تہذیب سے بربریت تک
تحریر:ضمیر آفاقی
سانحہ سیالکوٹ پر کوئی دل ایسا نہیں جو دکھ اور غم سے پُھٹا نہ جا رہا ہو اور کوئی آنکھ ایسی نہیں جو نمناک نہ ہوئی ہو بربریت سے تہذیب کی جانب سفر جاری ہے مگر پاکستان میں تہذیب سے بر بریت کی جانب مراجعت ہو رہی ہے جو کچھ یہاں ہو رہا ہے اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی ہمارے نظام کے تباہ حال ڈھانچے میں اس طرح کے واقعات آخری کیل ثابت ہو سکتے ہیں اگر ہم میں کوئی انسانیت کی رمق باقی ہو ورنہ اسطرح کے واقعات کو ہم بحیثیت معاشرہ قبول کرتے جارہے ہیں اگر بادی النظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کا نظام انصاف جس کی پہلی سیڑھی پولیس کا ادارہ ہے وہ اخلاقی طور پر اتنا تباہ ہو چکا ہے کہ اس کی اصلاح نامکن دکھائی دیتی ہے ، یوں لگتا ہے جیسے پاکستان میں قانون،اخلاق ،تہذیب اور رواداری کا کوئی وجود نہیں ہے یہاں آئے روز اس طرح کے واقعات کا ظہور ہو رہا ہے جنہیں دیکھ اور سن کر انسانیت بھی شرما رہی ہے اور دنیا بھر میں بطور ملک ہمارا امیج بھی بری طرح مجروح ہو رہا ہے ،لیکن اس کے باوجود ہم بحیثیت مجموعی کسی بھی بات کا اثر لینے کے لئے تیار نہیں ،قانون کو قانون کے رکھوالوں نے کھلواڑ بنا کر رکھ دیا ہے ،ابھی ہم کسی ایک واقعے کی شرمندگی سے باہر نہیں نکلتے کہ اس سے بڑا واقع ہمیں دنیا بھر میں ذلیل و خوار کرنے کے لئے رونما ہو جاتا ہے،سیالکوٹ میں ہونے والا واقع نہ صرف شرمناک ہے بلکہ اس واقعے نے ہمارئے پورئے نظام عدل کے منہ پر طمانچہ رسید کرنے کے ساتھ یہ بھی باور کرا دیا ہے کہ ہم انسان اور انسانیت کی توہین کرنے میں دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہیں،سیالکوٹ میں ہونے والے سفاک واقعے کے بعد حکمرانوں کی آنیاں جانیاں لگی ہوئے ہیں عدالتیں از خود نوٹس لے رہی ہیں اس ساری ایکسر سائز کا فائدہ تو تب ہی ہو سکتا ہے کہ دوبارہ اس طرح کا کوئی واقعہ اس ملک میں کہیں رونما نہ ہو ورنہ از خود نوٹس اور آنیاں جانیاں سبھی رائیگاں ہیں ، اس سانحے کی جو تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں وہ کسی بھی صاحب دل کے رونگٹے کھڑے کرنے کے لئے کافی ہیں ۔کسی بھی ایسے واقعے کے بعد ایک لایحل بحث شروع ہو جاتی ہے جس کے ملبے کے نیچے اصل واقعہ دب کے رہ جاتا ہے اس ملک میں کسی اور چیز کی کمی ہو نہ ہو مگر دانشوروں کی کمی نہیں ہے دو معصوم بچے بڑی سفاکی سے مار دئے گئے اور مارنے کے بعد انہیں ڈاکو ثابت کرنے کا گناہ عظیم بھی کیا گیا اس سے بڑھ کر اخلاقی بحران کیا ہو گا سیالکوٹ کی زمین پر ہونے والے اس گھناؤنے واقعے کو دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ تشدد کے بعد جب انہیں الٹا لٹکایا گیا تو چھوٹا لڑکا حافظ منیب تو تین چار منٹ کے اندر ہی مر چکا تھا جبکہ دوسرا پون گھنٹے تک زندہ رہا حتی کہ جب اسے الٹا لٹکایاگیا تو وہ تب بھی زندہ تھا۔ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ وہ سترہ برس کا لڑکاخاموشی سے مار برداشت کرتا رہا لیکن اس کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلا اس نے الٹے لٹکنے کے دوران دم توڑا تھا اور بعد میں جب پولیس کے اعلیٰ افسروں کے آنے کے بعد ان کی لاشیں اتاری گئیں تو تب بھی ان کی بے حرمتی کی گئی اور لاشوں کو سہارا دیئے بغیر رسیاں کاٹ دی گئیں۔ اس واقعے پر مبصرین کا کہناہے کہ بات یہ نہیں کہ لڑکے ڈکیتی کرنے آئے تھے یا یہ کرکٹ کھیلنے کے دوران جھگڑا ہوا اصل بات یہ ہے گوجرانوالہ ریجن کی پولیس ملزموں کو سرعام سزادینے پر یقین رکھتی ہے۔گوجرانوالہ ریجن میں ایسی درجنوں ہلاکتیں ہوئیں جن پر ماورائے عدالت قتل کا الزام لگا اور ایسے متعدد واقعات ہوئے جہاں لاشوں کو سرعام بازاروں میں پھرایا گیا اور ان کی نمائش کرتے ہوئے پولیس افسروں نے لاوڈ سپیکر پرعبرت حاصل کرنے کی نصیحتیں کیں۔گوجرانوالہ ریجن میں گزشتہ دو ڈھائی برس کے دوران ہونے والے اس طرح کے درجنوں واقعات میڈیا پر رپورٹ ہوتے رہے لیکن وفاقی اور نہ ہی صوبائی حکومت کے کان پر جوں رینگی۔ اگر اب بھی یہ واقعہ میڈیا کے ذریعے منظر عام پر نہ آتا اور شدید عوامی ردعمل نہ ہوتا تو پولیس ان بچوں کو ڈاکو ثابت کر کے کسی تقریب میں میڈل وصول کر رہی ہو تی ۔ یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری حکمران اشرافیہ ایک تو پولیس کے اس بوسیدہ نظام سے چھٹکارا حاصل کرنے میں جلدی کرے اور دوسرا اس واقعے کے مجرموں کو ایک ایسی مثال بنا دیا جائے کہ دوبارہ کوئی شخص یا ادرہ اس طرح کی حرکت کرتے ہوئے سو بار سوچے ۔خدارا معاشرے قانون کی حکمرانی کے ذریعے قائم رہتے ہیں جس کی جانب گزشتہ دنوں جناب چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے ان الفاظ کے ساتھ حکمرانوں کو متوجہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ کفر پر مبنی نظام تو قائم رہ سکتا ہے مگر ظلم پر مبنی نظام قائم نہیں رہ سکتا اس طرح کے نظام کے حامل معاشرے ہوں یا ریاستیں وہ مٹ جایا کرتی ہیں کیا جناب چیف جسٹس انصاف کی راہ میں حائل ہونے والے اس طاقت ور گروپ کی جانب بھی توجہ دیں گے؟ جبکہ ابھی بھی گناہگاروں کو بچانے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