رہن رکھا ہوا ملک اورقرضوں میں جکڑی قوم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
رہن رکھا ہوا ملک اورقرضوں میں جکڑی قوم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تحریر:محمد احمدترازی
آج ہم آپ کو بچپن میں سنی ہوئی ایک کہانی سناتے ہیں،ایک غریب لکڑہارا روزانہ روزی کی تلاش میں جنگل جایا کرتا تھا،جنگل کے راستے میں ایک بہت بڑا کوہستانی پتھر پڑتا تھا جس کو عبور کرنا اُس کیلئے بہت مشکل ہوتاتھا،ایک دن حسب معمول وہ روزی کی تلاش میں جنگل جارہا تھا کہ راستے میں اُس نے دیکھا کہ ایک چڑیا زخمی حالت میں پڑی ہے،لکڑہارے کو چڑیا کی حالت پر رحم آگیا،اُس نے چڑیا کو اٹھایا اوراُس کی مرہم پٹی کی اور جیسے ہی اُسے آرام دہ محفوظ جگہ پر چھوڑا،چڑیا یکایک ایک خوبصورت پری میں تبدیل ہوگئی اور اُس نے لکڑہارے کی رحمدلی سے متاثر ہوکر اُسے تین انڈے دیتے ہوئے کہا،جب تم اپنی کوئی خواہش پوری کرنا چاہو تو ایک انڈا توڑ دینا،یہ کہہ کر پری غائب ہوگئی،لکڑہارا بہت خوش ہوا اور خوشی خوشی واپس گھر کی جانب روانہ ہوا، راستے میں جب وہ اُس کوہستانی پتھر کے پاس پہنچا توجوش مسرت میں اُس نے پتھر کو ایک زور دار لات رسید کی،تاکہ وہ راستے سے ہٹ جائے،پتھر کیا ہٹتا،بیوقوف اپنی ہی ٹانگ تڑوابیٹھا،اِس افراتفری میں ایک انڈا بھی اُس کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا، یوں اب اُس کے پاس دو انڈے رہ گئے،اُس نے سوچا کہ ایک انڈا توڑ دوں تاکہ ٹانگ واپس مل جائے،یہ سوچ کر اُس نے ایک انڈا توڑ دیا،ٹانگ تو واپس آگئی،مگر اُس کے ساتھ کئی اور ٹانگیں بھی نکل آئیں،یہ دیکھ کر وہ اور بھی پریشان ہوا کہ یہ کیا ہوگیا،آخرکار اُس نے تیسرا انڈا بھی اِس خواہش کا اظہار کرکے توڑ دیا کہ میری اصل ٹانگ واپس مل جائے،چنانچہ اُس کو اصل ٹانگ تو واپس مل گئی، مگر تینوں انڈے ٹانگ توڑنے اور جوڑنے میں ختم ہوگئے اور کوہستانی پتھر بدستور اپنی جگہ پر موجود رہا ۔
بدقسمتی سے یہی حال ہمارے ملک اور ارباب اقتدار کا ہے،ایک قرض اتارنے کیلئے دوسرا قرض لیتے ہیں،مگر پچھلا قرض ادا نہیں ہوپاتا اور ملک و قوم پر ایک اور نئے قرضے کا بوجھ بڑھ جاتا ہے،یوں ہر آنے والے دن کے ساتھ ملک پر بیرونی قرضوں کے حجم میں کمی کے بجائے تیزی سے اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے،اب ایک بار پھر حکومت نے غیر ملکی قرضے اتارنے کے لئے آئی ایم ایف سے نیا قرض لینے پر غور شروع کر دیا ہے،ایک نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ اِس حوالے سے ایک سمری تیار کر رہی ہے جس میں آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لینے کے لئے سفارشات تیار کی جارہی ہیں تاکہ نئے قرضے کے ذریعے آئندہ مالی سال میں غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کی جاسکے،اطلاعات کے مطابق اِن نئے قرضے کا ابتدائی حجم 7.5ارب ڈالر ہوگا،اِس وقت پے درپے قرض کی وجہ سے ہمارے ملک میں ہر پیدا ہونے والا بچہ 28ہزار روپے کا مقروض ہے،اگر یہی حال رہا تو اگلے بیس سالوں میں ہر پیدا ہونے والا بچہ اڑھائی لاکھ روپے کا مقروض ہوگا اور اگر قرض کی رقم رہن رکھے جانے والے سامان سے بڑھ گئی تو اِس صورت میں کیا ہوسکتا ہے اِسے سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے ۔
