جنگل کا قانون
کسی بھی ریا ست کی سب سے اہم ذمہ داری اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے ۔شہریوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفا ظت حکو مت کی اولیں ترجیح ہو تی ہے اگر چہ حکومت لوگوں کو روزگار مہیا کرنے اور ان کےلئے معاشی مواقع پیدا کرنے کی بھی پابند ہو تی ہے لیکن ا نھیں بنیا دی حقوق کے زمرے میں شامل نہیں کیا جا سکتایہ الگ بات کہ یورپ عوام کے معاشی مسائل کو بھی بنیادی حقوق میں شامل کرتا ہے اور بے روز گاری کی صورت میں اپنے شہریوں کو بے کاری ا لا ﺅنس کا حقدار قرار د یتا ہے تاکہ انکی بنیادی ضروریات پوری ہوتی رہیں۔ امن و امان،بھا ئی چارے او باہمی یگانگت کی فضا کسی بھی ملک کی ترقی کی سب سے بڑی ضامن ہو تی ہے لہذا اسے ہر حال میں قائم کیا جانا چائیے جو معاشرے خانہ جنگی میں مبتلا ہو جاتے ہیں مختلف گرو ہوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں ان معاشروں میں ترقی کا عمل مفقود ہو جاتا ہے۔ باہمی سر پھٹول اور لڑائی مار کٹائی ایسے معاشروں کی پہچان بنتی ہے جسے عوامی حلقوں میں غیر پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جا تا ہے اور یوں وہ قوم اقوامِ عالم سے کٹ کر تنہا ئی کا شکار ہو جا تی ہے اور اسکی ترقی کا پہیہ جام ہو جا تا ہے۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں عدمِ رواداری اور شدت پسندی جنون کی حدوں کو چھو رہی ہے۔اپنے موقف کی صداقت پر اندھا یقین پاکستانی قوم کےلئے نا سور کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔مدرسوں سے فارغ التحصیل چند علما مذہب کی اپنی ذاتی تعبیر کے مطابق جس شخص کے قتل کا فتوی صادر فرما دیتے ہیں اس کا قتل اسلام کی رو سے جائز قرار پا تا ہے۔ علما کو بھی اس بات کا بخوبی علم ہے کہ کسی بھی انسان کی جان لینے کا اختیار کسی بھی شخص کو حاصلی نہیں ہے اور اس میں کسی کو استثنا حاصل نہیں ہے۔زندگی خدا کی دی ہو ئی سب سے قیمتی اور انمول نعمت ہے اور اسے چھیننے کا حق کسی فرد کو حا صل نہیں ہے اب اگر کو ئی گروہ اور جماعت دوسروں کی جان لینے کو اسلامی نقطہ نظر سے اپنا حق سمجھ کر اس کا استعمال شروع کر دےگی تو پھر گلیاں خون سے تر بتر ہو جا ئینگی کیونکہ اپنے مخا لفیں کونیست و نابود کرنے کا انھیں خدائی لائسنس حاصل ہو جائےگا ۔
نوعِ انسان کی ابتدا ئی قبا ئی زندگی میں کسی بھی قبیلے کے سردار انسانوں کی زندگی اور موت کے فیصلوں کے مجاز ہوا کرتے تھے لیکن علم کی ترقی اور جمہو ری معاشروں کی تشکیل نے افراد سے یہ حق واپس لے کر اعلی عدالتوں کو تفویض کر دیا ہے جہاں پر حقائق، گواہیوں اور سچائی کی بنیا دوں پر فیصلے صادرہو تے ہیں اور آئینی حدود میں رہتے ہو ئے جرم کی نو عیت کے مطابق ہر شخص کے بارے میں فیصلہ صادر کیا جاتا ہے۔ ریاست اس فیصلے پر عملدر آمد کو یقینی بنانے کی پابند ہو تی ہے۔ آئینِ پاکستان کی رو سے صدرِ مملکت کو خصوصی اختیار تفویض کئے گئے ہیں کہ وہ چا ہیں تو کسی بھی مجرم کی سزا معاف کر سکتے ہیں۔عدالت کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ صدر کے معافی دینے کے اختیار کو غیر فعال کر دے۔