ربّ کعبہ کی قسم وہ کامیاب ہوگیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ربّ کعبہ کی قسم وہ کامیاب ہوگیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تحریک ناموس رسالت کا ایک اور غازی ۔ ۔ ۔ ۔
تحریر :۔ محمد احمد ترازی
فزت بِرَبّ الکَعبَہ ”ربّ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔“عبدالرحمن ابن ملجم خارجی کی زہر آلود تلوار سے گھائل ہو کر شہید ہونے والے آخری خلیفہ راشد سیّدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی زبان مبارک سے نکلا ہوا یہ جملہ آج بھی تاریخ کا انمٹ نقش ہے،یہ بات وہی کہہ سکتا ہے جو کہے کہ” میں موت سے نہیں ڈرتا چاہے میں موت پر جا پڑوں یا موت مجھ پر آن پڑے“ جو اپنے قاتل کو بھی شربت کا گلاس پیش کرے اور اُس کے ساتھ بھی انصاف کی آرزو رکھے،کوئی مانے یا نہ مانے لیکن صرف اور صرف وہی اپنے آخری وقت میں یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ آج میں کامیاب ہوگیا ۔ ۔ ۔ ۔ ربّ کعبہ کی قسم! آج راولپنڈی کی انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت سے سزائے موت سن کرغازی ملک ممتاز حسین قادری بھی اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا،اُس نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”میری دعاہے کہ اللہ تعالی اور اُس کے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم میری قربانی قبول فرمائیں،
مجھے کوئی افسو س نہیں ہے،بلکہ میں بہت خوش ہوں کہ اب گستاخان رسول کافی عرصہ اپنے مذموم عزائم سے باز رہیں گے،میری نظر میں سلمان تاثیر گستاخ رسول اور واجب القتل تھا،کیونکہ اُس نے ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون کوکالا قانون کہا اور گستاخ رسول آسیہ مسیح کی حمایت و معاونت کی،چنانچہ میں نے گورنر سلمان تاثیر کو واجب القتل مانتے ہوئے قتل کا ارادہ کیا اور قتل سے قبل اپنے پرس میں ایک چٹ ڈالی جس پر لکھا تھا کہ”گستاخ رسول کی سزا موت ہے“موت تو ایک دن آنی ہے تو پھر ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر جان قربان ہوجائے توکیاکہنا ۔“
ربّ کعبہ کی قسم! کیا کہنے،یقینا وہ کامیاب ہوگیا اور کامیاب کیوں نہ ہو کہ”یہ وہ شہیدان عشق و وفا ہیں جو اپنے ہاتھوں میں حق وصداقت کی مشعلیں اٹھائے،اپنے سینوں میں عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شمعیں جلائے،اپنے دماغوں میں شہادت کی آرزو سمائے اور نظروں میں تصور مدینہ سجائے اپنے لیے موت کا انتخاب خود کرتے ہیں،اسی لیے تو موت اِن سے دہشت زدہ رہتی ہے،کیونکہ اِن کی روحیں مرحلہ دار و رسن کی طالب ہوتی ہیں،کسی شخص کو جتنی محبت زندگی سے ہوتی ہے،اُس سے کئی ہزار گنا انہیں موت سے پیار ہوتا ہے،بلاشبہ دین اسلام کی عزت وآبرو انہی کے دم قدم سے ہے ۔
تاریخ گواہ ہے کہ شہیدان ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے گورے اور کالے انگریز کی عدالت میں عزیمت واستقامت کا وہ مظاہرہ کیاکہ ہر مسلمان عش عش کراٹھا اور کفر انگشت بدنداں ہوکر رہ گیا،وکلاءکے دلائل اور بے پناہ دباؤ_ کے باوجود انہوں نے عدالت میں شان و شوکت کے ساتھ اپنے جرم کا باربار اعتراف کیا،عدالتی تاریخ میں اِس کی کوئی مثال نہیں ملتی،پھانسی کی سزا سنتے ہی اپنی مرادوں کے برآنے پر وہ وجد میں آکر خوشی سے رقص کرتے ہیں،اپنی قسمت پر رشک کرتے ہیں،حلیف و حریف حیران رہ جاتے ہیں کہ موت کی سزا کے منتظر اِن جانثاران مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا وزن جیل کی کال کوٹھریوں میں کیسے بڑھ جاتا ہے،وہ کیسے خوش وخرم رہتے ہیں،خوشی خوشی تختہ دار کو چومتے ہیں ۔