درحقیقت ہماری حکومت کی حالت اُس چوہدری کی سی ہے جو اپنے مزارعوں کے نام پر اپنے سے بڑے چوہدری سے قرض لیتا ہے اور اُس قرض کا ایک بڑا حصہ خود ہڑپ کر جاتا ہے،کچھ عرصہ کے بعد اپنی سرداری کی پگڑی اپنے بیٹے کے سر پر رکھ کر مزارعوں کے معاملات اُسے سونپ کر خودحقہ سنبھال لیتاہے،اِس طرح اِن چوہدریوں کی جائیدادیں بڑھتی رہتی ہیں،اُن کی گاڑیاں، بنگلوں اور بنک بیلنس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے،جبکہ قرض دینے والے بڑا چوہدری (عالمی ساہوکار ادارے)قرض کی وصولی کیلئے مقروض مزارعوں (عوام) کی تکہ بوٹی کرنا شروع کر دیتا ہے اور یوں عوامی استیصال کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چلتا رہتا ہے،جس طرح چوہدری کا قرض اُس کے بیٹے نہیں بلکہ غریب مزارعوں نے ادا کرنا ہوتا ہے،بالکل اُسی طرح پاکستانی حکمرانوں کے لیے ہوئے قرضے حکمرانوں یا اُن کی اولادوں نے نہیں بلکہ عوام نے بمعہ سود ادا کرنے ہوتے ہیں،اسلئے انہیں اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اِس وقت پاکستان پر مجموعی قرضہ56 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے،اگر حکومت نے آئی ایم ایف سے مزید نیا قرضہ حاصل کیا تو یہ حجم اوربھی بڑھ جائے گا،جس کی ادائیگی نہ تو صدر صاحب نے کرنی ہے اور نہ ہی وزیر اعظم اور اُن کے بچوں نے،بلکہ اِن قرضوں کی ادائیگی پاکستان کے غریب اور مفلوک الحال عوام نے کرنی ہے،چاہیے اِس کیلئے انہیں اپنا گوشت اور اپنی ہڈیاں ہی کیوں نہ بیچنی پڑیں،یہ عام مشاہدہ ہے کہ ایک غیرت مند شخص جب بحالت مجبوری کسی سے قرض مانگتا ہے تو شرمندگی کے احساس سے اُس کی نظریں جھکی ہوتی ہیں،زبان لڑکھڑا رہی ہوتی ہے،ٹانگیں ڈگمگا رہی ہوتی ہیں،ہاتھ کپکپا رہے ہوتے ہیں،یہ سوچ کر اُس کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں کہ وہ یہ قرض کیسے ادا کرے گا،جبکہ اِس کے برخلاف حکومت کے ارباب اختیار جب ریاست اور اُس کے عوام کے نام پر قرضے حاصل کرتے ہیں تواُن کے چہرے مسرت و انبساط سے تمتما رہے ہوتے ہیں،با نچھیں قرض حاصل کرنے کی فتح مندی سے کھلیِ ہوتی ہیں،اپنی آزادی اور خودمختاری رہن رکھتے اور غلامی کی دستاویز پر دستخط کرتے وقت اُن کا قلم نہ تو لرزتا ہے،نہ ہی ٹانگیں کپکپا تی ہیں،کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرض اُنہوں نے اور اُن کی نسلوں نے نہیں بلکہ ملک کی سترہ کروڑ غریب عوام نے ادا کرنا ہے ۔
اس تناظر میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ روٹی،کپڑا اور مکان کی فراہمی کی دعویدار عوامی حکومت بیرونی قرضوں پر انحصار کے بجائے کفایت شعاری اور سادگی کی مثال قائم کرتے ہوئے عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرتی اور جن لوگوں نے قومی خزانے کو لوٹا اور نقصان پہنچایا،انہیں نشان عبرت بناتی،مگر افسوس اِس حکومت نے بھی اپنے پیش رو کی طرح اپنی تمام تر توجہ نئے قرضوں کے حصول اور غریب عوام کو ٹیکسوں اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبانے پر مرکوز کی ہوئی ہے،اِس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہوگی کہ اِس ملک کا ایک غریب آدمی بجلی اور گیس کے بلوں سے لے کر تنخواہ کی وصولی،کھانے پینے کی اشیاءحتیٰ کہ ٹول ٹیکس