ذرا رکنا پڑے گا
تحریر: واصف ملک
نائن الیون کا سانحہ ہو گیا۔ امریکی ایئرپورٹس سے اڑنے والے چار جہازوں میں سے دو نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے جا ٹکرائے۔ جبکہ تیسرا پینٹا گون پر گرا اور چوتھا وائٹ ہاؤس کی طرف بڑھ رہا تھا جسے مار گرایا گیا۔ القاعدہ جو اس وقت تک افغانستان میں طالبان حکومت کی میزبانی اختیار کیے ہوئے تھی۔ ان حملوں کی ذمہ دار قرار پائی۔ اسی وقت کے امریکی صدر بش نے پورے لاﺅ لشکر کے ساتھ افغانستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا، اور اس وقت کے کمانڈر صدرِ پاکستان کو ایک پیغام بھیجا کہ کیا آپ ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف“ اور بقول سابق صدر مشرف کہ امریکہ نے پاکستان کو پتھر کے زمانے میں بھجوانے کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ یوں ہمارے دلیر فوجی صدر نے ”بہادری“ کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ کا ساتھ دینے اور اسے فوجی اڈے فراہم کرنے کا فیصلہ کر لیا، یوں ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز ہو گیا۔ امریکہ اور اس کے حواریوں کی طرف سے پاکستان کیا وپر طالبان کی حمایت کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔ کہا گیا کہ پاکستان اور آئی ایس آئی طالبان کے موجد ہیں اور طالبان کو ماضی میں ٹریننگ دیتے رہے ہیں۔ اسی طرح کے بیانات اور دھمکیوں سے پاکستان کو فرنٹ لائن پر استعمال کیا گیا۔ باوجود اس کے کہ یہ جنگ امریکہ بمقابلہ طالبان/ القاعدہ تھی مگر اس کو پاک افغان جنگ بنا دیا گیا۔ اس جنگ کے امریکہ اور افغانستان، طالبان اور القاعدہ کو بہت نقصان پہنچایا مگر سب سے زیادہ نقصان جس کو پہنچا وہ خود پاکستان اور پاکستانی تھے۔ جس کا سربراہ ایک بہادر فوجی کمانڈو تھا۔ جس نے پاکستان کو بربادی کی طرف دھکیل دیا۔ یہ اس ”جنگ“ کے مرہونِ منت ہے کہ پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں ”خودکش بم دھماکے“ معمول بن چکے ہیں اور دنیا یا کم از کم امریکہ تو پاکستان کو ایک آزاد اور خودمختار ملک تسلیم نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن پاکستان پر ڈرون حملے کیے جاتے ہیں جس کی بدولت ہزاروں نہتے پاکستانی جاں بحق ہو چکے ہیں، اور ہو رہے ہیں مگر اب یہ احساس کہ پاکستان آزاد اور خودمختار ریاست نہیں امریکی دماغوں سے نکل کر پاکستانی عوام کے ذہن کو بھی متاثر کر رہا ہے وہ بھی یہی سمجھ رہے ہیں کہ پاکستان شاید ایک آزاد ریاست نہیں بلکہ امریکی غلامی میں ہے۔ ویسے بھی بھیک اور امداد پر پلنے والے فراد ہوں یا معاشرے کبھی اپنی ”خودداری“ قائم نہیں رکھ سکتے مگر جو چیز یہاں سب سے اہم ہے وہ کیا ہے؟ وہ ہے ہمارے ”جغادری کمانڈر“ کا رویہ…. کہ جب امریکہ شد و مد سے پاکستان پر ”طالبان“ کا موجد ہونے کے الزامات لگا رہا تھا، ہمارا ”شیر“ اُن سے یہ بھی نہ پوچھ سکا کہ ”طالبان“ کو بنانے میں اکیلا پاکستان کیسے ذمہ دار ہو سکتا ہے، ہمارا بہادر اتنی سی جرات نہ کر سکا کہ امریکہ سے یہی پوچھ لے کہ ”صاحب بہادر“ کیا طالبان کی ”مالی و عسکری امداد“ پاکستان کرتا رہا ہے؟ قارئین! یہاں میں آپ کو بتاتا ہوں کہ طالبان کون ہیں؟ ان کو بنانے، افغانستان مین لڑانے اور حکومت دلوانے میں کس کا کیا کرار ہے؟ طالبان دراصل پاکستانی و افغانی مدارس کے وہ طالب علم ہیں جو افغان جہاد میں روس کے خلاف لڑتے رہے تھے۔ سویت یونین کی مداخلت کے بعد ابتدائی دنوں میں اس مزاحمتی تحریک افغان جہاد کو کسی جانب سے کوئی مدد حاصل نہ تھی۔ لیکن جلد ہی امریکہ اور پاکستان کو احساس ہو گیا کہ سرخ فوج کی اگلی منزل کون سی ہوگی۔ سویت یونین سے براہِ راست جنگ کی استعداد پاکستان تو کیا امریکہ کے بھی بس میں نہ تھی اس لیے امریکہ نے طالبان کی عسکری اور مالی امداد کی جبکہ پاکستانی فوج نے ان کو تربیت دی۔ طالبان نے ان تین فریقوں پاکستان، امریکہ اور افغان مجاہدین کے زیرسایہ جنگ کی۔ اس سے قبل طالبان مختلف جہادی تنظیموں میں بکھرے ہوئے تھے اور انہوں نے کوئی باقاعدہ تنظیم کی شکل اختیار نہ کی تھی۔ روسی فوجوں کی واپسی کے بعد ان کی اکثریت اپنے مدارس میں واپس چلی گئی تھی۔
روسی فوجوں کی واپسی کے بعد جہادی تنظیموں کی باہمی خانہ جنگی کے باعث 1995ءمیں طالبان دوبارہ میدانِ جنگ میں آ گئے اور افغانستان کے 90 فیصد رقبہ پر اپنی عملداری قائم کر کے شریعت نافذ کر دی۔ تاہم ان کی شریعت پر کئی حلقوں کی طرف سے تنقید ہوتی رہی۔ ان کو سب سے پہلے سعودی عرب اور بعد میں اسامہ بن لادن سے مالی معاونت حاصل رہی۔ قارئین آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ طالبان کو بنانے میں صرف پاکستان کا ہی ہاتھ تھا یا طالبان کو امریکہ کی بھرپور پشت پناہی حاصل رہی تھی۔ اور جب طالبان کو امریکہ کی بھی سپورٹ حاصل تھی تو صرف پاکستان کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا گیا۔
اور اب ذرا بات ہو جائے ہمارے موجودہ حکمرانوں کی ”امریکہ دوستی“ کی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر آصف علی زرداری صاحب کا خیال ہے کہ امریکہ سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں کیوں کہ ہم امریکہ کے دوست ہیں۔ امریکہ کے دوستوں کا ماضی میں کیا انجام ہوتا رہا ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ شاہ ایران محمد رضا پہلوی سے لے کر مشرف تک کیا امریکی دوستی کچھ کام آ سکی؟ اگر نہیں تو پھر زرداری صاحب کو بھی امریکہ کی دوستی پر بھروسہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے؟
