جاہل حکمران
ثبوت کے ساتھ سچی اور پکی خبر ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے کابینہ کے اجلاس میں وزیروں کی فوج کے سامنے سورة اخلاص کی غلط تلاوت کردی اس سورة کو انہوں نے تین بار پڑھنے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے جس پر وہاں موجود وزیروں نے بھی قہقہے لگائے جبکہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی ہدایت پر مخدوم شہاب نے تلاوت کی اور کابینہ کا اجلاس شروع کیا گیا یہ ہمارے پیار ے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر داخلہ رحمان ملک صاحب جو کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان کے دینی مدارس کے نصاب کی اصلاح ہو جائے اس سلسلے میں وزیر داخلہ رحمان ملک متعدد مدارس کا دورہ اور دینی مدارس کے نمائندوں سے متعدد میٹنگ کرکے نصاب کی درستگی کی ہدایت دیتے رہے اور خود ایک ایسی سورت کی تلاوت نہیں کرسکے جو ہرنماز اور فاتحہ خوانی میں پڑھی جاتی ہے وزیر داخلہ رحمان ملک یقیناً کئی درباروں، قبروں اور جنازوں پر گئے ہیں اور انہیں وہاں ہاتھ اٹھاکر فاتحہ خوانی کرتے بھی دکھایا جاتارہاہے لیکن کابینہ کے حالیہ اجلاس کے بعد پتہ چلاکہ انہیں تو سورة اخلاص ہی نہیں آتی وہ تو صرف ہاتھ اٹھاکر ایکٹنگ کرتے ہیں اس صورتحال کے پیش نظر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ قاری محمد حنیف جالندھری نے وزیر داخلہ رحمان ملک کو پیش کش کی ہے کہ وہ کسی مدرسے میں داخلہ لے لیں ہم پورے اخلاص سے سورة اخلاس پڑھائیں گے قاری محمد حنیف جالندھری نے وزیر داخلہ رحمان ملک کو سورة اخلاص یاد نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے آئین پاکستان کی توہین قرار دیا ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 62اور63اس سلسلے میں واضح ہے اسی کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ نے وزیر داخلہ رحمان ملک کی نااہلی کیلئے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا ہے اورقوی امید ہے کہ وہ آئین کی روشنی مے اس پر ضروراپنا فیصلہ سنائیں گے ۔
جہاں تک ہمارے اسلامی ملک کے دیگر حکمرانوں کا تعلق ہے ان پر بھی غور فرمایا جائے سورة اخلاص کی غلط تلاوت کرنے والے وزیر رحمان ملک کے قائد وزیراعظم یوسف رضا جو کہ گیلانی سید بھی ہیں اور حضرت موسیٰ پاک شہید دربارملتان کے سجادہ نشین بھی ہیں ان کا یہ حال ہے کہ وہ کرسمس کی ایک تقرب میں خطاب فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ حق کی بات کرتے ہوئے سولی پر چڑھ گئے جبکہ ہمارے نبی آخرالزمان ﷺ اور اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ”قرآن “ہمیں بتاتی ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو نہ سولی پر چڑھایا گیا اور نہ ہی انہیں قتل کیا گیا بلکہ انہیں اٹھا لیا گیا دوسرے لفظوں میں غائب کردیا گیا جن کا حضور ﷺکے بطور امتی کے طورپردوبارہ نزول ہوگا اسی طرح اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر آصف علی زرداری جو بچپن میں فلموں میں بھی کام کرچکے ہیں انہوں نے بھی اپنا”زرداری فتویٰ “جاری کیا ہے کہ میرا اسلام مجھے یہ نہیں کہتاکہ داڑھی رکھ اور ٹخنے ننگے رکھ ۔ یہ ہمارے ملک کے بڑے ہیں اب ان کے چھوٹوں کا حال دیکھ لیں کہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر جنکے والد محترم پروفیسر تاثیر نے غازی علم الدین شہید کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے پھانسی کے بعدغازی علم الدین شہید کے جسد خاکی کو ”بگی “پر رکھ کر اور خود ”بگی “کو چلاکر غازی علم الدین شہید کی رہائش گاہ پر لے کر گئے تھے بدقسمتی سے ان کے صاحبزادے گورنر پنجاب سلمان تاثیر توہین رسالت کی مرتکب آسیہ مسیح کو رہا کرکے بیرون ملک بھجوانے کے خواہش مند ہیں اور ناموس رسالت کے قانون کو کالا قانون فرماتے ہیں جبکہ اسی پیپلزپارٹی کی ایک خاتون رکن شیریں رحمان نے ناموس رسالت قانون 295سی میں ترمیم کیلئے بل پارلیمنٹ میں پیش کردیا ہے اور اسے جلد ازجلد منظور کرنے کیلئے بے تاب ہے اگر یہ دیکھا جائے تو حکمرانوں کی صفوں میں موجود یہ سب لوگ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 62اور63کے مجرم ہوتے ہیں لیکن افسوس کیا جائے غلطی بھی تو ہماری ہی ہے۔