مذہبی قیا دت اور شدت پسند وں کو صدرِ مملکت کے ایسے آئینی فیصلوں کے خلاف اپنے ردَ عمل میں نہ توکسی کا خون بہانے کی اجا زت ہے اور نہ کسی کو قتل کر نے کی چھوٹ ہے۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو خون کے بدلے خون کی تعزیرات کا ان پر اطلاق ہو گا انھیں اپنے کئے کی سزا بھگتنی ہو گی اور اس میں کو ئی رعایت نہیں ہو سکتی۔ پر امن معاشروں کی تشکیل کے لئے ایسا کرنا ضروری ہوتا ہے لہذا ایسا کیا جا نا چا ئیے وگرنہ جنگل کا قانون نافذ العمل ہو گا جس سے دھشت گردوں اور شدت پسندوں کو کھلی چھوٹ مل جا ئے گی وہ اپنی دانست اور سوچ کے مطابق اپنے مخالفین کا خون کرتے رہیں گئے اور ان کے بے رحم ہاتھوں سے کسی کی زندگی محفوظ نہیں رہے گی ۔
جو رہ گزر مجھے جاناں کی رہ گزر نہ لگے ۔۔۔سفر وہ طے بھی کروں تو مجھے سفر نہ لگے
بشر کی شکل میں پھرتے ہیں بھیڑیے ہر سو ۔۔یہ کیسا شہر ہے جس میں کو ئی بشر نہ لگے (ڈاکٹر مقصود جعفری)
مذہب کی آڑ لے کر لوگوں کو قتل کر دینے کی روش اور سوچ کو روکنا افراد کا نہیں بلکہ حکومت کی ذمہ داری ہو تی ہے۔ قیادت کا فریضہ ہی یہی ہوا کرتا ہے کہ وہ باطل کے ابطال کے لئے سینہ سپر ہو جاتی ہے اور باطل سوچ اور فکر کو اپنی با جرات اور بے داغ قیادت سے مٹا کر دم لیتی ہے۔اگر قیادتیں ہی خوف کا شکار ہو جا ئیں گی تو پھر نہتے اور کمزور لوگوں کی جان و مال کا تحفظ کون کرے گا۔ ریاست کی بے پناہ طاقت کے باوجود بھی اگر دھشت گردوں نے بے گنا ہوں کے خون سے ہاتھ ر نگنے ہیں تو پھر لوگ اپنی جان و مال کے تحفظ کےلئے کس کی جانب دیکھیں گے۔ ریاست کی طاقت کیا اپنے مخالفین کو کچلنے کے لئے استعمال ہوتی رہے گی یا یہ عوام کے جان و مال کی حفا ظت کو بھی یقینی بنا ئےگی۔عوام کی اکثریت محسوس کر رہی ہے کہ حکومت نے ایک خاص مکتبہِ فکر کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں جس سے پورے ملک میں خوف و ہراس کی کیفیت چھا ئی ہو ئی ہے اور لوگوں کو اپنی جانوں کے لالے پڑے ہو ئے ہیں ۔چند افراد سرِ عام لوگوں کو اپنی فکر کا غلام بنا نے کےلئے دحمکیاں دے رہے ہیں اور حکومت کو ئی بھی ضروری قدم اٹھا نے سے معذور ہے۔ آج کی شدت پسند مذہبی قیا دت اسلام کی سنہری رویات سے بغاوت کرتے ہوئے خود ہی جزا و سزا کا فیصلہ کر رہی ہے اور اپنے موقف کی صداقت کا ڈرامہ رچا کر مخالفین کے قتل کا فتوی جاری کر کے انھیں راستے سے ہٹا رہی ہے اور اسے خدمتِ اسلام سے تعبیر کر کے خود کو جنت کا حقداد بھی ٹھہرا رہی ہے۔ انکی اس بے ر حم روش سے خوف زدہ ہو کر بہت سے ترقی پسند اور جید علما ملک چھوڑچکے ہیں کیونکہ انھیں ا پنے انجام کا علم ہے ۔۔ ۔