کوئی لہجہ،کوئی طرز بیان،کوئی لغت،کوئی پیرایہ اظہار اتنی تاب نہیں رکھتا کہ وہ ان مجاہدین کی جرات بے مثل کا قصیدہ کہہ سکے ،خراج تحسین پیش کرسکے ان کی جرات و عظمت کو سلام پیش کرسکے،یہی وجہ ہے کہ شہیدان ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ہماری آنکھوں میں بستے ہیں ،دلوں میں رہتے ہیں اور سانسوں میں مہکتے ہیں،یہ ہماری کل جمع پونجی ہیں،یہ ہمارا اثاثہ ہیں،ہمارا سرمایہ افتخار ہیں،یہ اِس گم کردہ راہ قوم کے رہنماء اور برگشتہ بخت ملت کے محسن ہیں ۔
یہ وہ مجاہدین اسلام ہیں جنھوں نے عظمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و حرمت کی خاطر اپنے خون کا نذرانہ بیش کرکے اسلام کی عظمت میں چار چار چاند لگائے،اپنے مقدس لہو سے چمن اسلام کی آبیاری کرنے والے یہ وہ خوش نصیب ہیں جن پر روح فطرت ناز کرتی ہے،یہ وہ روشن کردار ہیں جن پر ہماری تاریخ غرور کرتی ہے،یہ تاریخ کے ماتھے کا جھومر اوراسلام کے درخشاں ستارے ہیں،یہ وہ مجاہدین اسلام ہیں جو اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہی وہ جدوجہد ہے جو زندگی کا حاصل ہے،اسی میں دائمی بقا ءہے اور یہی وہ رہگزر ہستی ہے جو شفاعت مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لے جاتی ہے،یہ وہ مجاہدین اسلام ہیں جن کی رفعت پر پوری ملت اسلامیہ رشک کرتی ہے،فردوس بریں بازو پھیلائے محبوب کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے اِن عاشقوں کا استقبال کرتی ہے اور حور و غلمان ایسے ہی قدسیوں کی راہ_ تکتے ہیں، فرشتے جبرئیل امین کی قیادت میں اپنے ہاتھوں میں تاج عظمت لیے انہیں خوش آمدید کہتے ہیں،اللہ کی رضا پر راضی ہوجانے اور محبوب خدا کی آبرو پر فدا ہوجانے والے اِن خوش بختوں کو ربّ تعالیٰ اپنے دیدار سے مشرف فرماتا ہے ۔“
اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ کے حاشیے ایسے ہی جانثاروں کے لہو سے گلرنگ ہیں جو اشارتاً اور کنایتاً بھی اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں معمولی سی توہین و تنقیص اک لمحے کیلئے بھی برداشت نہیں کرتے،اِن کا غیرت وحمیت سے سرشار خون کھول اٹھتا ہے،رگ و پے میں شرارے دوڑنے لگتے ہیں اور وجود غیظ وغضب کی کڑکتی بجلیوں کا روپ دھار کر اُس وقت تک قرار نہیں پاتا جب تک کہ شاتم رسول کے ناپاک اور غلیظ وجود سے دھرتی کو پاک کرکے خود مرحلہ دارورسن طے نہیں کرلیتے،محافظان ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قافلہ شوق شہادت کل بھی جاری تھا اورآج بھی جاری وساری ہے ۔
غازی ممتاز حسین قادری بھی اسی قافلہ شوق شہادت کا ایک مسافر ہے،جو مرحلہ دارورسن طے کرکے اپنا نام غازی مرید حسین،غازی عبدالرشید،غازی عبدالقیوم،غازی عبد اللہ،غازی منظور حسین،غازی محمد صدیق،غازی عبدالمنان،غازی میاں محمد،غازی احمد دین،غازی معراج الدین،غازی فاروق احمد،غازی محمد اسحاق،غازی زاہد حسین، غازی عبدالرحمان، غازی حاجی محمد مانک اور غازی عامر چیمہ جیسے مجاہدوں کی فہرست میں لکھوانا چاہتا ہے،جنھوں نے راجپال، سوامی شردھانند،نتھورام،چنچل سنگھ،کھیم چند،پالامل،بھیشو،چرن داس ،ویداسنگھ،ہردیال سنگھ،نعمت احمر قادیانی، عبدالحق قادیانی جیسے گستاخوں اور مرتدوں کو واصل جہنم کرکے اپنانام شہیدان ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی تابناک فہرست میں درج کروایا،غازی ملک ممتاز حسین قادری نے اپنے قول وفعل سے یہ ثابت کردیا ہے کہ پاکستانی مسلمان بہت کچھ برداشت کرسکتے ہیں،لیکن کسی شاتمان رسول اور اُس کے حمایتوں کو کسی طور بھی برداشت نہیں کرسکتے ۔