ایسے حکمرانوں کی وجہ سے ایٹمی ملک ہونے کے باوجودہمارا ملک مغربی دنیا کے نشانے پر ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے اسلامی تشخص کو ختم کردیا جائے اس لئے انہوں نے ہمارے اندر موجود اپنے جیسے لوگوں کا چناو کرکے اسلامی تشخص پر حملہ کیا ہواہے جس کا سب سے بڑا ٹارگٹ ہمارے ملک کے دینی مدارس ہے کبھی دینی مدارس آرڈیننس کبھی سرکاری سطح پر”مدرسہ ایجوکیشن بورڈ “اورکبھی مدارس میں اصلاحات کا پروگرام” ماڈل مدارس “قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا آج کے ان حکمرانوں نے بھی دینی مدارس کے خاتمے اور نصاب کی تبدیلی کی بات کی ہے حالانکہ دینی مدارس آنے والے وقت کے مطابق اپنے نصاب میں ازخود متعدد تبدیلیاں کرتے رہتے ہیں پاکستان میں اس وقت مسلکی بنیاد پر پانچ بورڈ آزادانہ طور پر قائم ہیں ان وفاقوں کا اپنا اپنا امتحانی نظام ہے جس کے تحت ان کے زیر نگرانی تمام مدارس کے امتحانات ہوتے ہیں اور انہیں باقاعدہ اسناد جاری کی جاتی ہیں ان وفاقوں کو آخری سند (دورہ حدیث سے فراغت کے بعد الشہادة العالمیتہ )سرکاری طور پر یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے فیصلہ کے مطابق ایم اے اسلامیات اور ایم اے عربی کے برابر تصور کیا جاتا ہے دینی مدارس ایک بہت بڑی این جی او بھی ہے جس کے ذریعے ملک کے لاکھوں نادار افراد نہ صرف تعلیم سے بہرہ ور ہوتے ہیں بلکہ ان کی ضروریات مثلاً خوراک ،رہائش ،علاج وکتابوں کی کفالت کا انتظام بھی کیا جاتا ہے ۔
برطانیہ ،پرتگال ،فرانس ،ہالینڈ اور دیگر استعماری قوتوں کے تسلط سے قبل ان ممالک میں دینی تعلیمات کے فروغ کو ریاستی ذمہ داری شمار کیا جاتا تھا اور ہرمسلمان حکومت اپنے ملک کے باشندوں کو قرآن وسنت کی تعلیمات اور دینی احکام و فرائض سے آگاہ کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتی تھی جس کیلئے ریاستی نظام میں خاطر خواہ بندوبست موجود ہوتا تھا مگر جب استعماری قوتوں نے مختلف حیلوں اور رشیہ دوانیوں سے مسلم ممالک کے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور ان ملکوں کے نظاموں کو تبدیل کرکے دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ تعلیمی شعبہ میں بھی تبدیلی کرکے مسلم عوام کو دینی تعلیم کے صدیوں سے چلے آنے والے تسلسل سے محروم کردیا تو آسمانی تعلیمات کے تحفظ ،دینی تعلیمات کے فروغ اور مسلم عوام کو قرآن وسنت کی تعلیمات و احکام سے آراستہ کرنے کی ذمہ داری کو اپنا بنیادی اور ناگزیر فریضہ سمجھتے ہوئے مسلمانوں کی مذہبی قیادت نے اس کیلئے امداد باہمی کی بنیاد پر رضا کارانہ اور پرائیویٹ تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی کو آج مختلف مسلم ممالک بل خصوص جنوبی ایشیاء کے ممالک میں دینی مدارس کی شکل میں موجود ہے۔
مغربی ممالک کی جانب سے مدارس پر بنیاد پرستی،دہشت گردی اورعسکری تربیت کا الزام ہے جہاں تک جہاد کا معاملہ ہے تو جہاد ہمارے ایمان اور قرآن وسنت کی تعلیم کا حصہ ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور نہ اسے محض اس لئے نصاب سے نکالا جاسکتاہے کہ اس سے دنیا کے کچھ حلقوں کو ناراضگی ہوتی ہے تاہم جہاد کی ٹریننگ کا نظام کسی مدرسے میں موجود نہیں ہے البتہ سکاری سکولوں و کالجوں میں این سی سی کی طرز سے نیم فوجی تربیت دی جاتی ہے چوہدری شجاعت حسین کا کہنا تھا کہ جب وہ وزر داخلہ ہوتے تھے تو انہوں نے دینی مدارس دہشت گردی کی تربیت کے الزام کے بارے میں انکوائری کی تھی مگر ملک میں ایک بھی مدرسہ ایسا نہیں پایا گیا جہاں دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہو اس لئے وہ دینی مدارس کے کردار کی اہمیت سے آگاہ ہیں اور ان کے تحفظ پر یقین رکھتے ہیں اسی طرح سابق وفاقی وزیر مذہبی امور اعجاز الحق نے کہاکہ حکومت نے ماڈل دینی مدارس کے نام سے متبادل دینی مدارس کے قیام کا جو منصوبوں بنایا تھا وہ بری طرح ناکام ہوگیا ہے اور کروڑوں روپے سے جو تین ماڈل مدرسے بنائے گئے تھے ان کی ناکامی کے بعد یہ سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے اس لئے موجودہ حکومت کو چاہے کہ وہ دینی مدارس میں اصلاحات کا پروپگنڈہ چھوڑ کر اپنے وزراءکی اصلاح پر زور دے تاکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزراءکہلوانے والے دین اسلام کے متعلق کم ازکم معلومات ضرور رکھ سکیں اس لئے میرا مشورہ ہے کہ تمام وزراءکسی نہ کسی مدرسے میں دین اسلام کی کم ازکم تعلیم ضرور حاصل کریں ۔