پاکستان کی دو بڑی سیاسی جما عتیں پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی روشن خیال جما عتیں ہیں اور وہ مذہب کو سیاست میں گھسیٹنے کے حق میں نہیں ہیں۔ مسلم لیگ کے دو نوں بڑے قائدین قائدِ اعظم محمد علی جناح اور ڈاکٹر علامہ اقبال جدید اور ترقی پسند سوچ کے علمبردار دار تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیرمین ذولفقار علی بھٹو اسلامی سو شلزم کے نعرے سے خارزارِ سیاست میں وارد ہو ئے لہذا ان دونوں جما عتوں کی قیادت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قوم کو مذہبی بنیا دوں پر تقسیم ہو نے سے بچا ئیں۔ سلمان تاثیر کا قتل دونوں جما عتوں کے لئے لمحہ فکریہ ہو نا چا ئیے۔ وہ بندوق جو آج سلمان تاثیر پر اٹھی ہے کل کو دوسرے کسی لیڈر پر بھی تانی جا سکتی ہے۔ ان دونوں جما عتوں کو مل کر بیٹھنا ہو گا اور اس روش کے خا تمے کے لئے ایک متفقہ لا ئحہ عمل تشکیل دینا ہو گا۔ انسانی جا نوں کے بے رحم قتل سے قومیں تشکیل نہیں پا تیں بلکہ معاشرے تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرتے ہیں۔ پاکستا نی قوم پہلے ہی اپنی بقا کے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے لہذا ضروری ہے کہ اس طرح کے عوامل کو تقویت نہ دی جا ئے بلکہ ان کی بیخ کنی کے لئے کو ئی مضبوط حکمتِ عملی ترتیب دی جا ئے تا کہ اس طرح کے المناک واقعات دوبارہ رونما نہ ہو سکیں۔ہماری خاموشی قو می ذمہ داری سے آنکھیں بند کر لینے کے مترادف ہو گی جسکی سزا پوری قوم کو بھگتنی پڑےگی۔ ۔
کرا چی پچھلے کئی ہفتوں سے ٹارگٹ کلنگ کی زد میں ہے ۔ معصوم اور نہتے شیریوں کا قتلِ عام معمول کے واقعات ہیں جنھوں نے خوف و ہراس کی فضا کو قائم کیا ہوا ہے۔ اسلحے اور بارود کے انبار کو لوگوں کی زند گیو ں کو ختم کرنے کےلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں امن و امان نام کی کو ئی چیز نہیں ہے۔ لوگوں کے جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ نہیں ہے ۔ شہر میں مختلف قسم کے گینگ ہیں جو بھتہ اور جگا ٹیکس وصول کر تے ہیں۔ شرفا کے لئے کو ئی دوسرا راستہ نہیں ہے کہ وہ ان دہشت گردوں کے چنگل سے خود کو آزاد کروا سکیں۔خوف و ہراسکی اس جان لیوا کیفیت میں لوگوں کی جان پر بنی ہو ئی ہے لیکن وہ پھر بھی اس قیامت سے گزرتے ہیں کیو نکہ حکومت نام کی کو ئی چیز کراچی میں نہیں ہے جو عوام کو تحفظ فراہم کر سکے اور ان دھشت گرد عناصر کی کلا ئی مروڑ سکے۔ دھشت گرد شہر میں دندنا تے پھرتے ہیں اور بارود کی طاقت سے عوام کو اپنا غلام بنا ئے ہو ئے ہیں۔ آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں لوگ بھسم ہو رہے ہیں جل رہے ہیں چیخ و پکار کر رہے ہیں ایک کہرام ہے جو ہر سو پھیلا ہوا ہے ۔ ممتا نوحہ کناں ہے آنسو بہا رہی ہے اور اپنی اولاد کی موت پر ماتم کناں ہے اور اپنے پیاروں کی بے وقت موت کا غم سہنا اس کےلئے نا ممکن ہے۔ دھشت گرد لاشوں کے تحفے دینے سے باز نہیں آرہے لیکن معصوموں کے خونِ نا حق کی داد رسی کس سے کی جائے۔۔
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں ۔۔کہ سارے شہر نے پہنے ہو ئے ہیں دستانے (ناصر زیدی)
