زنجیرِعدل بول،بتا مسند شہی!!
تحریر :محمد سکندر حیدر
حکم ِشریعت ہے کہ بلاتفریق مذہب و ملت اور عقائد کے کسی کے انتقال پر اُس کے لواحقین کو پُرسہ دیا جائے تاکہ متاثر شدہ لواحقین کو کم از کم اظہار غمگساری کی بنا پر کچھ تو دلاسہ مل سکے۔پرُسہ دینا انسانیت و اخلاقیات کے زندہ ہونے کی ایک اہم شہادت ہے۔ اسلامی ریاست میں رحمتوں و برکتوں والے ماہ رمضان المبارک میں سترہ کروڑ عوام کے پاکستان میں کیا کوئی صاحب فہم و فراست راقم کو بتا سکتا ہے کہ 15اگست کو سیالکوٹ میں شہید ہونے والے معصوم حافظ مغیث او ر اُس کے چھوٹے بھائی منیب کے والد سجاد بٹ اور اُن کی اہلیہ کو اب کن الفاظ میں میں پرُسہ دوں کہ اُن کے دلوں پر گزرنے والی قیامت تھم جائے اور وہ اِس وحشیانہ قتل کو قضائے الٰہی تسلیم کرکے صبر کرلیں۔میں نے اپنی ناقص عقل میں ذخیرہ شدہ الفاظ میں سے پرُسہ کے لیے چند الفاظ کا انتخاب کرنا چاہا تو میرا قلم ہر لفظ پر الجھ کر رہ گیا۔ اِس کالم کو تحریر کرنے کے لیے کئی سطریں لکھیں پھر انہیں مٹا دیا۔ کئی ورق لکھے پھر انہیں پھاڑ دیا۔ زندگی میں پہلی بار ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے مجھے کچھ لکھنا نہیں آتا۔ اُن معصو موں کی ویڈیو جنتی بار دیکھتا ہوں آنکھوں سے اشک روکتے نہیں اور قلم سے لفظ نکلتے نہیں ۔ ابھی تک اِس حقیقت پر یقین نہیں آتا کہ بھرے مجمع میں، ڈی پی او اور پولیس فورس کے سامنے اورریسکیوملازمین کی موجودگی میں سرعام دن دیہاڑے دو پھولوں کو بنا کسی جرم کے یوں کچلا جاسکتا ہے؟۔میرا اُن معصوموں سے براہ راست کوئی رشتہ بھی نہیں لیکن پھر بھی جب سے اُن کی ویڈیو دیکھی ہے دل میں بے بسی و لاچارگی کی دُکھن سی ہو رہی ہے۔ کرب و بلا کا اندھیرا میری روح کو گھیرتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ اِس سفاکی کے بعد کیا کسی میں ہمت ہے کہ وہ بتا سکے کہ اِس وقت اُن دنوں بھائیوں کی اُس ماں کے دل پر کیا گزر رہی ہوگی ؟ جس نے راتوں کو جا گ جاگ کر انہیں سردی گرمی سے بچایا ہوگا۔ ہر روزدعاﺅں کے سایے میں انہیں پروان چڑھتا دیکھتی ہوگی تو دل کو راحت محسوس کرتی ہوگی۔ جیسے جیسے اولاد جوان ہوتی ہے تو بوڑھے والد ین کو ایک سہارے کا خوش کُن احساس ہوتا ہے۔ نیک اولاد تو ویسے بھی خداکا انمول تحفہ ہوتی ہے۔ نوخیز جوانی میں والدین اور رشتہ دار جب اپنے بیٹوں کو جوان ہوتا دیکھتے ہیں تو اَن گنت خوابوں کو بھی اُن سے وابستہ کرلیتے ہیں۔ بہنیں بھائیوں کی شادی پر پلو باندھنے اور ڈھولک بجانے کے خواب دیکھنے لگتی ہیں۔ لیکن اُن دنوں بد نصیب بھائیوں کی اکیلی بہن اب کس طرح بِن خوابوں کے جی پائے گی؟ اِن ساری باتوںکو ایک لمحہ کے لیے سوچوں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ اپنی معاشرتی بے حسی پر رونا آتاہے۔ یہ قتل پاکستانی تاریخ کا انوکھا قتل ہے۔ مقتولین کو خبر ہی نہیں کہ انہیں کیوںقتل کیا جارہا ہے۔ پانچ وقت کے نمازیوںاور روزہ دار شہریوں کے سامنے عوامی محافظ کہلانے والے پولیس اہلکار خود قاتل بن گئے ہیں۔ ریسکیوملازمین جنہیں معصوموں کی جان بچانی چاہئے تھی اُن ظالموںنے دونوں معصوموں کو رسی میں باندھ کر خونخوار بھیڑوں کے آگے پھینک دیا۔ ڈی پی او نے حکم دیا انہیں مار دو ہم پولیس مقابلہ ظاہر کر دیں گے۔ آفرین ہے بے غیر ت ظالموں کی جُرت کی۔ پوری قوم اِس سانحہ پر غم زدہ اور چیف جسٹس آف پاکستان کی شکرگزار ہے کہ اُنہوںنے از خود نوٹس لے کر اِس کیس کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے ورنہ سیاسی شعبدہ باز تو لواحقین کے گھر جاکر فقط سیاسی شطرنج کی ایک عمدہ چال چل آئے ہیں۔ کسی لیڈر نے ابھی تک نہ ہی جائے وقوعہ کو دیکھا ہے اور نہ اِس کیس کو مضبوط بنانے کے لیے شہادتوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے او رنہ ہی لوگوں کو تحفظ کی فراہمی کے ساتھ شہادتیں دینے کے لیے آمادہ کیا ہے۔ ابھی وقتی طور پر میڈیا کا دباﺅ ہے حکومتی مشینری حرکت میں ہے۔ انکوئری کی بریکنگ نیوز دھڑا دھڑ آرہی ہیں۔ لواحقین کو دلاسہ بھی دیا جارہا ہے لیکن بات پھر وہیں پر آکر رُکتی ہے کہ آخر اِس کیس کا انجام کیا ہوگا؟ عدالت قانونی رموز اور تقاضوں کی پابند ہے۔ شہادتوں اور پراسیکیویشن کو پورا کرنا پولیس کا کام ہے جبکہ اِس کیس میں سب سے بڑا ملزم خود ڈی پی او وقار چوہان ہے۔پھر یکے بعد دیگرے انسپکٹر، سب انسپکٹر، کانسٹیبل اور ریسکیو ملازمین ، ڈنڈے مارنے ظالم و جابر حیوان نما انسان ہیں اور پھر بے حس و غیر ت مجمع میں کھڑے نام نہاد مسلمان ہیں۔ اِس لیے خدشہ یہی ہے کہ اِس بار بھی قانون کے کھلاڑی عدالت کو چکر میں ڈالنے کے لیے قانونی داو پیچ کھیل کر انصاف کو گمراہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ کیس کی سماعت کی تاریخوں اور اپیلیوں کے نا م پر کیس کو الجھانے اور لٹکانے کی کوشش کریں گے۔ یہ کیس فقط دو بھائیوں کی ہلاکت ،پولیس کی غفلت اور مجمع کی بے حسی کا کیس نہیں ہے بلکہ ملی غیر ت اور انسانیت کے امتحان کا کیس ہے۔ دونوں بھائیوں کے والدین اور رشتہ داروں کو اگر اِس دنیا میں بروقت انصاف نہ مل سکا تو روز محشر ہم سے کوئی بھی اپنا دامن اِس کیس سے چھڑا نہ سکے گا۔ پھر عدالت حاکم اعلیٰ کی ہوگی۔ انصاف اُس کا ہوگا پھر قانونی حیلے بہانے بنانے اور من گھڑت جواز پیش کرنے کی طاقت نہ اِن براہ راست قاتلوں میںہوگی اور نہ ہی اِس بے حس قوم کے پاس پشیمان ہونے کی مہلت ہوگی۔