سے لے کر نہ جانے کتنے قسم کے ٹیکس ادا کرتا ہے،جبکہ پاکستان کا مراعات یافتہ طبقہ عوام کہلوانے کے باوجود ٹیکس ادا نہیں کرتا،حال یہ ہے کہ صرف جمہوری حکومت کے ڈھائی سالہ دور اقتدار میں مہنگائی نے اپنے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے اور غیر ملکی قرضوں کا بوجھ 56 ارب ڈالر تک پہنچ گیا،جس میں آئی ایم ایف،عالمی بینک اور اے ڈی بی کا مجموعی قرضہ31 ارب 16 لاکھ 20 ہزار ڈالر اور اِن کا سود 3ارب 63 کروڑ70 لاکھ ڈالر ہے،سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اِن غیر ملکی قرضوں پر سالانہ 160 ارب روپے سود کی مد میں ادا کیے جارہے ہیں،یہ تو ملک کے معاشی میزانیہ کا نقشہ اور کھلا منظر ہے،جبکہ حکومت نے اِس عرصے میں 50ارب 85 کروڑ40 لاکھ کے قرضے الگ معاف کیے ہیں ۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت ماضی کی حکوتوں کی روش کو ترک کرکے قومی خزانے کو لوٹنے والوں کا احتساب کرکے رقم واپس لاتی،مہنگائی میں کمی کرتی اور ملکی وسائل سے استفادہ کرکے معیشت کو ترقی دیتی،مگربدقسمتی سے سب کچھ الٹ ہو رہا ہے،ملکی معیشت کی حالت یہ ہے کہ وزیر خزانہ کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ دو مہینوں کے بعد تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے رقم نہیں ہوگی،جبکہ مہنگائی کی وجہ سے بنیادی اشیاءکی قیمتیں عام آدمی کی قوت خرید سے بہت دور نکل چکی ہیں،لیکن اِس کے باوجود حکومتی حلقوں میں چین کی بانسری بجائی جارہی ہے اور حکومت کو سوائے این آر او کیسز اور اٹھارویں ترمیم کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آرہا،ادھر عوام کی حالت یہ ہے کہ دو وقت کی روٹی کیلئے ترس رہی ہے،جبکہ اگلے چند ماہ میں ملک کی اقتصادی صورتحال،معاشرتی بحران اور عوامی درعمل کیا منظر نامہ ترتیب دینے جارہا ہے اِس کا تصور ہی محب وطن سیاسی و معاشی ماہرین کو دہلانے کیلئے کافی ہے،ہمارا ماننا ہے کہ ابھی بھی وقت ہے،ملکی معیشت سنبھالنے کیلئے اگر حکومت اخلاص کے ساتھ کام کرے اور بلا تخصیص گذشتہ برسوں میں معاف کرایے گئے قرضے،لوٹی ہوئی دولت،نادہندہ بااثر افراد سے ٹیکس اور یوٹیلٹی بلز کی مد میں واجب الادارقم وصول کرلے،توصرف اِن وصولیوں سے ہی پاکستان کو غیر ملکی قرضوں سے باآسانی نجات مل سکتی ہے،اِس ساتھ اگر ہمارے حکمران اور سیاستدان بیرون ممالک بینکوں میں پڑے اپنے اربوں ڈالر ز پاکستان لے آئیں تو یقین جانئے ہمیں کسی کے آگے کشکول گدائی پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔
لہٰذا ہمارا ارباب اقتدار سے مطالبہ ہے کہ وہ معاشی اور اقتصادی بحران پر قابو پانے کیلئے کفایت شعاری اپنائیں،اپنے شاہانہ اخراجات سمیت وزراءاور مشیروں کی فوج ظفر موج میں کمی کریں اور فوری طور پر غیر ملکی مفادات کی جنگ سے کنارہ کشی اختیار کرکے ملکی سلامتی،وحدت اور یکجہتی پر توجہ مرتکز کریں،ہماری ناقص رائے میں یہی وہ چند اہم اقدامات ہیں جن پر عمل کرکے حکومت نہ صرف معاشی اور اقتصادی طور پر مستحکم ہوسکتی ہے بلکہ بیرونی قرضوں سے نجات بھی حاصل کرسکتی ہے، آج اِس بات کو سمجھانے کیلئے کسی حکمت و دانائی کی ضرورت نہیں کہ رہن رکھا ہوا ملک اور قرضوں میں جکڑی قوم کبھی بھی آزاد اور خود مختار نہیں ہوتے ۔
٭٭٭٭٭