اگر ہم پاکستانی معاشرے کا کھلی آنکھوں سے جائزہ لیں تو ہمیں یہ کہتے ہو ئے شرمندگی ہوتی ہے کہ یہاں پر انسانی حقوق کی نگہداشت کا ریکارڈ کچھ حوصلہ افزا نہیں ہے بلکہ مختلف مکاتبِِ فکر کی باہمی رسہ کشی اور سر پھٹول سے ہر سال بہت سی انسا نی جا نیں ضا ئع ہو جاتی ہیں اور باہمی آویزش کی یہ داستان آج کی پیدا کردہ نہیں بلکہ یہ صد یوں سے ا یسے ہی چلی آرہی ہے اور شدت پسندوں کی خواہش بھی یہی ہے کہ یہ رویے یو نہی جاری و ساری رہیں کیو نکہ اس کے تسلسل میں ہی ان کی دوکانداری چلتی ہے لہذا اس میں کمی ہو تی ہو ئی نظر نہیں آرہی۔ مذہب کے نام پر لوگوں کے جذبات کو بر ا نگیختہ کر کے مخالفین کے قتل کا فتوی جاری کر دینا روز مرہ کا معمول ہے اور باعثِ حیرت ہے کہ مخصوص لوگ اسے اسلام کی خدمت قرار دے کر اس پر فخر بھی کرتے ہیں لیکن اب لوگوں کو کافر قرار دینے کی اس روش کا خاتمہ ہو نا چا ئیے ۔مذہبی شدت پسندی کے ساتھ ساتھ کچھ سیاسی اور لسانی گروہوں نے بھی اسی راہ کا انتخاب کر لیا ہے۔ وہ اپنے علاوہ دوسروں کو زندہ رہنے کا حق دینے کو تیا نہیں ہے۔ سیاسی بازی جیتنے کی خاطر اور شہر پر اپنا تسلط ووقائم رکھنے کے لئے انسانی جانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے ۔ستم با لائے ستم یہ ہے کہ وہ ساری جماعتیں جو اس گھنا ﺅ نے کھیل میں ملوث ہیں وہ شاملِ اقتدار بھی ہیں لہذا قانون بے بس نظر آرہا ہے۔ قانون کس کو مجرم ٹھہرائے اور کس کا گریبان پکڑ کر بے گنا ہوں کے خون کا حساب ما نگے۔ لاشیں ہیں کہ گرتی چلی جا رہی ہیں لیکن حکمران ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہے ۔ اخباری بیا نات سے قتل و غارت گری نہ پہلے رکی تھی نہ اب رکے گی کیونکہ شہر پر اجارہ داری اور تسلط کاجن انسانی خون کا پیا سا ہو چکا ہے جسکا واحد حل ایسے دھشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نپٹنا ہے نہیں تو یہ دھشت گرد امن پسند لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دیں گے۔
پاکستان میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنا نے اور ملک میں ا من و امان بحال کرانے کی صر ف ایک ہی راہ ہے کہ پاکستان کو اسلحے سے پاک کیا جائے ۔ قتل و غارت گری کو روکنے کی اس سے بہتر تجویز نہیں ہو سکتی کہ لو گوں سے اسلحہ واپس لے لیا جا ئے تا کہ ان میں اعتدال کا مادہ پیدا ہو سکے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر طیش میں آنا اور اپنے مخالفین کا قتل کر دینا محض اس وجہ سے ممکن ہے کہ لوگوں کے پاس اسلحہ ہے ۔ جب ان کے پاس اسلحہ نہیں ہو گا تو لو گوں کی زندگیوں سے کھیلنے کے رحجان میں کمی واقع ہو جائے گی۔حکومت کو بلا تخصیص ہر شہری سے اسلحہ واپس لینے کےلئے حکمتِ عملی ترتیب دینی ہو گی تاکہ لوگ امن و امان کی دولت سے مستفیض ہو سکیں اور پاکستان کی موجودہ دھشت گرد ملک کی پہچان ختم ہو سکے اور دنیا ایک ایسے امن پسند پاکستان کا چہرہ دیکھے جو اس کے تخلیق کاروں کا خواب تھا۔ مجھے علم ہے کہ یہ راہ بہت کٹھن ہے لیکن عزمِ مصمم جواں ہو تو ناممکن کو ممکن بنا یا جا سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ہم امید کے دامن کو مضبوطی سے تھا مے رکھیں۔۔۔۔بقولِ ساغر صدیقی
یقین کر کہ یہ کہنہ نظام بدلے گا۔۔مرا شعور مزاجِ عام بدلے گا
دل و نظر کو عطا ہو ں گی مستیاں ساغر۔۔یہ بزمِ ساقی، یہ بادہ ،یہ جام بدلے گا
(ساغر صدیقی )
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،