قارئین! شاہ ایران محمد رضا پہلوی جو کہ 1941ءمیں تخت نشین ہوا اور ”خادمِ مغرب“ کہلاتا تھا۔ شاہ ایران امریکی صدر کو اپنا باس کہتا تھا اور واشنگٹن کو ایران کا دارالحکومت۔ اس نے وفاداری کی انتہا کرتے ہوئے تمام امریکی شہریوں کو ایران میں سفارتکاروں کا درجہ دے رکھا تھا۔ اگر کوئی امریکی چپڑاسی بھی ایران آتا تو ایئرپورٹ سے ہی اس کو سفارتکار کے طور پر پروٹوکول دیا جاتا۔ شاہ ایران سمجھتا تھا کہ وہ امریکہ کا دوست ہے اور اس کی باری کبھی نہیں آئے گی مگر جب 1979ءمیں انقلاب آیا تو امریکہ وہ پہلا ملک تھا جس نے ”غلام شاہ“ کو پناہ دینے سے انکار کیا، اناس سیو سو ہزار نکار گوا میں امریکی دوست تھا۔ وہ اپنے باپ کے ہمراہ امریکی سپاہی بن کر کمیونزم کے خلاف لڑتا رہا۔ اسے بھی امریکہ سے پناہ نہ ملی اور وہ پیراگوئی کے شہر اسینشن میں انتہائی کسمپرسی کی حالت میں مرا۔ فلپائن کا فرڈی نینڈ مارکوس بھی امریکی دوست تھا وہ 20 سال تک امریکہ کا حقِ دوستی ادا کرتا رہا امریکہ کے کہنے پر اس نے ہزاروں کمیونسٹوں کو ذبح کر دیا مگر وہ 1986ءمیں امریکہ کی بے وفائی کا شکوہ کرتے ہوئے آبدیدہ آنکھوں سے رخصت ہو گیا۔ انگولہ کا باغی لیڈر ”جوناس سیومبی“ جس نے امریکہ کے کہنے پر کمیونسٹوں سے امن معاہدہ کیا مگر بعدازاں امریکہ نے اس کی امداد روک دی جس کے بعد کمیونسٹ تنظیم ایم پی ایل اے نے اسے ہلاک کر دیا۔ سیومبی بھی سمجھتا تھا کہ وہ امریکہ کا دوست ہے اور اسے کچھ نہیں ہوگا۔ پانامہ کے جنرل نوریگانے 25 سال امریکہ کی خدمت کی۔ مگر امریکہ نے پانامہ پر فوج کشی کر کے نوریگا کو عدالت سے سزائے موت دلوا دی۔ اسی طرح چلی کے ”ارگسٹوپنوشے“ نے 17 سال امریکی دوستی نبھائی۔ قارئین پنوشے کی وفاداری کا یہ عالم تھا کہ اس نے امریکہ کے کہنے پر حکومت چھوڑ کر انگلستان میں سیاسی پناہ لے لی۔ جسے وہاں امریکی اشارے پر نظربند کر دیا گیا۔ قارئین آپ تھوڑی توجہ دیں اور یاد کریں وہ 29 ممالک جنہوں نے دوسری جنگِ عظیم میں امریکہ سے دوستی نبھائی تھی ان ممالک کا انجام کیا ہوا۔ قارئین 29 ممالک پر امریکہ نے 99 بار حملے کیے۔ کوریا اور گوئٹے مارا سے لے کر افغانستان و عراق تک امریکی دوستوں کے ساتھ امریکہ نے کیا کیا آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ ہمارے موجودہ حکمران امریکہ کی دوستی میں اندھا دھند آگے بڑھنے سے پہلے ذرا سا رکیں کہ ان کے پیش رو مشرف جس نے امریکہ کی وفاداری کا حق ادا کرتے ہوئے وطنِ عزیز کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا پاکستانی عورتوں کو امریکہ کے ہاتھ بیچ دیا۔ جہاں آج کوئی بازار، کوئی مسجد، کوئی سڑک، حتیٰ کہ گھر کے اندر رہتے لوگ محفوظ نہیں اس وفادار مشرف کے ساتھ امریکہ نے کیا کیا۔ کیا یہ غلام دوست اتنی امریکی خدمات کے باوجود 5 بار باوردی صدر منتخب ہو سکا؟ پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ ذرا سا رکیں اور اپنی منزل کا ازسرِ نو تعین کریں۔ پہلا رستہ تو پاکستانی عوام کی بقا اور خوشحالی کی طرف جاتا ہے اس راہ پر چل کر حکمرانوں کو ابدی زندگی حاصل ہو سکتی ہے۔ جبکہ دوسرا راستہ امریکی خدمت ٹھہرے گی۔ اور امریکی خدمت میں پاکستان کو اور حکمرانوں کو کیا حاصل ہوگا….؟ یہ سوچنا پڑے گا۔ ذرا رکنا پڑے گا۔