کیونکہ اُن کے نزدیک حضور ختمی المرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پوری کائنات کا سرمایہ حیات ہے اور اِس قیمتی متاع کا تحفظ ہر مسلمان اپنی جان سے زیادہ ضروری سمجھتا ہے،دنیا بھر کے مسلمان بلا تفریق رنگ و نسل اور زبان و علاقہ اِس معاملہ میں بنیان مرصوص کی طرح ہیں،اُن کے ایمان کا تقاضہ اور دین اسلام کی یہی شرط اوّل ہے،یہی وجہ ہے کہ حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ والہانہ عشق کے تقاضے کے حوالے سے وہ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے مسئلے میں انتہائی جذباتی نظر آتے ہیں اورآخر کیوں نہ ہوں،جب قانون نافذ کرنے والے ادارے اور حکومت اپنی ذمہ داری پوری نہ کریں،جمہوریت،آزادی اظہار اور اسلام دشمنوں کی خوشنودی کیلئے گستاخان رسول اور اُن کے سرپرستوں کی طرف داری کریں،انہیں کھلی چھوٹ دے دیں کہ وہ اپنی ناپاک اور گندی زبان سے شان اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں ہذیان بکتے پھریں تو پھر ایک سچا اور پکا مسلمان جو اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کے حرمت و ناموس پر مرمٹنے اور اُس کی خاطر دنیا کی ہرچیز قربان کرنے کو اپنی زندگی کا ماحصل سمجھتا ہے،اُس کے پاس اِس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچتا کہ وہ خود ہی ایسے موذیوں کے ناپاک وجود سے دھرتی کو پاک کرے ۔
غازی ممتاز قادری نے بھی یہی کیا،آج عدالت کہتی ہے کہ ”کسی فرد واحد کو اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ کون مرتد اور غیر مسلم ہے اور نہ ہی کسی فرد کو یہ اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ لوگوں کو سزا دے کیونکہ اِس سے معاشرے میں انارکی کا راستہ ہموار ہوگا۔“لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عدالت،قانون اور ارباب اقتدار نے اپنی ذمہ داریاں پوری کیں،کیا پاکستان جیسے نظریاتی اور اسلامی ملک میں قانون تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم 295 سی(جس کے تحت نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر سزائے موت دی جائے گی ) کے مطابق گستاخان رسول کو قرار واقعی سزا دی،انہیں نشان عبرت بنایا،اگر نہیں تو پھر ظاہر ہے کہ غازی ممتاز قادری جیسے مجاہدوں اور عاشق رسولوں کوہی یہ ذمہ ادا کرنی پڑے گی،یقینا غازی ممتاز قادری نے وہی کیا جو ایک عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کرنا چاہیے تھا،ربّ کعبہ کی قسم ! کاتب وقت نے اُس کی روشن پیشانی پر لکھ دیا ہے کہ وہ اِس دنیا اور اُس دنیا دونوں میں کامیاب و کامران ہوا ۔
اے یاد گار عزت ِ ناموس مصطفی
کیا خوب انتخاب ہے تیری حیات کا
بدلہ لیا ہے دشمن احمد کا تو نے خوب
منظور کرچکا ہے شہادت تیری خدا
نوٹ :اس مضمون کی تیاری میں متین خالد کی کتاب” شہیدان ناموس رسالت،ناموس رسالت کے خلاف امریکی سازشیں“ اور ظفر جبار چستی کی کتاب ”پروانہ شمع رسالت“ سے مدد لی گئی ہے)