکہ کے خلاف سینہ سپر ہو جائے تو اسے توڑ دیا جاتا ہے، تڑوا دیا جاتاہے، اس لیے اب حکمرانوں کے ذہنوں میں یہ بیٹھ چکا ہے کہ اگر انہوں نے تخت پر بیٹھنا ہے تو انہیں امریکی سرپرستی حاصل کرنی ہوگی، یہی وجہ ہے کہ حکومت مارشل لا سے آئے یا عوامی ووٹوں سے وہ امریکی حکم نامے پر عمل کرنا اپنی پہلی ترجیح سمجھتی ہے۔ اور جب حکومت کا سربراہ ہی اپنی کرسی بچانے کے لیے ناجائز اقدامات کرتا ہے تو پارلیمان، وزرا، سرکاری افسران، پھر ان سے چھوٹے سرکاری افسران، پولیس، اور کلرک تک وہی کرپشن چلی آتی ہے۔
بازار میں کچھ بکتا کب ہے؟ جب اسکا خریدار موجود ہوتا ہے۔ہمارے ملک کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے ، ہر وقت کوئی بیرونی سازشی عنصر حکومتی عہداداران کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے خریدنا چاہتا ہے۔کیا آپ نے کبھی سنا کہ کوئی پاکستانی حکومت یا ایجنسی نے کسی یورپی یا امریکی وزیر، مشیر یا صدر کو رشوت دینے کی کوشش کی ہو ؟
کیا کبھی ہمارا وزیر خارجہ یا صدر کا مشیر کسی دوسرے ملک کی سیاسی جماعت کے سربراہ سے ملنے گیا ہو؟ کیا امریکی الیکشن کے فورا بعد پاکستانی وزیر خارجہ امریکہ کہ دورہ پر گیا؟ امریکی صدر سے ملنے ؟ یا اسے ہدایات دینے، کیا وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں جب بھی کوئی اہم واقعہ رونما ہوتا ہے، کوئی امریکی برطانوی وزیر مشیر یا صدر کا نمائندہ پاکستان کے دورہ پر آ جاتا ہے، کبھی کبھار امریکی صدر صرف ایک ٹیلیفون کال سے کام چلا لیتا ہے۔ایسا کبھی نہیں ہوا کیوں کہ کسی پاکستانی حکومت یا تنظیم نے کبھی کسی دوسرے ملک کے خلاف سازشوں کا جال تیار نہیں کیا ، مسلمان چاہے اپنے فرائض سے کتنا بھی غافل کیوں نہ ہو لیکن اسکا ذہن ان گندگیوں تک نہیں پہنچ سکتا جہاں تک ہندو اور یہودی پہنچ چکے ہیں، بلاشبہ یہ بات سچ ہے کہ مسلمان دنیا کی رنگینوں میں کھو کر اپنے فرائض سے غافل ہو چکا ہے، اسی وجہ سے اللہ تعالی کی مدد بھی اسے حاصل نہی رہی، لیکن دشمنان پاکستان نے ہمارے ملک کے خلاف برسوں سے سازشیں تیار کر رکھی ہیں جن پر یہ لاکھوں کروڑوں ڈالر صرف کرتے رہتےہیں اور سالہاسال ان سازشوں کی تکمیل میں لگے رہتے ہیں، نہ انتظار سے گھبراتے ہیں نہ پیسے سے۔ کبھی یہ ہمارا کالا باغ ڈیم رکواتے ہیں تو کبھی کسی صوبہ میں علیحدگی کی تحریک کے لیے بے پناہ رقوم خرچ کردیتے ہیں، کبھی ہمارے دریائوں پر بند باندھ کر ہمارا پانی روکنے کی سازش کرتے ہیں۔ کبھی افغانستان سے ہمارے ملک میں دہشت گردوں کے جتھے تیار کرکے بیجتے ہیں، کبھی ہمارے ملک میں آئی ہوئی مہمان کرکٹ ٹیم پر حملہ کرکے ہماری بین الاقوامی کرکٹ بند کر دینے کی سازش کرتے ہیں۔ کبھی ہم پر ڈرون حملے کرتے ہیں، معصوم بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں پر میزائل برساتے ہیں۔ کبھی ہماری پولیس کے ھیڈ کوارٹر پر خودکش حملہ کرتے ہیں اور کبھی ہماری فوج پر، کبھی لڑکی پر مردوں کے کوڑے برسانہ دکھا کر ہمارے پیارے دین اسلام کو بدنام کرنے کی سازش کرتے ہیں، کبھی ہماری حکومت کو اپنے ساتھ ملا کر ہمارا آٹا، بجلی پانی، چینی دال سبزی کی مصنوعی قلت پیدا کر دیتے ہیں،کبھی ہمارے ایٹمی پروگرام کےخلاف سازش کی جاتی ہے، اور کبھی ہمیں ثقافتی طور پر تباہ کرنے کے لیے غیر اخلاقی افلام اور ڈرامے بنائے جاتے ہیں۔
کیوں ایسا ہوتا ہے کہ ایک سال ہمارا ملک ریکارڈ گندم پیدا کرتا ہے اور اسی سال ملک میں آٹے کی کمی پیدا ہو جاتی ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے بھلا ؟
کیوں کہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ یہ ایک مرد مومن کے سامنے آ کر کبھی اسکا مقابلہ نہیں کر سکتے،یہ مسلمانوں سے شدید خوف میں مبتلا ہیں۔ اسی لیے یہ پیچھے سے چھپ کر وار کرتے ہیں، ان کےجگر اس بات کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ یہ ایک مسلمان کا سامنا کرسکیں۔ لیکن یہ عناصر اس بات سے ناواقف ہیں، کہ فتح تو آخرکار حق کی ہونی ہے۔
آپ ذرا تصور کریں کہ اگر پاکستانی حکومت کچھ عرصہ کے لیے بھارت میں موجود علیحدگی پسند تحریکوں کے سر پر ہاتھ رکھ دے تو بھارت کو ٹوٹنے میں کتنے سال کا عرصہ لگے؟
یقینن ہمارے اندر بھی ایسی کالی بھیڑیں موجود ہیں جو ان غیر ملکیوں کے ہاتھ بک کرخود اپنے ہی بہنوں بھائیوں کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ اس بات میں کوئی ابہام نہیں کہ طالبان کو ہمارے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔
میرے پاکستانی بھائیوں اور بہنوں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم پاکستانی اپنے دشمنوں کی سازشوں کو پہچانیں، اپنے ملک کے خلاف ہونے والی سازشوں سے آگہی حاصل کریں اپنے ملک کی ان سازشوں سے حفاظت کریں۔ اللہ ہماری مدد فرمائے ، آمین